Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
فَلَمَّا ذَهَبُوۡا بِهٖ وَاَجۡمَعُوۡۤا اَنۡ يَّجۡعَلُوۡهُ فِىۡ غَيٰبَتِ الۡجُبِّ‌ۚ وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡهِ لَـتُنَـبِّئَـنَّهُمۡ بِاَمۡرِهِمۡ هٰذَا وَهُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿15﴾
پھر جب اسے لے چلے اور سب نے ملکر ٹھان لیا اسے غیر آباد گہرے کنوئیں کی تہ میں پھینک دیں ، ہم نے یوسف ( علیہ السلام ) کی طرف وحی کی کہ یقیناً ( وقت آرہا ہے کہ ) تو انہیں اس ماجرا کی خبر اس حال میں دے گا کہ وہ جانتے ہی نہ ہوں ۔
فلما ذهبوا به و اجمعوا ان يجعلوه في غيبت الجب و اوحينا اليه لتنبنهم بامرهم هذا و هم لا يشعرون
So when they took him [out] and agreed to put him into the bottom of the well... But We inspired to him, "You will surely inform them [someday] about this affair of theirs while they do not perceive [your identity]."
Phir jab issay ley chalay aur sab ney mill ker thaan liya kay issay ghair abad gehray koowen ki teh mein phenk den hum ney yousuf ( alh-e-salam ) ki taraf wahee ki kay yaqeenan ( waqt aaraha hai kay ) tu enhen iss majray ki khabar iss haal mein dey ga kay woh jantay hi na hon.
پھر ہوا یہ کہ جب وہ ان کو ساتھ لے گئے ، اور انہوں نے یہ طے کر ہی رکھا تھا کہ انہیں ایک اندھے کنویں میں ڈال دیں گے ، ( چنانچہ ڈال بھی دیا ) تو ہم نے یوسف پر وحی بھیجی کہ ( ایک وقت آئے گا جب ) تم ان سب کو جتلاؤ گے کہ انہوں نے یہ کیا کام کیا تھا ۔ ( ٩ ) اور اس وقت انہیں پتہ بھی نہ ہوگا ( کہ تم کون ہو؟ )
پھر جب اسے لے گئے ( ف۳۲ ) اور سب کی رائے یہی ٹھہری کہ اسے اندھے کنویں میں ڈال دیں ( ف۳۳ ) اور ہم نے اسے وحی بھیجی ( ف۳٤ ) کہ ضرور تو انھیں ان کا یہ کام جتادے گا ( ف۳۵ ) ایسے وقت کہ وہ نہ جانتے ہوں گے ( ف۳٦ )
“ اس طرح اسرار کر کے جب وہ اسے لے گئے اور انہوں نے طے کر لیا کہ اسے ایک اندھے کنوئیں میں چھوڑ دیں ، تو ہم نے یوسف کو وحی کی کہ ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتائے گا ، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں ۔ 12
پھر جب وہ اسے لے گئے اور سب اس پر متفق ہوگئے کہ اسے تاریک کنویں کی گہرائی میں ڈال دیں تب ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی: ( اے یوسف! پریشان نہ ہونا ایک وقت آئے گا ) کہ تم یقینًا انہیں ان کا یہ کام جتلاؤ گے اور انہیں ( تمہارے بلند رتبہ کا ) شعور نہیں ہوگا
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :12 متن میں وَھُم لَایَشعُرُونَ کے الفاظ کچھ ایسے انداز سے آئے ہیں کہ ان سے تین معنی نکلتے ہیں اور تینوں ہی لگتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم یوسف علیہ السلام کو یہ تسلی دے رہے تھے اور اس کے بھائیوں کو کچھ خبر نہ تھی کہ اس پر وحی جاری ہے ۔ دوسرے یہ کہ تو ایسے حالات میں ان کی یہ حرکت انہیں جتائے گا جہاں تیرے ہونے کا انہیں وہم و گمان تک نہ ہوگا ۔ تیسرے یہ کہ آج یہ بے سمجھے بوجھے ایک حرکت کر رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ آئندہ اس کے نتائج کیا ہونے والے ہیں ۔ بائیبل اور تَلمود اس ذکر سے خالی ہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یوسف علیہ السلام کو کوئی تسلی بھی دی گئی تھی ۔ اس کے بجائے تلمود میں جو روایت بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کنویں میں ڈالے گئے تو وہ بہت بلبلائے اور خوب چیخ چیخ کر انہوں نے بھائیوں سے فریاد کی ۔ قرآن کا بیان پڑھیے تو محسوس ہوگا کہ ایک ایسے نوجوان کا بیان ہو رہا ہے جو آگے جل کر تاریخ انسانی کی عظیم ترین شخصیتوں میں شمار ہونے والا ہے ۔ تلمود کو پڑھیے تو کچھ ایسا نقشہ سامنے آئے گا کہ صحرا میں چند بدو ایک لڑکے کو کنویں میں پھینک رہے ہیں اور وہ وہی کچھ کر رہا ہے جو ہر لڑکا ایسے موقع پر کرے گا ۔
