Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
ذٰ لِكَ لِيَـعۡلَمَ اَنِّىۡ لَمۡ اَخُنۡهُ بِالۡغَيۡبِ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِىۡ كَيۡدَ الۡخَـآٮِٕنِيۡنَ‏ ﴿52﴾
۔ ( یوسف علیہ السلام نے کہا ) یہ اس واسطے کہ ( عزیز ) جان لے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہیں کی اور یہ بھی کہ الله دغابازوں کے ہتھکنڈے چلنے نہیں دیتا ۔
ذلك ليعلم اني لم اخنه بالغيب و ان الله لا يهدي كيد الخاىنين
That is so al-'Azeez will know that I did not betray him in [his] absence and that Allah does not guide the plan of betrayers.
( yousuf alh-e-salam ney kaha ) yeh iss wastay kay ( aziz ) jaan ley kay mein ney uss ki peeth peechay uss ki khayanat nahi ki aur yeh bhi kay Allah dagha baazon kay hathkanday chalney nahi deta.
۔ ( جب یوسف کو قید خانے میں اس گفتگو کی خبر ملی تو انہوں نے کہا کہ : ) یہ سب کچھ میں نے اس لیے کیا تاکہ عزیز کو یہ بات یقین کے ساتھ معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی غیر موجودگی میں اس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کی ، اور یہ بھی کہ جو لوگ خیانت کرتے ہیں اللہ ان کے فریب کو چلنے نہیں دیتا ۔
یوسف نے کہا یہ میں نے اس لیے کیا کہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہ کی اور اللہ دغا بازوں کا مکر نہیں چلنے دیتا ،
﴿یوسف ( علیہ السلام ) نے 46 کہا﴾ اس سے میری غرض یہ تھی کہ ﴿عزیز﴾ یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی تھی ۔ اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالوں کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا ۔
۔ ( یوسف علیہ السلام نے کہا: میں نے ) یہ اس لئے ( کیا ہے ) کہ وہ ( عزیزِ مصر جو میرا محسن و مربّی تھا ) جان لے کہ میں نے اس کی غیابت میں ( پشت پیچھے ) اس کی کوئی خیانت نہیں کی اور بیشک اﷲ خیانت کرنے والوں کے مکر و فریب کو کامیاب نہیں ہونے دیتا
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :46 یہ بات غالبا یوسف علیہ السلام نے اس وقت کہی ہوگی جب قید خانہ میں آپ کو تحقیقات کے نتیجے کی خبر دی گئی ہوگی ۔ بعض مفسرین ، جن میں ابن تیمیہ اور ابن کثیر جیسے فضلا بھی شامل ہیں ، اس فقرے کو حضرت یوسف کا نہیں بلکہ عزیز کی بیوی کے قول کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ فقرہ امرأة العزیز کے قول سے متصل آیا ہے اور بیچ میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس سے یہ سمجھا جائے کہ ” اِنَّہ لَمِنَ الصَّادِقِینَ“ پر امرأة العزیز کی بات ختم ہوگئی اور بعد کا کلام حضرت یوسف علیہ السلام کی زبان سے ادا ہوا ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر دو آدمیوں کے قول ایک دوسرے سے متصل واقع ہوں اور اس امر کی صراحت نہ ہو کہ یہ قول فلاں کا ہے اور یہ فلاں کا ، تو اس صورت میں لازما کوئی قرینہ ایسا ہونا چاہیے جس سے دونوں کے کلام میں فرق کیا جا سکے ، اور یہاں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ۔ اس لیے یہی ماننا پڑے گا کہ الئن حصحص الحق سے لے کر ان ربی غفور رحیم تک پورا کلام امرأة العزیز کا ہی ہے ۔ لیکن مجھے تعجب ہے کہ ابن تیمیہ جیسے دقیقہ رس آدمی تک کی نگاہ سے یہ بات کیسے چوک گئی کہ شان کلام بجائے خود ایک بہت بڑا قرینہ ہے جس کے ہوتے کسی اور قرینہ کی ضرورت نہیں رہتی ۔ پہلا فقرہ تو بلا شبہہ امرأة العزیز کے منہ پر پھبتا ہے ، مگر کیا دوسرا فقرہ بھی اس کی حیثیت کے مطابق نطر آتا ہے؟ یہاں تو شان کلام صاف کہہ رہی ہے کہ اس کے قائل حضرت یوسف علیہ السلام ہیں نہ کہ عزیز مصر کی بیوی ۔ اس کلام میں جو نیک نفسی ، جو عالی ظرفی ، جو فروتنی اور جو خدا ترسی بول رہی ہے وہ خود گواہ ہے کہ یہ فقرہ اس زبان سے نکلا ہوا نہیں ہوسکتا جس سے ھَیتَ لَکَ نکلا تھا ۔ جس سے مَا جَزَآءُ مَن اَرَادَ بِاَھلِکَ سُوا نکلا تھا ، اور جس سے بھری محفل کے سامنے یہ تک نکل سکتا تھا کہ لَئِن لَّم یَفعَل مَآ اٰمُرُہُ لَیُسجَنَنَّ ۔ ایسا پاکیزہ فقرہ تو وہی زبان بول سکتی تھی جو اس سے پہلے مَعَا ذَاللہِ اِنَّہُ رَبِّیٓ اَحسَنَ مَثوَایَ ط کہہ چکی تھی ، جو رَبِّ السِّجنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَد عُو نَنِی اِلَیہِ کہہ چکی تھی ، جو اِلَّا تَصرِف عَنِّی کَیدَ ھُنَّ اَصبُ اِلَیھِنَّ کہہ چکی تھی ۔ ایسے پاکیزہ کلام کو یوسف صدیق کے بجائے امرأ العزیز کا کلام ماننا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کوئی قرینہ اس امر پر دلالت نہ کرے کہ اس مرحلے پر پہنچ کر اسے توبہ اور ایمان اور اصلاح نفس کی توفیق نصیب ہوگئی تھی ، اور افسوس ہے کہ ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ۔