Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
حَتّٰۤى اِذَا اسۡتَيۡــَٔسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوۡۤا اَنَّهُمۡ قَدۡ كُذِبُوۡا جَآءَهُمۡ نَصۡرُنَا ۙ فَـنُجِّىَ مَنۡ نَّشَآءُ ‌ؕ وَلَا يُرَدُّ بَاۡسُنَا عَنِ الۡقَوۡمِ الۡمُجۡرِمِيۡنَ‏ ﴿110﴾
یہاں تک کہ جب رسول نا امید ہو نے لگے اور وہ ( قوم کے لوگ ) خیال کرنے لگے کہ انہیں جھوٹ کہا گیا ۔ فوراً ہی ہماری مدد ان کے پاس آپہنچی جسے ہم نے چاہا اسے نجات دی گئی ۔ بات یہ ہے کہ ہمارا عذاب گناہ گاروں سے واپس نہیں کیا جاتا ۔
حتى اذا استيس الرسل و ظنوا انهم قد كذبوا جاءهم نصرنا فنجي من نشاء و لا يرد باسنا عن القوم المجرمين
[They continued] until, when the messengers despaired and were certain that they had been denied, there came to them Our victory, and whoever We willed was saved. And Our punishment cannot be repelled from the people who are criminals.
Yahan tak kay jab rasool na umeed honey lagay aur woh ( qom kay log ) khayal kerney lagay kay unhen jhoot kaha gaya foran hi humari madad unn kay pass aa phonchi jissay hum ney chaha ussay nijat di gaee. Baat yeh hai kay humara azab gunehgaron say wapis nahi kiya jata.
۔ ( پچھلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ ان کی قوموں پر عذاب آنے میں کچھ دیر لگی ) یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہوگئے اور کافر لوگ یہ سمجھنے لگے کہ انہیں جھوٹی دھمکیاں دی گئی تھیں تو ان پیغمبروں کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی ( ٦٧ ) ( یعنی کافروں پر عذاب آیا ) اور جن کو ہم چاہتے تھے ، انہیں بچا لیا گیا ، اور جو لوگ مجرم ہوتے ہیں ، ان سے ہمارے عذاب کو ٹالا نہیں جاسکتا ۔
یہاں تک جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی ( ف۲۳۸ ) اور لوگ سمجھے کہ رسولوں نے غلط کہا تھا ( ف۲۳۹ ) اس وقت ہماری مدد آئی تو جسے ہم نے چاہا بچالیا گیا ( ف۲٤۰ ) اور ہمارا عذاب مجرموں سے پھیرا نہیں جاتا ،
﴿پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ مدّتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سن کر نہ دیا﴾ یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہو گئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا ، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی ۔ پھر جب ایسا موقع آجاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جاسکتا ۔
یہاں تک کہ جب پیغمبر ( اپنی نافرمان قوموں سے ) مایوس ہوگئے اور ان منکر قوموں نے گمان کر لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے ( یعنی ان پر کوئی عذاب نہیں آئے گا ) تو ان رسولوں کو ہماری مدد آپہنچی پھر ہم نے جسے چاہا ( اسے ) نجات بخش دی ، اور ہمارا عذاب مجرم قوم سے پھیرا نہیں جاتا
جب مخالفت عروج پر ہو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس کی مدد اس کے رسولوں پر بروقت اترتی ہے ۔ دنیا کے جھٹکے جب زوروں پر ہوتے ہیں ، مخالفت جب تن جاتی ہے ، اختلاف جب بڑھ جاتا ہے ، دشمنی جب پوری ہو جاتی ہے ، انبیاء اللہ کو جب چاروں طرف سے گھیر لیا جاتا ہے ، معا اللہ کی مدد آ پہنچتی ہے ۔ کذبوا اور کذبوا دونوں قرأت یں ہیں ، حضرت عائشہ کی قرأت ذال کی تشدید سے ہے ، چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ یہ لفظ کذبوا یا کذبوا ہے ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کذبوا ہے ۔ انہوں نے کہا پھر تو یہ معنی ہوئے کہ رسولوں نے گمان کیا کہ وہ جھٹلائے گئے تو یہ گمان کی کون سی بات تھی یہ تو یقینی بات تھی کہ وہ جھٹلائے جاتے تھے ۔ آپ نے فرمایا بیشک یہ یقینی بات تھے کہ وہ کفار کی طرف سے جھٹلائے جاتے تھے لیکن وہ وقت بھی آئے کہ ایمان دار امتی بھی ایسے زلزلے میں ڈالے گئے اور اس طرح ان کی مدد میں تاخیر ہوئی کہ رسولوں کے دل میں آئی کہ غالبا اب تو ہماری جماعت بھی ہمیں جھٹلانے لگی ہو گی ۔ اب مدد رب آئی ۔ اور انہیں غلبہ ہوا ۔ تم اتنا تو خیال کرو کہ کذبوا کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے ؟ معاذ اللہ کیا انبیاء علیہم السلام اللہ کی نسبت یہ بدگمانی کر سکتے ہیں کہ انہیں رب کی طرف سے جھٹلایا گیا ؟ ابن عباس کی قرأت میں کذبوا ہے ۔ آپ اس کی دلیل میں آیت ( حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ ٢١٤؁ ) 2- البقرة:214 ) پڑھ دیتے تھے یعنی یہاں تک کہ انبیاء اور ایماندار کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کہاں ہے ۔ یاد رکھو مدد رب بالکل قریب ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کا سختی سے انکار کرتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ جناب رسول اللہ آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے جتنے وعدے کئے ، آپ کو کامل یقین تھا کہ وہ سب یقینی اور حتمی ہیں اور سب پورے ہو کر ہی رہیں گے آخر دم تک کبھی نعوذ باللہ آب کے دل میں یہ وہم ہی پیدا نہیں ہوا کہ کوئی وعدہ ربانی غلط ثابت ہو گا ۔ یا ممکن ہے کہ غلظ ہو جائے یا پورا نہ ہو ۔ ہاں انبیا علیہم السلام پر برابر بلائیں اور آزمائشیں آتی رہیں ، یہاں تک کہ ان کے دل میں یہ خطرہ پیدا ہونے لگا کہ کہیں میرے ماننے والے بھی مجھ سے بدگمان ہو کر مجھے جھٹلا نہ رہے ہوں ۔ ایک شخص قاسم بن محمد کے پاس آ کر کہتا ہے کہ محمد بن کعب قرظی کذبوا پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ صدیقہ عائشہ سے سنا ہے وہ کذبوا پڑھتی تھیں یعنی ان کے ماننے والوں نے انہیں جھٹلایا ۔ پس ایک قرأت تو تشدید کے ساتھ ہے دوسری تخفیف کے ساتھ ہے ، پھر اس کی تفسیر میں ابن عباس سے تو وہ مری ہے جو اوپر گزر چکا ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے یہ آیت اسی طرح پڑھ کر فرمایا یہی وہ ہے جو تو برا جانتا ہے ۔ یہ روایت اس روایت کے خلاف ہے ، جسے ان دونوں بزرگوں سے اوروں نے روایت کیا ہے ، اس میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب رسول ناامید ہو گئے کہ ان کی قوم ان کی مانے گی اور قوم نے یہ سمجھ لیا کہ نبیوں نے ان سے جھوٹ کہا ، اسی وقت اللہ کی مدد آ پہنچی اور جسے اللہ نے چاہا نجات بخشی ۔ اسی طرح کی تفسیر اوروں سے بھی مروی ہے ۔ ایک نوجوان قریشی نے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ حضرت ہمیں بتائیے ، اس لفظ کو کیا پڑھیں ، مجھ سے تو اس لفظ کی قرأت کی وجہ سے ممکن ہے کہ اس سورت کا پڑھنا ہی چھوٹ جائے ۔ آپ نے فرمایا سنو اس کا مطلب یہ کہ انبیاء اس سے مایوس ہو گئے کہ ان کی قوم ان کی بات مانے گی اور قوم والے سمجھ بیٹھے کہ نبیوں نے غلط کہا ہے یہ سن کر حضرت ضحاک بن مزاحم بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا کہ اس جیسا جواب کسی ذی علم کا میں نے نہیں سنا اگر میں یہاں سے یمن پہنچ کر بھی ایسے جواب کو سنتا تو میں اسے بھی بہت آسان جانتا ۔ مسلم بن یسار رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آپ کا یہ جواب سن کر اٹھ کر آپ سے معانقہ کیا اور کہا اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانیوں کو بھی اسی طرح دور کر دے ، جس طرح آپ نے ہماری پریشانی دور فرمائی ۔ بہت سے اور مفسرین نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے بلکہ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کی تو قرأت ذال کے زبر سے ہے یعنی کذبوا ہاں بعض مفسرین وظنوا کا فاعل مومنوں کو بتاتے ہیں اور بعض کافرویں کو یعنی کافروں نے یا یہ کہ بعض مومنوں نے یہ گمان کیا کہ رسولوں سے جو وعدہ مدد کا تھا اس میں وہ جھوٹے ثابت ہوئے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو فرماتے ہیں رسول ناامید ہو گئے یعنی اپنی قوم کے ایمان سے اور نصرت ربانی میں دیر دیکھ کر ان کو قوم گمان کرنے لگی کہ وہ جھوٹا وعدہ دئے گئے تھے ۔ پس یہ دونوں روایتیں تو ان دونوں بزرگ صحابیوں سے مروی ہیں ۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کا صاف انکار کرتی ہیں ۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ بھی قول صدیقہ کی طرفداری کرتے اور دوسرے قول کی تردید کرتے ہیں اور اسے ناپسند کر کے رد کر دیتے ہیں ، واللہ اعلم ۔