بھائی اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوگئے ۔ سمجھا بجھا کر بھائیوں نے باپ کو راضی کر ہی لیا ۔ اور حضرت یوسف کو لے کر چلے جنگل میں جا کر سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یوسف کو کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں ڈال دیں ۔ حالانکہ باپ سے یہ کہہ کر لے گئے تھے کہ اس کا جی بہلے گا ، ہم اسے عزت کے ساتھ لے جائیں گے ۔ ہر طرح خوش رکھیں گے ۔ اس کا جی بہل جائے گا اور یہ راضی خوشی رہے گا ۔ یہاں آتے ہی غداری شروع کردی اور لطف یہ ہے کہ سب نے ایک ساتھ دل سخت کر لیا ۔ باپ نے ان کی باتوں میں آکر اپنے لخت جگر کو ان کے سپرد کردیا ۔ جاتے ہوئے سینے سے لگا کر پیار پچکار کر دعائیں دے کر رخصت کیا ۔ باپ کی آنکھوں سے ہٹتے ہی ان سب نے بھائی کو ایذائیں دینی شروع کر دیں برا بھلا کہنے لگے اور چانٹا چٹول سے بھی باز نہ رہے ۔ مارتے پیٹتے برا بھلا کہتے ، اس کنویں کے پاس پہنچے اور ہاتھ پاؤں رسی سے جکڑ کر کنویں میں گرانا چاہا ۔ آپ ایک ایک کے دامن سے چمٹتے ہیں اور ایک ایک سے رحم کی درخواست کرتے ہیں لیکن ہر ایک جھڑک دیتا ہے اور دھکا دے کر مار پیٹ کر ہٹا دیتا ہے مایوس ہوگئے سب نے مل کر مضبوط باندھا اور کنویں میں لٹکا دیا آپ نے کنویں کا کنارا ہاتھ سے تھام لیا لیکن بھائیوں نے انگلویوں پر مار مار کر اسے بھی ہاتھ سے چھڑا لیا ۔ آدھی دور آپ پہنچے ہوں گے کہ انہوں نے رسی کاٹ دی ۔ آپ تہ میں جا گرے ، کنویں کے درمیان ایک پتھر تھا جس پر آکر کھڑے ہوگئے ۔ عین اس مصیبت کے وقت عین اس سختی اور تنگی کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کی جانب وحی کی کہ آپ کا دل مطمئن ہو جائے آپ صبر و برداشت سے کام لیں اور انجام کا آپ کو علم ہو جائے ۔ وحی میں فرمایا گا کہ غمگین نہ ہو یہ نہ سمجھ کہ یہ مصیبت دور نہ ہوگی ۔ سن اللہ تعالیٰ تجھے اس سختی کے بعد آسانی دے گا ۔ اس تکلیف کے بعد راحت ملے گی ۔ ان بھائیوں پر اللہ تجھے غلبہ دے گا ۔ یہ گو تجھے پست کرنا چاہتے ہیں لیکن اللہ کی چاہت ہے کہ وہ تجھے بلند کرے ۔ یہ جو کچھ آج تیرے ساتھ کر رہے ہیں وقت آئے گا کہ تو انہیں ان کے اس کرتوت کو یاد دلائے گا اور یہ ندامت سے سر جھکائے ہوئے ہوں گے اپنے قصور سن رہے ہوں گے ۔ اور انہیں یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ تو وہ ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب برادران یوسف حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ نے تو انہیں پہچان لیا لیکن یہ نہ پہچان سکے ۔ اس وقت آپ نے ایک پیالہ منگوایا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر اسے انگلی سے ٹھونکا ۔ آواز نکلی ہی تھی اس وقت آپ نے فرمایا لو یہ جام تو کچھ کہہ رہا ہے اور تمہارے متعلق ہی کچھ خبر دے رہا ہے ۔ یہ کہہ رہا ہے تہارا ایک یوسف نامی سوتیلا بھائی تھا ۔ تم اسے باپ کے پاس سے لے گئے اور اسے کنویں میں پھینک دیا ۔ پھر اسے انگلی ماری اور ذرا سی دیر کان لگا کر فرمایا لو یہ کہہ رہا ہے کہ پھر تم اس کے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر باپ کے پاس گئے اور وہاں جاکر ان سے کہہ دیا کہ تیرے لڑکے کو بھیڑیئے نے کھا لیا ۔ اب تو یہ حیران ہوگئے آپس میں کہنے لگے ہائے برا ہوا بھانڈا پھوٹ گیا اس جام نے تو تمام سچی سچی باتیں بادشاہ سے کہہ دیں ۔ پس یہی ہے جو آپ کو کنویں میں وحی ہوئی کہ ان کے اس کے کرتوت کو تو انہیں ان کے بےشعوری میں جتائے گا ۔