Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اِنَّ الصَّفَا وَالۡمَرۡوَةَ مِنۡ شَعَآٮِٕرِ اللّٰهِۚ فَمَنۡ حَجَّ الۡبَيۡتَ اَوِ اعۡتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِ اَنۡ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا ؕ وَمَنۡ تَطَوَّعَ خَيۡرًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿158﴾
صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں اس لئے بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں اپنی خوشی سے بھلائی کرنے والوں کا اللہ قدردان ہے اور انہیں خوب جاننے والا ہے ۔
ان الصفا و المروة من شعاىر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما و من تطوع خيرا فان الله شاكر عليم
Indeed, as-Safa and al-Marwah are among the symbols of Allah . So whoever makes Hajj to the House or performs 'umrah - there is no blame upon him for walking between them. And whoever volunteers good - then indeed, Allah is appreciative and Knowing.
Safa aur marwa Allah Taalaa ki nishaniyon mein say hain iss liye bait ullah ka hajj aur umrah kerney walay per inn ka tawaf ker lenay mein bhi koi gunah nahi apni khushi say bhalaee kerney walon ka Allah qadar daan hai aur unhen khoob janney wala hai.
بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ، لہذا جو شخص بھی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس کے لیے اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ ان کے درمیان چکر لگائے ( ١٠٣ ) اور جو شخص خوشی سے کوئی بھلائی کا کام کرے تو اللہ یقینا قدر دان ( اور ) جاننے والا ہے ۔
بیشک صفا اور مروہ ( ف۲۸۵ ) اللہ کے نشانوں سے ہیں ( ف۲۸٦ ) تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے پھیرے کرے ( ف۲۸۷ ) اور جو کوئی بھلی بات اپنی طرف سے کرے تو اللہ نیکی کا صلہ دینے خبردار ہے ۔
یقیناً صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔ لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے157 ، اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کر لے158اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے ۔ 159
بیشک صفا اور مروہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں ، چنانچہ جو شخص بیت اﷲ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے ( درمیان ) چکر لگائے ، اور جو شخص اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو یقیناً اﷲ ( بڑا ) قدر شناس ( بڑا ) خبردار ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :157 ذُوالحجّہ کی مقرر تاریخوں میں کعبے کی جو زیارت کی جاتی ہے ، اس کا نام حج ہے اور ان تاریخوں کے ماسوا دُوسرے کسی زمانے میں جو زیارت کی جائے ، وہ عُمْرَہ ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :158 “صَفَا اور مَرْوَہ مسجد حرام کے قریب دو پہاڑیاں ہیں ، جن کے درمیان دَوڑنا منجملہ ان مَناسِک کے تھا ، جو اللہ تعالیٰ نے حج کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کو سکھائے تھے ۔ بعد میں جب مکّے اور آس پاس کے تمام علاقوں میں مُشرکانہ جاہلیّت پھیل گئے ، تو صَفَا پر ”اِساف“ اور مَرْوَہ پر ”نائلہ“ کے استھان بنا لیے گئے اور ان کے گرد طواف ہونے لگا ۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اسلام کی روشنی اہل عرب تک پہنچی ، تو مسلمانوں کے دلوں میں یہ سوال کھٹکنے لگا کہ آیا صَفَا اور مَرْوَہ کی سَعْی حج کے اصلی مناسک میں سے ہے یا محض زمانہء شرک کی ایجاد ہے ، اور یہ کہ سَعْی سے کہیں ہم ایک مشرکانہ فعل کے مرتکب تو نہیں ہوجائیں گے ۔ نیز حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل مدینہ کے دِلوں میں پہلے ہی سے سعی بین الصّفا و المَرْوَہ کے بارے میں کراہت موجود تھی ، کیونکہ وہ مَناۃ کے معتقد تھے اور اساف و نائلہ کو نہیں مانتے تھے ۔ اِنہی وجوہ سے ضروری ہوا کہ مسجدِحرام کو قبلہ مقرر کرنے کے موقع پر ان غلط فہمیوں کو دُور کر دیا جائے جو صَفَا اور مَرْوَہ کے بارے میں پائی جاتی تھیں ، اور لوگوں کو بتا دیا جائے کہ ان دونوں مقامات کے درمیان سعی کرنا حج کے اصلی مَنَاسِک میں سے ہے اور یہ کہ ان مقامات کا تقدس خدا کی جانب سے ہے ، نہ کہ اہل جاہلیّت کی من گھڑت ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :159 یعنی بہتر تو یہ ہے کہ یہ کام دلی رغبت کے ساتھ کرو ، ورنہ حکم بجا لانے کے لیے تو کرنا ہی ہوگا ۔
صفا اور مروہ کا طواف حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت عروہ دریافت کرتے ہیں کہ اس آیت سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طواف نہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں آپ نے فرمایا بھتیجے تم صحیح نہیں سمجھے اگر یہ بیان مد نظر ہوتا تو ان لا یطوف بھما ہوتا ۔ سنو آیت شریف کا شان نزول یہ ہے کہ مثلل ( ایک جگہ کا نام ہے ) کے پاس مناۃ بت تھا اسلام سے پہلے انصار اسے پوجتے تھے اور جو اس کے نام لبیک پکار لیتا وہ صفا مروہ کے طواف کرنے میں حرج سمجھتا تھا ، اب بعد از اسلام ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صفا مروہ کے طواف کے حرج کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت اتری کہ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اسی کے بعد حضور علیہ السلام نے صفا مروہ کا طواف کیا اس لئے مسنون ہو گیا اور کسی کو اس کے ترک کرنے کا جواز نہ رہا ( بخاری مسلم ) ابو بکر بن عبدالرحمن نے جب یہ روایت سنی تو وہ کہنے لگے کہ بیشک یہ علمی بات ہے میں نے تو اس سے پہلے سنی ہی نہ تھی بعض اہل علم فرمایا کرتے تھے کہ انصار نے کہا تھا کہ ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم ہے صفا مروہ کے طواف کو جاہلیت کا کام جانتے تھے اور اسلام کی حالت میں اس سے بچتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی ، ابن عباس سے مروی ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان بہت سے بت تھے اور شیاطین رات بھر اس کے درمیان گھومتے رہتے تھے اسلام کے بعد لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں کے طواف کی بابت تھے اور شیاطین رات بھر اس کے درمیان گھومتے رہتے تھے اسلام کے بعد لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں کے طواف کی بابت مسئلہ دریافت کیا جس پر یہ آیت اتری اساف بت صفا پر تھا اور نائلہ مروہ پر ، مشرک لوگ انہیں چھوتے اور چومتے تھے اسلام کے بعد لوگ اس سے الگ ہو گئے لیکن یہ آیت اتری جس سے یہاں کا طواف ثابت ہوا ، سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ اساف اور نائلہ دو مردو عورت تھے ان بدکاروں نے کعبہ میں زنا کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں پتھر بنا دیا ، قریش نے انہیں کعبہ کے باہر رکھ دیا تاکہ لوگوں کو عبرت ہو لیکن کچھ زمانہ کے بعد ان کی عبادت شروع ہو گئی اور صفا مروہ پر لا کر نصب کر دئے گئے اور ان کا طواف شروع ہو گیا ، صحیح مسلم کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ شریف کا طواف کر چکے تو رکن کو چھو کر باب الصفا سے نکلے اور آیت تلاوت فرما رہے تھے پھر فرمایا میں بھی شروع کروں گا اس سے جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ، ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم شروع کرو اس سے جس سے اللہ نے شروع کیا یعنی صفا سے چل کر مروہ جاؤ ۔ حضرت حبیبہ بنت تجزاۃ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صفا مروہ کا طواف کرتے تھے لوگ آپ کے آگے آگے تھے اور آپ ان کے پیچھے تھے آپ قدرے دوڑ لگا رہے تھے اور اس کی وجہ سے آپ کا تہمبند آپ کے ٹخنوں کے درمیان ادھر اھر ہو رہا تھا اور زبان سے فرماتے جاتے تھے لوگوں دوڑ کر چلو اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی لکھ دی ہے ( مسند احمد ) اسی کی ہم معنی ایک روایت اور بھی ہے ۔ یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو صفا مروہ کی سعی کو حج کا رکن جانتے ہیں جیسے حضرت امام شافعی اور ان کے موافقین کا مذہب ہے ، امام احمد سے بھی ایک روایت اسی طرح کی ہے امام مالک کا مشہور مذہب بھی یہی ہے ، بعض اسے واجب تو کہتے ہیں لیکن حج کا رکن نہیں کہتے اگر عمداً یا سہواً یا کوئی شخص اسے چھوڑ دے تو ایک جانور ذبح کرنا پڑے گا ۔ امام احمد سے ایک روایت اسی طرح مروی ہے اور ایک اور جماعت بھی یہی کہتی ہے اور ایک قول میں یہ مستحب ہے ۔ امام ابو حنیفہ ، ثوری ، شعبی ، ابن سیرین یہی کہتے ہیں ۔ حضرت انس ابن عمر اور ابن عباس سے یہی مروی ہے امام مالک سے عتیبہ کی بھی روایت ہے ، ان کی دلیل آیت ( فمن تطوع خیرا ) ہے ، لیکن پہلا قول ہی زیادہ راجح ہے اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا مروہ کا طواف کیا اور فرمایا احکام حج مجھ سے لو ، پس آپ نے اپنے اس حج میں جو کچھ کیا وہ واجب ہو گیا اس کا کرنا ضروری ہے ، اگر کوئی کام کسی خاص دلیل سے وجوب سے ہٹ جائے تو اور بات ہے واللہ اعلم ۔ علاوہ ازیں حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پرسعی لکھ دی یعنی فرض کر دی ۔ غرض یہاں بیان ہو رہا ہے کہ صفا مروہ کا طواف بھی اللہ تعالیٰ کے ان شرعی احکام میں سے ہے جنہیں حضرت ابراہیم کو بجا آوری حج کے لیے سکھائے تھے یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس کی اصل حضرت ہاجرہ کا یہاں سات پھیرے کرنا ہے جبکہ حضرت ابراہیم نے انہیں ان کے چھوٹے بچے سمیت یہاں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ان کے پاس کھانا پینا ختم ہو چکا تھا اور بچے کی جان پر آ بنی تھی تب ام اسمٰعیل علیہ السلام نہایت بےقراری ، بےبسی ، ڈر ، خوف اور اضطراب کے ساتھ ان پہاڑوں کے درمیان اپنا دامن پھیلائے اللہ سے بھیک مانگتی پھر رہی تھیں ۔ یہاں تک کہ آپ کا غم و ہم ، رنج و کرب ، تکلیف اور دکھ دور ہوا ۔ یہاں سے پھیرے کرنے والے حاجی کو بھی چاہئے کہ نہایت ذلت و مسکنت خضوع و خشوع سے یہاں پھیرے کرے اور اپنی فقیری حاجت اور ذلت اللہ کے سامنے پیش کرے اور اپنی فقیری حاجت اور ذلت اللہ کے سامنے پیش کرے اور اپنے دل کی صلاحیت اور اپنے مال کی ہدایت اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے اور نقائص اور عیبوں سے پاکیزگی اور نافرمانیوں سے نفرت چاہے اور ثابت قدمی نیکی فلاح اور بہبودی کی دعا مانگے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کرے کہ گناہوں اور برائیوں کی تنگی کی راہ سے ہٹا کر کمال و غفران اور نیکی کی توفیق بخشے جیسے کہ حضرت ہاجرہ کے حال کو اس مالک نے ادھر سے ادھر کر دیا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی خوشی نیکی میں زیادتی کرے یعنی بجائے سات پھیروں کے آٹھ نو کرے نفلی حج و عمرے میں بھی صفا و مروہ کا طواف کرے اور بعض نے اسے عام رکھا ہے یعنی ہر نیکی میں زیادتی کرے واللہ اعلم پھر فرمایا اللہ تعالیٰ قدر دان اور علم والا ہے ، یعنی تھوڑے سے کام پر بڑا ثواب دیتا ہے اور جزا کی صحیح مقدار کو جانتا ہے نہ تو وہ کسی کے ثواب کو کم کرے نہ کسی پر ذرہ برابر ظلم کرے ، ہاں نیکیوں کا ثواب بڑھا کر عطا فرماتا ہے اور اپنے پاس عظیم عنایت فرماتا ہے فالحمد والشکر للہ