Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَلَمَّا دَخَلُوۡا مِنۡ حَيۡثُ اَمَرَهُمۡ اَبُوۡهُمۡ ؕمَا كَانَ يُغۡنِىۡ عَنۡهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ شَىۡءٍ اِلَّا حَاجَةً فِىۡ نَفۡسِ يَعۡقُوۡبَ قَضٰٮهَا‌ؕ وَاِنَّهٗ لَذُوۡ عِلۡمٍ لِّمَا عَلَّمۡنٰهُ وَلٰكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿68﴾
جب وہ انہیں راستوں سے جن کا حکم ان کے والد نے انہیں دیا تھا گئے ۔ کچھ نہ تھا کہ اللہ نے جو بات مقرر کر دی ہے وہ اس سے انہیں ذرا بھی بچا لے ۔ مگر یعقوب ( علیہ السلام ) کے دل میں ایک خیال ( پیدا ہوا ) جسے اس نے پورا کر لیا بلاشبہ وہ ہمارے سکھلائے ہوئے علم کا عالم تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔
و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم ما كان يغني عنهم من الله من شيء الا حاجة في نفس يعقوب قضىها و انه لذو علم لما علمنه و لكن اكثر الناس لا يعلمون
And when they entered from where their father had ordered them, it did not avail them against Allah at all except [it was] a need within the soul of Jacob, which he satisfied. And indeed, he was a possessor of knowledge because of what We had taught him, but most of the people do not know.
Jab woh unhi raaston say jin ka hukum unn kay walid ney unhen diya tha gaye kuch na tha kay Allah ney jo baat muqarrar ker di hai woh iss say unhen zara bhi bacha ley. Magar yaqoob ( alh-e-salam ) kay dil mein aik khayal ( peda hua ) jissay uss ney poora ker liya bila shuba woh humaray sikhlaye huye ilm ka aalim tha lekin aksar log nahi jantay.
اور جب وہ ( بھائی ) اسی طرح ( مصر میں ) داخل ہوئے جس طرح ان کے والد نے کہا تھا ، تو یہ عمل اللہ کی مشیت سے ان کو ذرا بھی بچانے والا نہیں تھا ، لیکن یعقوب کے دل میں ایک خواہش تھی جو انہوں نے پوری کرلی ۔ بیشک وہ ہمارے سکھائے ہوئے علم کے حامل تھے ، لیکن اکثر لوگ ( معاملے کی حقیقت ) نہیں جانتے ( ٤٤ )
اور جب وہ داخل ہوئے جہاں سے ان کے باپ نے حکم دیا تھا ( ف۱٦۱ ) وہ کچھ انھیں کچھ انھیں اللہ سے بچا نہ سکتا ہاں یعقوب کے جی کی ایک خواہش تھی جو اس نے پوری کرلی ، اور بیشک وہ صاحب علم ہے ہمارے سکھائے سے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ( ف۱٦۲ )
اور واقعہ یہ بھی ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں ﴿متفرق دروازوں سے﴾ داخل ہوئے تو اس کی یہ احتیاطی تدبیر اللہ کی مشیّت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آسکی ۔ ہاں بس یعقوب ( علیہ السلام ) کے دل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دور کرنے کے لیے اس نے اپنی سی کوشش کر لی ۔ بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحب علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں ۔ 54 ؏ ۸
اور جب وہ ( مصر میں ) داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انہیں حکم دیا تھا ، وہ ( حکم ) انہیں اﷲ ( کی تقدیر ) سے کچھ نہیں بچا سکتا تھا مگر یہ یعقوب ( علیہ السلام ) کے دل کی ایک خواہش تھی جسے اس نے پورا کیا ، اور ( اس خواہش و تدبیر کو لغو بھی نہ سمجھنا ، تمہیں کیا خبر! ) بیشک یعقوب ( علیہ السلام ) صاحبِ علم تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انہیں علمِ ( خاص ) سے نوازا تھا مگر اکثر لوگ ( ان حقیقتوں کو ) نہیں جانتے
۵٤ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تدبیر اور توکل کے درمیان یہ ٹھیک ٹھیک توازن جو تم حضرت یعقوب کے مذکورہ بالا اقوال میں پاتے ہو ، یہ دراصل علم حقیقت کے اس فیضان کا نتیجہ تھا جو اللہ تعالی کے فضل سے ان پر ہوا تھا ، ایک طرف وہ عالم اسباب کے قوانین کے مطابق تمام ایسی تدبیریں کرتے ہیں جو عقل و فکر اور تجربہ کی بنا پر اختیار کرنی ممکن تھیں ، بیٹوں کو ان کا پہلا جرم یاد دلا کر زجر و تنبیہ کرتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ ویسا ہی جرم کرنے کی جرات نہ کریں ، ان سے خدا کے نام پر عہد و پیمان لیتے ہیں کہ سوتیلے بھائی کی حٖفاظت کریں گے اور وقت کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے جس احتیاطی تدبیر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اسے بھی استعمال کرنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ اپنی حد تک کوئی خارجی سبب بھی ایسا نہ رہنے دیا جائے جو ان لوگوں کے گھر جانے کا موجب ہو ، مگر دوسری طرف ہر آن یہ بات ان کے پیش نظر ہے اور اس کا بار بار اظہار کرتے ہیں کہ کوئی انسانی تدبیر اللہ کی مشیت کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتی ، اور اصل حفاظت اللہ کی حفاظت ہے ، اور بھروسا اپنی تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ ہی کے فضل پر ہونا چاہیے ، یہ صحیح توازن اپنی باتوں میں اور اپنے کاموں میں صرف وہی شخص قائم کرسکتا ہے جو حقیقت کا علم رکھتا ہو ، جو یہ بھی جانتا ہو کہ حیات دنیا کے ظاہری پہلو میں اللہ بنائی ہوئی فطرت انسان سے کس سعی و عمل کا تقاضا کرتی ہے اور اس سے بھی واقف ہو کہ اس ظاہر کے پیچھے جو حقیقت نفس الامری پوشیدہ ہے اس کی بنا پر اصل کار فرما طاقت کونسی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اپنی سعی و عمل پر انسان کا بھروسا کس قدر بے بنیاد ہے ، یہی وہ بات ہے جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے ، ان میں سے جس کے ذہن پر ظاہر کا غلبہ ہوتا ہے وہ توکل سے غافل ہوکر تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور جس کے دل پر باطن چھا جاتا ہے وہ تدبیر سے بے پروا ہوکر نرے توکل ہی کے بل پر زندگی کی گاڑی چلانا چاہتا ہے ۔