And when the caravan departed [from Egypt], their father said, "Indeed, I find the smell of Joseph [and would say that he was alive] if you did not think me weakened in mind."
اور جب یہ قافلہ ( مصر سے کنعان کی طرف ) روانہ ہوا تو ان کے والد نے ( کنعان میں آس پاس کے لوگوں سے ) کہا کہ : اگر تم مجھے یہ نہ کہو کہ بوڑھا سٹھیا گیا ہے ، تو مجھے تو یوسف کی خوشبو آرہی ہے ۔ ( ٥٨ )
جب یہ قافلہ ﴿مصر سے﴾ روانہ ہوا تو ان کے باپ نے ﴿کنعان میں﴾ کہا میں یوسف ( علیہ السلام ) کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں ، 66 تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں ۔
اور جب قافلہ ( مصر سے ) روانہ ہوا ان کے والد ( یعقوب علیہ السلام ) نے ( کنعان میں بیٹھے ہی ) فرما دیا: بیشک میں یوسف کی خوشبو پا رہا ہوں اگر تم مجھے بڑھاپے کے باعث بہکا ہوا خیال نہ کرو
٦٦ ۔ اس سے انبیاء علیہم السلام کی غیر معمولی قوتوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی قافلہ حضرت یوسف کا قمیص لیکر مصر سے چلا ہے اور ادھر سیکڑوں میل کے فاصلے پر حضرت یعقوب اس کی مہک پا لیتے ہیں ، مگر اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی یہ قوتیں کچھ ان کی ذاتی نہ تھیں بلکہ اللہ کی بخشش سے ان کو ملی تھیں اور اللہ جب اور جس قدر چاہتا تھا انہیں کام کرنے کا موقع دیتا تھا ۔ حضرت یوسف برسوں مصر میں موجود رہے اور کبھی حضرت یعقوب کو ان کی خوشبو نہ آئی ۔ مگر اب یکایک قوت ادراک کی تیزی کا یہ عالم ہوگیا کہ ابھی ان کا قمیص مصر سے چلا ہے اور وہاں ان کی مہک آنی شروع ہوگئی ۔
یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ایک طرف قرآن حضرت یعقوب کو اس پیغمرانہ شان کے ساتھ پیش کر رہا ہے ، اور دوسری طرف بنی اسرائیل ان کو ایسے رنگ میں دکھاتے ہیں جیسا عرب کا ہر معمولی بد ہوسکتا ہے ، بائیبل کا بیان ہے کہ جب بیٹوں نے آکر خبر دی کہ یوسف اب تک جیتا ہے اور وہی سارے ملک مصر کا حاکم ہے تو یعقوب کا دل دھک سے رہ گیا کیونکہ اس نے ان کا یقین نہ کیا ، اور جب ان کے باپ یعقوب نے وہ گاڑیاں دیکھ لیں جو یوسف نے ان کو لانے کے لیے بھیجی تھیں تب اس کی جان میں جان آئی ، پیدائش: ٤۵ ، ۲٦ ، ۲۷ٌ )