Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفۡسِىۡ‌ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىۡ ؕاِنَّ رَبِّىۡ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿53﴾
میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے یقیناً میرا پالنے والا بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے ۔
و ما ابر نفسي ان النفس لامارة بالسوء الا ما رحم ربي ان ربي غفور رحيم
And I do not acquit myself. Indeed, the soul is a persistent enjoiner of evil, except those upon which my Lord has mercy. Indeed, my Lord is Forgiving and Merciful."
Mein apney nafs ki pakeezgi biyan nahi kerta. Be-shak nafs to buraee per ubharney wala hi hai magar yeh kay mera perwerdigar hi apna reham keray yaqeenan mera paalney wala bari bakhsish kerney wala aur boht meharbani farmaney wala hai.
اور میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ میرا نفس بالکل پاک صاف ہے ، واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے ، ہاں میرا رب رحم فرمادے تو بات اور ہے ( کہ اس صورت میں نفس کا کوئی داؤ نہیں چلتا ) بیشک میرا رب بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔ ( ٣٣ )
اور میں اپنے نفس کو بےقصور نہیں بتاتا ( ف۱۳۵ ) بیشک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے ( ف۱۳٦ ) بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے ( ف۱۳۷ )
میں کچھ اپنے نفس کی براءت نہیں کر رہا ہوں ، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے اِلّا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو ، بے شک میرا ربّ بڑا غفور و رحیم ہے ۔
اور میں اپنے نفس کی برات ( کا دعوٰی ) نہیں کرتا ، بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے ۔ بیشک میرا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
عزیز مصر کی بیوی کہہ رہی ہے کہ میں اپنی پاکیزگی بیان نہیں کر رہی اپنے آپ کو نہیں سراہتی ۔ نفس انسانی تمناؤں اور بری باتوں کا مخزن ہے ۔ اس میں ایسے جذبات اور شوق اچھلتے رہتے ہیں ۔ وہ برائیوں پر ابھارتا رہتا ہے ۔ اسی کے پھندے میں پھنس کر میں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا ۔ مگر جسے اللہ چاہے نفس کی برائی سے محفوظ رکھ لیتا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔ بخشش کرنا معافی دینا اس کی ابدی اور لازمی صفت ہے ۔ یہ قول عزیز مصر کی عورت کا ہی ہے ۔ یہی بات مشہور ہے اور زیادہ لائق ہے اور واقعہ کے بیان سے بھی زیادہ مناسب ہے ۔ اور کلام کے معنی کے ساتھ بھی زیادہ موافق ہے ۔ اما ماوردی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اسے وارد کیا ہے ۔ اور علامہ ابو العباس حضرت امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے تو اسے ایک مستقل تصنیف میں بیان فرمایا ہے اور اس کی پوری تائید کی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قول حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے ۔ لیعلم سے اس دوسری آیت کے ختم تک انہی کا فرمان ہے ۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے تو صرف یہی ایک قول نقل کیا ہے ۔ چنانچہ ابن جریر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بادشاہ نے عورتوں کو جمع کر کے جب ان سے پوچھا کہ کیا تم نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بہلایا پھسلایا تھا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حاشاللہ ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی ۔ اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے اقرار کیا کہ واقعی حق تو یہی ہے ۔ تو حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا یہ سب اس لئے تھا کہ میری امانت درای کا یقین ہو جائے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے فرمایا وہ دن بھی یاد ہے ؟ کہ آپ نے کچھ ارادہ کر لیا تھا ؟ تب آپ نے فرمایا میں اپنے نفس کی برات تو نہیں کر رہا ؟ بیشک نفس برائیوں کا حکم دیتا ہے ۔ الغرض ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ کلام حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے ۔ لیکن پہلا قول یعنی اس کلام کا عزیز کی موت کا کلام ہونا ہی زیادہ قوی اور زیادہ ظاہر ہے ۔ اس لئے کہ اوپر سے انہی کا کلام چلا آ رہا ہے جو بادشاہ کے سامنے سب کی موجودگی میں ہو رہا تھا ۔ اس وقت تو حضرت یوسف علی السلام وہاں موجود ہی نہ تھے ۔ اس تمام قصے کے کھل جانے کے بعد بادشاہ نے آپ کو بلوایا ۔