Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهۡلِكَ الۡقُرٰى بِظُلۡمٍ وَّاَهۡلُهَا مُصۡلِحُوۡنَ‏ ﴿117﴾
آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کر دے اور وہاں کے لوگ نیکوکار ہوں ۔
و ما كان ربك ليهلك القرى بظلم و اهلها مصلحون
And your Lord would not have destroyed the cities unjustly while their people were reformers.
Aap ka rab aisa nahi kay kissi basti ko zulm say halak ker dey aur wahan kay log neko kaar hon.
اور تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں پر ظلم کر کے انہیں تباہ کر دے جبکہ ان کے باشندے صحیح روش پر چل رہے ہوں ۔
اور تمہارا رب ایسا نہیں کہ بستیوں کو بےوجہ ہلاک کردے اور ان کے لوگ اچھے ہوں ،
تیرا ربّ ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں ۔ 115
اور آپ کا رب ایسا نہیں کہ وہ بستیوں کو ظلمًا ہلاک کر ڈالے درآنحالیکہ اس کے باشندے نیکوکار ہوں
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :115 ان آیات میں نہایت سبق آموز طریقے سے ان قوموں کی تباہی کے اصل سبب پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کی تاریخ پچھلے چھ رکوعوں میں بیان ہوئی ہے ۔ اس تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا جاتا ہے کہ صرف انہی قوموں کو نہیں ، بلکہ پچھلی انسانی تاریخ میں جتنی قومیں بھی تباہ ہوئی ہیں ان سب کو جس چیز نے گرایا وہ یہ تھی کہ جب اللہ تعالی نے انہیں اپنی نعمتوں سے سرفراز کیا تو وہ خوشحالی کے نشے میں مست ہو کر زمین میں فساد برپا کرنے لگیں اور ان کا اجتماعی خمیر اس درجہ بگڑ گیا کہ یا تو ان کے اندر ایسے نیک لوگ باقی رہے ہی نہیں جو ان کو برائیوں سے روکتے ، یا اگر کچھ لوگ ایسے نکلے بھی تو وہ اتنے کم تھے اور ان کی آواز اتنی کمزور تھی کہ ان کے روکنے سے فساد نہ رک سکا ۔ یہی چیز ہے جس کی بدولت آخرکار یہ قومیں اللہ تعالی کے غضب کی مستحق ہوئیں ، ورنہ اللہ کو اپنے بندوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ وہ تو بھلے کام کر رہے ہوں اور اللہ ان کو خواہ مخواہ عذاب میں مبتلا کر دے ۔ اس ارشاد سے یہاں یہ تین باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں ۔ ایک یہ کہ ہر اجتماعی نظام میں ایسے نیک لوگوں کا موجود رہنا ضروری ہے جو خیر کی دعوت دینے والے اور شر سے روکنے والے ہوں ۔ اس لیے کہ خیر ہی وہ چیز ہے جو اصل میں اللہ کو مطلوب ہے ، اور لوگوں کے شرور کو اگر اللہ برداشت کرتا بھی ہے تو اس خیر کی خاطر کرتا ہے جو ان کے اندر موجود ہو ، اور اسی وقت تک کرتا ہے جب تک ان کے اندر خیر کا کچھ امکان باقی رہے ۔ مگر جب کوئی انسانی گروہ اہل خیر سے خالی ہو جائے اور اس میں صرف شریر لوگ ہی باقی رہ جائیں ، یا اہل خیر موجود ہوں بھی تو کوئی ان کی سن کر نہ دے اور پوری قوم کی قوم اخلاقی فساد کی راہ پر بڑھتی چلی جائے ، تو پھر خدا کا عذاب اس کے سر پر اس طرح منڈلانے لگتا ہے جیسے پورے دنوں کی حاملہ کہ کچھ نہیں کہہ سکتے کب وضع حمل ہوجائے ۔ دوسرے یہ کہ جو قوم اپنے درمیاں سب کچھ برداشت کرتی ہو مگر صرف انہی چند گنے چنے لوگوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو جو اسے برائیوں سے روکتے اور بھلائیوں کی دعوت دیتے ہوں ، تو سمجھ لو کہ اس کے برے دن قریب آگئے ہیں ، کیونکہ اب وہ خود ہی اپنی جان کی دشمن ہوگئی ہے ۔ اسے وہ سب چیزیں تو محبوب ہیں جو اس کی ہلاکت کی موجب ہیں اور صرف وہی ایک چیز گوارا نہیں ہے جو اس کی زندگی کی ضامن ہے ۔ تیسرے یہ کہ ایک قوم کے مبتلائے عذاب ہونے یا نہ ہونے کا آخری فیصلہ جس چیز پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں دعوت خیر پر لبیک کہنے والے عناصر کس حد تک موجود ہیں ۔ اگر اس کے اندر ایسے افراد اتنی تعداد میں نکل آئیں جو فساد کو مٹانے اور نظام صالح کو قائم کرنے کے لیے کافی ہو تو اس پر عذاب عام نہیں بھیجا جاتا بلکہ ان صالح عناصر کو اصلاح حال کا موقع دیا جاتا ہے ، لیکن اگر پیہم سعی وجہد کے باوجود اس میں سے اتنے آدمی نہیں نکلتے جو اصلاح کے لیے کافی ہو سکیں ، اور وہ قوم اپنی گود سے چند ہیرے پھنک دینے کے بعد اپنے طرز عمل سے ثابت کر دیتی ہے کہ اب اس کے پاس کوئلے ہی کوئلے باقی رہ گئے یہں ، تو پھر کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی کہ وہ بھٹی سلگا دی جاتی ہے جو ان کوئلوں کو پھونک کر رکھ دے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الذاریات ، حاشیہ 34 )