Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَقَالَ يٰبَنِىَّ لَا تَدۡخُلُوۡا مِنۡۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادۡخُلُوۡا مِنۡ اَبۡوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ‌ؕ وَمَاۤ اُغۡنِىۡ عَنۡكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ شَىۡءٍؕ‌ اِنِ الۡحُكۡمُ اِلَّا لِلّٰهِ‌ؕ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ‌ۚ وَعَلَيۡهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُتَوَكِّلُوۡنَ‏ ﴿67﴾
اور ( یعقوب علیہ السلام ) نے کہا اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا ۔ میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے ۔
و قال يبني لا تدخلوا من باب واحد و ادخلوا من ابواب متفرقة و ما اغني عنكم من الله من شيء ان الحكم الا لله عليه توكلت و عليه فليتوكل المتوكلون
And he said, "O my sons, do not enter from one gate but enter from different gates; and I cannot avail you against [the decree of] Allah at all. The decision is only for Allah ; upon Him I have relied, and upon Him let those who would rely [indeed] rely."
Aur ( yaqoob alh-e-salam ) ney kaha aey meray bacho! Tum sab aik darwazay say na jana bulkay kaee juda juda darwazon mein say dakhil hona. Mein Allah ki taraf say aaney wali kissi cheez ko tum say nahi taal sakta. Hukum sirf Allah hi ka chalta hai. Mera kaamil bharosa ussi per hai aur her aik bharosa kerney walay ko ussi per bharosa kerna chahaiye.
اور ( ساتھ ہی یہ بھی ) کہا کہ : میرے بیٹو ! تم سب ایک دروازے سے ( شہر میں ) داخل نہ ہونا ، بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا ( ٤٢ ) میں اللہ کی مشیت سے تمہیں نہیں بچا سکتا ، حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں چلتا ۔ ( ٤٣ ) اسی پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے ، اور جن جن کو بھروسہ کرنا ہو ، انہیں چاہیے کہ اسی پر بھروسہ کریں ۔
اور کہا اے میرے بیٹوں! ( ف۱۵۸ ) ایک دروازے سے نہ داخل ہونا اور جدا جدا دروا زوں سے جانا ( ف۱۵۹ ) میں تمہیں اللہ سے بچا نہیں سکتا ( ف۱٦۰ ) حکم تو سب اللہ ہی کا ہے ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ چاہیے ،
“پھر اس نے کہا” میرے بچو ، مصر کے دارالسلطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا ۔ 53 مگر میں اللہ کی مشیّت سے تم کو نہیں بچا سکتا ، حکم اس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرے ۔
اور فرمایا: اے میرے بیٹو! ( شہر میں ) ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے ( تقسیم ہو کر ) داخل ہونا ، اور میں تمہیں اﷲ ( کے اَمر ) سے کچھ نہیں بچا سکتا کہ حکم ( تقدیر ) صرف اﷲ ہی کے لئے ہے ۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسف کے بعد ان کے بھائی کو بھیجچتے وقت یعقوب کے دل پر کیا کچھ گزر رہی ہوگی گو خدا پر بھروسہ تھا اور صبر و تسلیم میں ان کا مقام نہایت بلند تھا ، مگر پھر بھی تھے تو انسان ہی ، طرح طرح کے اندیشے دل میں آتے ہوں گے اور رہ رہ کر اس خیال سے کانپ اٹھتے ہوں گے کہ خدا جانے اب اس لڑکے کی صورت بھی دیکھ سکوں گا یا نہیں ، اسی لیے وہ چاہتے ہوں گے کہ اپنی حد تک احتیاط میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے ۔ یہ احتیاطی مشورہ کہ مصر کے دار السلطنت میں یہ سب بھائی ایک دروازے سے نہ جائیں ، ان سیاسی حالات کا تصور کرنے سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے جو وقت پائے جاتے تھے ، یہ لوگ سلطنت مصر کی سرحد پر آزاد قبائلی علاقے کے رہنے والے تھے ، اہل مصر اس علاقے کے لوگوں کو اسی شبہہ کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے جس نگاہ سے ہندوستان کی برطانوی حکومت آزاد سرحدی علاقے والوں کو دیکھتی رہی ہے ۔ حضرت یعقوب کو اندیشہ ہوا ہوگا کہ اس قحط کے زمانہ میں اگر یہ لوگ ایک جتھا بنے ہوئے وہاں داخل ہوں گے تو شاید انہیں مشتبہ سمجھا جائے اور یہ گمان کیا جائے کہ یہ یہاں لوٹ مار کی غرض سے آئے ہیں ، پچھلی آیت میں حضڑت یعقوب کا یہ ارشاد کہ الا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ اس مضمون کی طرف خود اشارہ کر رہا ہے کہ یہ مشورہ سیاسی اسباب کی بناء پر تھا ۔
چونکہ اللہ کے نبی نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے بچوں پر نظر لگ جانے کا کھٹکا تھا کیونکہ وہ سب اچھے ، خوبصورت ، تنو مند ، طاقتور ، مضبوط دیدہ رو نوجوان تھے اس لئے بوقت رخصت ان سے فرماتے ہیں کہ پیارے بچو تم سب شہر کے ایک دروازے سے شہر میں نہ جانا بلکہ مختلف دروازوں سے ایک ایک دو دو کر کے جانا ۔ نظر کا لگ جانا حق ہے ۔ گھوڑ سوار کو یہ گرا دیتی ہے ۔ پھر ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ یہ میں جانتا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ یہ تدبیر تقدیر میں ہیر پہیری نہیں کر سکتی ۔ اللہ کی قضا کو کوئی شخص کسی تدبیر سے بدل نہیں سکتا ۔ اللہ کا چاہا پورا ہو کر ہی رہتا ہے ۔ حکم اسی کا چلتا ہے ۔ کون ہے جو اس کے ارادے کو بدل سکے ؟ اس کے فرمان کو ٹال سکے ؟ اس کی قضا کو لوٹا سکے ؟ میرا بھروسہ اسی پر ہے اور مجھ پر ہی کیا موقوف ہے ۔ ہر ایک توکل کرنے والے کو اسی پر توکل کرنا چاہئے ۔ چنانچہ بیٹوں نے باپ کی فرماں برداری کی اور اسی طرح کئی ایک دروازوں میں بٹ گئے اور شہر میں پہنچے ۔ اس طرح وہ اللہ کی قضا کو لوٹا نہیں سکتے تھے ہاں حضرت یعقوب علیہ السلام نے ایک ظاہری تدبیر پوری کی کہ اس سے وہ نظر بد سے بچ جائیں ۔ وہ ذی علم تھے ، الہامی علم ان کے پاس تھا ۔ ہاں اکثر لوگ ان باتوں کو نہیں جانتے ۔