Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
اِذۡ قَالُوۡا لَيُوۡسُفُ وَاَخُوۡهُ اَحَبُّ اِلٰٓى اَبِيۡنَا مِنَّا وَنَحۡنُ عُصۡبَةٌ  ؕ اِنَّ اَبَانَا لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنِ ‌ۖ ‌ۚ‏ ﴿8﴾
جب کہ انہوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی بہ نسبت ہمارے باپ کو بہت زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم ( طاقتور ) جماعت ہیں ، کوئی شک نہیں کہ ہمارے ابا صریح غلطی میں ہیں ۔
اذ قالوا ليوسف و اخوه احب الى ابينا منا و نحن عصبة ان ابانا لفي ضلل مبين
When they said, "Joseph and his brother are more beloved to our father than we, while we are a clan. Indeed, our father is in clear error.
Jabkay unhon ney kaha kay yousuf aur uss ka bhai ba-nisbat humaray baap ko boht ziyada piyaray hain halankay hum ( taqatwar ) jamat hain koi shak nahi kay humaray abba sareeh ghalati mein hain.
۔ ( یہ اس وقت کا واقعہ ہے ) جب یوسف کے ان ( سوتیلے ) بھائیوں نے ( آپس میں ) کہا تھا کہ : یقینی طور پر ہمارے والد کو ہمارے مقابلے میں یوسف اور اس کے ( حقیقی ) بھائی ( بنیامین ) سے زیادہ محبت ہے ، حالانکہ ہم ( ان کے لیے ) ایک مضبوط جتھ بنے ہوئے ہیں ۔ ( ٤ ) ہمیں یقین ہے کہ ہمارے والد کسی کھلی غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔
جب بولے ( ف۱۵ ) کہ ضرور یوسف اور اس کا بھائی ( ف۱٦ ) ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں اور ہم ایک جماعت ہیں ( ف۱۷ ) بیشک ہمارے باپ صراحةً ان کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں ( ف۱۸ )
یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا یہ یوسف ( علیہ السلام ) اور اس کا بھائی ، 8 دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں ، سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں ۔ 9
۔ ( وہ وقت یاد کیجئے ) جب یوسف ( علیہ السلام ) کے بھائیوں نے کہا کہ واقعی یوسف ( علیہ السلام ) اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ( دس افراد پر مشتمل ) زیادہ قوی جماعت ہیں ۔ بیشک ہمارے والد ( ان کی محبت کی ) کھلی وارفتگی میں گم ہیں
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :8 اس سے مراد حضرت یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی بنیامین ہیں جو ان سے کئی سال چھوٹے تھے ۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام ان دونوں بے ماں کے بچوں کا زیادہ خیال رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ اس سے محبت کی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی ساری اولاد میں صرف ایک حضرت یوسف علیہ السلام ہی ایسے تھے جن کے اندر ان کو آثار رشد و سعادت نظر آتے تھے ۔ اوپر حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب سن کر انہوں نے جو کچھ فرمایا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس بیٹے کی غیر معمولی صلاحیتوں سے خوب واقف تھے ۔ دوسری طرف ان دس بڑے صاحبزادوں کی سیرت کا جو حال تھا اس کا اندازہ بھی آگے کے واقعات سے ہو جاتا ہے ۔ پھر کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ ایک نیک انسان ایسی اولاد سے خوش رہ سکے ۔ لیکن عجیب بات ہے کہ بائیبل میں برادران یوسف علیہ السلام کے حد کی ایک ایسی وجہ بیان کی گئی ہے جس سے الٹا الزام حضرت یوسف علیہ السلام پر عائد ہوتا ہے ۔ اس کا بیان ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام بھائیوں کی چغلیاں باپ سے کھایا کرتے تھے اس وجہ سے بھائی ان سے ناراض تھے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :9 اس فقرے کی روح سمجھنے کے لیے بدویانہ قبائلی زندگی کے حالات کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ جہاں کوئی ریاست موجود نہیں ہوتی اور آزاد قبائل ایک دوسرے کے پہلو میں آباد ہوتے ہیں ، وہاں ایک شخص کی قوت کا سارا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کے اپنے بیٹے ، پوتے ، بھائی ، بھتیجے بہت سے ہوں جو وقت آنے پر اس کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے اس کا ساتھ دے سکیں ۔ ایسے حالات میں عورتوں اور بچوں کی بہ نسبت فطری طور پر آدمی کو وہ جوان بیٹے زیادہ عزیز ہوتے ہیں جو دشمنوں کے مقابلہ میں کام آسکتے ہوں ۔ اسی بنا پر ان بھائیوں نے کہا کہ ہمارے والد بڑھاپے میں سٹیا گئے ہیں ۔ ہم جوان بیٹوں کا جتھا ، جو برے وقت پر ان کے کام آسکتا ہے ، ان کو اتنا عزیز نہیں ہے جتنے یہ چھوٹے چھوٹے بچے جو ان کے کسی کام نہیں آسکتے بلکہ الٹے خود ہی حفاظت کے محتاج ہیں ۔