Surah

Information

Surah # 13 | Verses: 43 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 96 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
الٓـمّٓرٰ تِلۡكَ اٰيٰتُ الۡكِتٰبِ‌ؕ وَالَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ الۡحَـقُّ وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿1﴾
ال م ر ۔ یہ قرآن کی آیتیں ہیں اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے سب حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ۔
المر تلك ايت الكتب و الذي انزل اليك من ربك الحق و لكن اكثر الناس لا يؤمنون
Alif, Lam, Meem, Ra. These are the verses of the Book; and what has been revealed to you from your Lord is the truth, but most of the people do not believe.
Alif –laam-meem-raa yeh quran ki aayaten hain aur jo kuch aap ki taraf aap kay rab ki janib say utara jata hai sab haq hai lekin aksar log eman nahi latay.
المر ( ١ ) یہ ( اللہ کی ) کتاب کی آیتیں ہیں ، اور ( اے پیغمبر ) جو کچھ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ، برحق ہے ، لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لار ہے ۔
یہ کتاب کی آیتیں ہیں ( ف۲ ) اور وہ جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا ( ف۳ ) حق ہے ( ف٤ ) مگر اکثر آدمی ایمان نہیں لاتے ( ف۵ )
ا ۔ ل ۔ م ۔ ر ، یہ کتاب الہٰی کی آیات ہیں ، اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے ، مگر ﴿تمہاری قوم کے﴾ اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں ۔ 1
الف ، لام ، میم ، را ( حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ) ، یہ کتابِ الٰہی کی آیتیں ہیں ، اور جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ کی جانب نازل کیا گیا ہے ( وہ ) حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :1 یہ اس سورہ کی تمہید ہے جس میں مقصود کلام کو چند لفظوں میں بیان کر دیا گیا ہے ۔ روئے سخن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے اور آپ کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، تمہاری قوم کے اکثر لوگ اس تعلیم کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں ، مگر واقعہ یہ ہے کہ اسے ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور یہی حق ہے خواہ لوگ اسے مانیں یا نہ مانیں ۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد اصل تقریر شروع ہوجاتی ہے جس میں منکرین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ تعلیم کیوں حق ہے اور اس کے بارے میں ان کا رویہ کس قدر غلط ہے ۔ اس تقریر کو سمجھنے کے لیے ابتدا ہی سے یہ پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت جس چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ تین بنیادی باتوں پر مشتمل تھی ۔ ایک یہ کہ خدائی پوری کی پوری اللہ کی ہے اس لیے اس کے سوا کوئی بندگی و عبادت کا مستحق نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں تم کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی ۔ تیسرے یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور جو کچھ پیش کر رہا ہوں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے پیش کر رہاہوں ۔ یہی تین باتیں ہیں جنہیں ماننے سے لوگ انکار کر رہے تھے ، اِنہی کو اس تقریر میں بار بار طریقے طرقے سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور انہی کے متعلق لوگوں کے شبہات و اعتراضات کو رفع کیا گیا ہے ۔
سورتوں کے شروع میں جو حروف مقطعات آتے ہیں ان کی پوری تشریح سورہ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں ۔ اور یہ بھی ہم کہہ آئے ہیں کہ جس سورت کے اول میں یہ حروف آئے ہیں وہاں عموما یہی بیان ہوتا ہے کہ قرآن کلام اللہ ہے اس میں کوئی شک و شبہ نیہں ۔ چنانچہ یہاں بھی ان حروف کے بعد فرمایا یہ کتاب کی یعنی قرآن کی آیتیں ہیں ۔ بعض نے کہا مراد کتاب سے توراۃ انجیل ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں ۔ پہر اسی پر عطف ڈال کر اور صفتیں اس پاک کتاب کی بیان فرمائیں کہ یہ سراسر حق ہے اور اللہ کی طرف سے تجھ پر اتارا گیا ہے ۔ الحق خبر ہے اس کا مبتدا پہلے بیان ہوا ہے یعنی الذی انزل الیک لیکن ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا پسندیدہ قول لائے ہیں ۔ پھر فرمایا کہ باوجود حق ہونے کے پھر بھی اکثر لوگ ایمان سے محروم ہیں اس سے پہلے گزرا ہے کہ گو تو حرص کرے لیکن اکثر لوگ ایمان قبول کرنے والے نہیں ۔ یعنی اس کی حقانیت واضح ہے لیکن ان کی ضد ، ہٹ دھری اور سرکشی انہیں ایمان کی طرف متوجہ نہ ہونے دے گی ۔