Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اِنَّ الَّذِيۡنَ يَكۡتُمُوۡنَ مَآ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَيِّنٰتِ وَالۡهُدٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِى الۡكِتٰبِۙ اُولٰٓٮِٕكَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰعِنُوۡنَۙ‏ ﴿159﴾
جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کر چکے ہیں ، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے ۔
ان الذين يكتمون ما انزلنا من البينت و الهدى من بعد ما بينه للناس في الكتب اولىك يلعنهم الله و يلعنهم اللعنون
Indeed, those who conceal what We sent down of clear proofs and guidance after We made it clear for the people in the Scripture - those are cursed by Allah and cursed by those who curse,
Jo log humari utari hui daleelon aur hidayat ko chupatay hain ba wajood yeh kay hum ussay apni kitab mein logon kay liye biyan ker chukay hain unn logon per Allah ki aur tamam laanat kerney walon ki laanat hai.
بیشک وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئی روشن دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم انہیں کتاب میں کھول کھول کر لوگوں کے لیے بیان کرچکے ہیں ( ١٠٤ ) تو ایسے لوگوں پر اللہ بھی لعنت بھیجتا ہے اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی لعنت بھیجتے ہیں ،
بیشک وہ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں ( ف۲۸۸ ) بعد اس کے کہ لوگوں کے لئے ہم اسے کتاب میں واضح فرماچکے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ۔ ( ف۲۸۹ )
جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں درآں حال یہ کہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں ، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ 160
بیشک جو لوگ ہماری نازل کردہ کھلی نشانیوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لئے ( اپنی ) کتاب میں واضح کردیا ہے تو انہی لوگوں پر اﷲ لعنت بھیجتا ہے ( یعنی انہیں اپنی رحمت سے دور کرتا ہے ) اور لعنت بھیجنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :160 علمائے یہود کا سب سے بڑا قصُور یہ تھا کہ انہوں نے کتاب اللہ کے علم کی اشاعت کرنے کے بجائے اس کو ربّیوں اور مذہبی پیشہ وروں کے ایک محدُود طبقے میں مقید کر رکھا تھا اور عامّہء خلائق تو درکنار ، خود یہُود عوام تک کو اس کی ہوا نہ لگنے دیتے تھے ۔ پھر جب عام جہالت کی وجہ سے ان کے اندر گمراہیاں پھیلیں ، تو علما نے نہ صرف یہ کہ اصلاح کی کوئی کوشش نہ کی ، بلکہ وہ عوام میں اپنی مقبولیّت برقرار رکھنے کے لیے ہر اس ضلالت اور بدعت کو ، جس کا رواج عام ہو جاتا ، اپنے قول و عمل سے یا اپنے سکوت سے اُلٹی سندِ جواز عطا کرنے لگے ۔ اسی سے بچنے کی تاکید مسلمانوں کو کی جارہی ہے ۔ دنیا کی ہدایت کا کام جس اُمّت کے سپرد کیا جائے ، اس کا فرض یہ ہے کہ اس ہدایت کو زیادہ سے زیادہ پھیلائے ، نہ یہ کہ بخیل کے مال کی طرح اسے چھپا رکھے ۔
حق بات کا چھپانا جرم عظیم ہے اس میں زبردست دھمکی ہے ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ کی باتیں یعنی شرعی مسائل چھپا لیا کرتے ہیں ، اہل کتاب نے نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپا لیا تھا جس پر ارشاد ہوتا ہے کہ حق کے چھپانے والے ملعون لوگ ہیں ۔ جس طرح اس عالم کے لیے جو لوگوں میں اللہ کی باتیں پھیلائے ہر چیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ پانی مچھلیاں اور ہوا کے پرند بھی اسی طرح ان لوگوں پر جو حق کی بات کو جانتے ہوئے گونگے بہرے بن جاتے ہیں ہر چیز لعنت بھیجتی ہے ، صحیح حدیث میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا جس شخص نے کسی شرعی عمر کی نسبت سوال کیا جائے اور وہ اسے چھپا لے اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنائی جائے گی ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر یہ آیت نہ ہوتی تو میں ایک حدیث بھی بیان نہ کرتا حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں تھے آپ نے فرمایا کہ قبر میں کافر کی پیشانی پر اس زور سے ہتھوڑا مارا جاتا ہے کہ جاندار اس کا دھماکہ سنتے ہیں سوائے جن و انس کے ۔ پھر وہ سب اس پر لعنت بھیجتے ہیں یہی معنی ہیں کہ ان پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے یعنی تمام جانداروں کی حضرت عطاء فرماتے ہیں آیت ( لاعنون ) سے مراد تمام جانور اور کل جن و انس ہے ۔ حضرت مجاھد فرماتے ہیں جب خشک سالی ہوتی ہے بارش نہیں برستی تو چوپائے جانور کہتے ہیں یہ بنی آدم کے گنہگاروں کے گناہ کی شومی قسمت سے ہے اللہ تعالیٰ نبی آدم کے گنہگاروں پر لعنت نازل کرے ، بعض مفسرین کہتے اس سے مراد فرشتے اور مومن لوگ ہیں ، حدیث میں ہے عالم کے لئے ہر چیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی اس آیت میں ہے کہ علم کے چھپانے والوں کو اللہ لعنت کرتا ہے اور فرشتے اور تمام لوگ اور کل لعنت کرنے والے یعنی ہر بازبان اور ہر بےزبان چاہے زبان سے کہے چاہے قرائن سے اور قیامت کے دن بھی سب چیزیں ان پر لعنت کریں گی واللہ اعلم ۔ پھر ان میں سے ان لوگوں کو الگ کر لیا گیا جو اپنے اس فعل سے باز آ جائیں اور اپنے اعمال کی پوری اصلاح کرلیں اور جو چھپایا تھا اسے ظاہر کریں ان لوگوں کی توبہ وہ اللہ تواب الرحیم قبول فرما لیتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص کفر و بدعت کی طرف لوگوں کو بلانے والا ہو وہ بھی جب سچے دل سے رجوع کر لے تو اس کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے ، بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اگلی امتوں میں ایسے زبردست بدکاروں کی توبہ قبول نہیں ہوتی تھی لیکن نبی التوبہ اور نبی الرحمہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ساتھ یہ مہربانی مخصوص ہے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کا بیان ہو رہا ہے جو کفر کریں توبہ نصیب نہ ہو اور کفر کی حالت میں ہی مر جائیں ان پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ، یہ لعنت ان پر چپک جاتی ہے اور قیامت تک ساتھ ہی رہے گی اور دوزخ کی آگ میں لے جائے گی اور عذاب بھی ہمیشہ ہی رہے گا نہ تو عذاب میں کبھی کمی ہوگی نہ کبھی موقوف ہوگی بلکہ ہمیشہ دوام کے ساتھ سخت عذاب میں رہیں گے نعوذباللہ من عذاب اللہ حضرت ابو العالیہ اور حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں ، قیامت کے دن کافر کو ٹھہرایا جائے گا پھر اس پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے گا پھر فرشتے پھر سب لوگ کافروں پر لعنت بھیجنے کے مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور آپ کے عبد کے ائمہ کرام سب کے سب قنوت وغیرہ میں کفار پر لعنت بھیجتے تھے ، لیکن کسی معین کافر پر لعنت بھجنے کے بارے میں علماء کرام کا ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ جائز نہیں اس لئے کہ اس کے خاتمہ کا کسی کو علم نہیں اور اس آیت کی یہ قید کہ مرتے دم تک وہ کافر رہے معین کافر دلیل ہے کسی پر لعنت نہ بھیجنے کی ، ایک دوسری جماعت اس کی بھی قائل ہے جیسے فقیہ ابو بکر بن عربی مالکی ، لیکن ان کی دلیل ایک ضعیف حدیث ہے ، بعض نے اس حدیث سے یہ بھی دلیل لی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص بار بار نشہ کی حالت میں لایا گیا اور اس پر بار بار حد لگائی گئی تو ایک شخص نے کہا اس پر اللہ کی لعنت ہو بار بار شراب پیتا ہے یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر لعنت نہ بھیجو یہ اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے ، اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص اللہ رسول سے دوستی نہ رکھے اس پر لعنت بھیجنی جائز ہے واللہ اعلم ۔