Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
قَالَ مَا خَطۡبُكُنَّ اِذۡ رَاوَدْتُّنَّ يُوۡسُفَ عَنۡ نَّـفۡسِهٖ‌ؕ قُلۡنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمۡنَا عَلَيۡهِ مِنۡ سُوۡۤءٍ‌ ؕ قَالَتِ امۡرَاَتُ الۡعَزِيۡزِ الۡــٰٔنَ حَصۡحَصَ الۡحَقُّ اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنۡ نَّـفۡسِهٖ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيۡنَ‏ ﴿51﴾
بادشاہ نے پوچھا اے عورتو! اس وقت کا صحیح واقعہ کیا ہے جب تم داؤ فریب کرکے یوسف کو اس کی دلی منشا سے بہکانہ چاہتی تھیں انہوں نے صاف جواب دیا کہ معاذاللہ ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں پائی ، پھر تو عزیز کی بیوی بھی بول اٹھی کہ اب تو سچی بات نتھر آئی میں نے ہی اسے ورغلایا تھا ، اس کے جی سے ، اور یقیناً وہ سچوں میں سے ہے ۔
قال ما خطبكن اذ راودتن يوسف عن نفسه قلن حاش لله ما علمنا عليه من سوء قالت امرات العزيز الن حصحص الحق انا راودته عن نفسه و انه لمن الصدقين
Said [the king to the women], "What was your condition when you sought to seduce Joseph?" They said, "Perfect is Allah ! We know about him no evil." The wife of al-'Azeez said, "Now the truth has become evident. It was I who sought to seduce him, and indeed, he is of the truthful.
Badshah ney poocha aey aurto! Uss waqt ka sahih waqiya kiya hai jab tum dao fareb kerkay yousuf ko uss ki dili manshah say behkana chahati thi unhon ney saaf jawab diya kay maaz Allah hum ney yousuf mein koi buraee nahi paee phir to aziz ki biwi bhi bol uthi kay abb to sachi baat nithar aaee. Mein ney hi ussay warghalaya tha uss kay ji say aur yaqeenan woh sachon mein say hai.
بادشاہ نے ( ان عورتوں کو بلا کر ان سے ) کہا : تمہارا کیا قصہ تھا جب تم نے یوسف کو ورغلا نے کی کوشش کی تھی ؟ ان سب عورتوں نے کہا کہ : حاشا للہ ! ہم کو ان میں ذرا بھی تو کوئی برائی معلوم نہیں ہوئی ۔ عزیز کی بیوی نے کہا کہ : اب تو حق بات سب پر کھل ہی گئی ہے ۔ میں نے ہی ان کو ورغلانے کی کوشش کی تھی ، اور حقیقت یہ ہے کہ وہ بالکل سچے ہیں ۔
بادشاہ نے کہا اے عورتو! تمہارا کیا کام تھا جب تم نے یوسف کا دل لبھانا چاہا ، بولیں اللہ کو پاکی ہے ہم نے ان میں کوئی بدی نہیں پائی عزیز کی عورت ( ف۱۳۳ ) بولی اب اصلی بات کھل گئی ، میں نے ان کا جی لبھانا چاہا تھا اور وہ بیشک سچے ہیں ( ف۱۳٤ )
اس پر بادشاہ نے ان عورتوں سے دریافت 44 کیا تمہارا کیا تجربہ ہے اس وقت کا جب تم نے یوسف ( علیہ السلام ) کو رِجہانے کی کوشش کی تھی؟“ سب نے یک زبان ہو کر کہا ” حاشا لِلّٰہ ، ہم نے تو اس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا ۔ “ عزیز کی بیوی بول اٹھی” اب حق کھل چکا ہے ، وہ میں ہی تھی جس نے اس کو پھسلانے کی کوشش کی تھی ، بے شک وہ بالکل سچا ہے ۔ 45
بادشاہ نے ( زلیخا سمیت عورتوں کو بلا کر ) پوچھا: تم پر کیا بیتا تھا جب تم ( سب ) نے یوسف ( علیہ السلام ) کو ان کی راست روی سے بہکانا چاہا تھا ( بتاؤ وہ معاملہ کیا تھا ) ؟ وہ سب ( بہ یک زبان ) بولیں: اﷲ کی پناہ! ہم نے ( تو ) یوسف ( علیہ السلام ) میں کوئی برائی نہیں پائی ۔ عزیزِ مصر کی بیوی ( زلیخا بھی ) بول اٹھی: اب تو حق آشکار ہو چکا ہے ( حقیقت یہ ہے کہ ) میں نے ہی انہیں اپنی مطلب براری کے لئے پھسلانا چاہا تھا اور بیشک وہی سچے ہیں
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :44 ممکن ہے کہ شاہی محل میں ان تمام خواتین کو جمع کر کے یہ شہادت لی گئی ہو ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بادشاہ نے کسی معتمد خاص کو بھیج کر فردا فردا ان سے دریافت کرایا ہو ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :45 اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان شہادتوں نے کس طرح آٹھ نو سال پہلے کے واقعات کو تازہ کر دیا ہوگا ، کس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کی شخصیت زمانہ قید کی طویل گمنامی سے نکل کر یکایک پھر سطح پر آگئی ہوگی ، اور کس طرح مصر کے تمام اشراف معززین ، متوسطین اور عوام تک میں آپ کا اخلاقی وقار قائم ہوگیا ہوگا ۔ اوپر بائیبل اور تلمود کے حوالہ سے یہ بات گزر چکی ہے کہ بادشاہ نے اعلان عام کر کے تمام مملکت کے دانشمندوں اور علماء اور پیروں کو جمع کیا تھا اور وہ سب اس کے خواب کا مطلب بیان کرنے سے عاجز ہو چکے تھے ۔ اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کا مطلب یہ بتایا ۔ اس واقعہ کی بنا پر پہلے ہی سے سارے ملک کی نگائیں آپ کی ذات پر مرتکز ہو چکی ہونگی ۔ پھر جب بادشاہ کی طلبی پر آپ نے باہر نکلنے سے انکار کیا ہوگا تو سارے لوگ اچنبھے میں پڑ گئے ہوں گے کہ یہ عجیب قسم کا بلند حوصلہ انسان ہے جس کو آٹھ نو برس کی قید کے بعد بادشاہ وقت مہربان ہو کر بلا رہا ہے اور پھر بھی وہ بیتاب ہو کر دوڑ نہیں پڑتا ۔ پھر جب لوگوں کو معلوم ہوا ہوگا کہ یوسف علیہ السلام نے اپنی رہائی قبول کرنے اور بادشاہ وقت کی ملاقات کو آنے کے لیے کیا شرط پیش کی ہے تو سب کی نگاہیں اس تحقیقات کے نتیجے پر لگ گئی ہوں گی ۔ اور جب لوگوں نے اس کا نتیجہ سنا ہوگا تو ملک کا بچہ بچہ عش عش کرتا رہ گیا ہوگا کہ کس قدر پاکیزہ سیرت کا ہے یہ انسان جس کی طہارت نفس پر آج وہی لوگ گواہی دے رہے ہیں جنہوں نے مل جل کر کل اسے جیل میں ڈالا تھا ۔ اس صورت حال پر اگر غور کیا جائے تو اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے کہ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ سے ملاقات کے موقع پر خزائن ارض کی سپردگی کا مطالبہ کیسے بے دھڑک پیش کر دیا اور بادشاہ نے اسے کیوں بے تامل قبول کر لیا ۔ اگر بات صرف اسی قدر ہوتی کہ جیل کے ایک قیدی نے بادشاہ کے ایک خواب کی تعبیر بتا دی تھی تو ظاہر ہے کہ اس پر وہ زیادہ سے زیادہ کسی انعام کا اور خلاصی پا جانے کا مستحق ہو سکتا تھا ۔ اتنی سی بات اس کے لیے تو کافی نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ بادشاہ سے کہے” خزائن ارض میرے حوالہ کرو “ اور بادشاہ کہہ دے” لیجیے ، سب کچھ حاضر ہے“ ۔