Surah

Information

Surah # 13 | Verses: 43 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 96 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَللّٰهُ الَّذِىۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَهَا‌ ثُمَّ اسۡتَوٰى عَلَى الۡعَرۡشِ‌ وَسَخَّرَ الشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ‌ؕ كُلٌّ يَّجۡرِىۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى‌ؕ يُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ يُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّكُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّكُمۡ تُوۡقِنُوۡنَ‏ ﴿2﴾
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کررکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ۔ پھر وہ عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے اسی نے سورج اور چاند کو ما تحتی میں لگا رکھا ہے ۔ ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے وہی کام کی تدبیر کرتا ہے وہ اپنے نشانات کھول کھول کر بیان کر رہا ہے کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کر لو ۔
الله الذي رفع السموت بغير عمد ترونها ثم استوى على العرش و سخر الشمس و القمر كل يجري لاجل مسمى يدبر الامر يفصل الايت لعلكم بلقاء ربكم توقنون
It is Allah who erected the heavens without pillars that you [can] see; then He established Himself above the Throne and made subject the sun and the moon, each running [its course] for a specified term. He arranges [each] matter; He details the signs that you may, of the meeting with your Lord, be certain.
Allah woh hai jiss ney aasmanon ko baghair sutonon kay buland ker rakha hai kay tum ussay dekh rahey ho. Phir woh arsh per qarar pakray huye hai ussi ney sooraj aur chand ko ma-tehati mein laga rakha hai. Her aik miyad-e-moyyen per gasht ker raha hai wohi kaam ki tadbeer kerta hai woh apney nishanaat khol khol ker biyan ker raha hai kay tum apney rab ki mulaqat ka yaqeen kerlo.
اللہ وہ ہے جس نے ایسے ستونوں کے بغیر آسمانوں کو بلند کیا جو تمہیں نظر آسکیں ، ( ٢ ) پھر اس نے عرش پر استوا فرمایا ( ٣ ) اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا ( ٤ ) ہر چیز ایک معین میعاد تک کے لیے رواں دواں ہے ۔ وہی تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے ، وہی ان نشانیوں کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے ، تاکہ تم اس بات کا یقین کرلو کہ ( ایک دن ) تمہیں اپنے پروردگار سے جا ملنا ہے ( ٥ )
اللہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بےستونوں کے کہ تم دیکھو ( ف٦ ) پھر عرش پر استوا فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ( ف۷ ) ہر ایک ، ایک ٹھہرائے ہوئے وعدہ تک چلتا ہے ( ف۸ ) اللہ کام کی تدبیر فرماتا اور مفصل نشانیاں بتاتا ہے ( ف۹ ) کہیں تم اپنے رب رب کا ملنا یقین کرو ( ف۱۰ )
وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں 2 ، پھر وہ اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا 3 ، اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا ۔ 4 اس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقتِ مقرر تک کے لیے چل رہی ہے 5 اور اللہ ہی اس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے ۔ وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے 6 ، شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو ۔ 7
اور اﷲ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے ( خلا میں ) بلند فرمایا ( جیسا کہ ) تم دیکھ رہے ہو پھر ( پوری کائنات پر محیط اپنے ) تختِ اقتدار پر متمکن ہوا اور اس نے سورج اور چاند کو نظام کا پابند بنا دیا ، ہر ایک اپنی مقررہ میعاد ( میں مسافت مکمل کرنے ) کے لئے ( اپنے اپنے مدار میں ) چلتا ہے ۔ وہی ( ساری کائنات کے ) پورے نظام کی تدبیر فرماتا ہے ، ( سب ) نشانیوں ( یا قوانینِ فطرت ) کو تفصیلاً واضح فرماتا ہے تاکہ تم اپنے رب کے روبرو حاضر ہونے کا یقین کر لو
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :2 بالفاظ دیگر آسمانوں کو غیر محسوس اور غیر مرئی سہاروں پر قائم کیا ۔ بظاہر کوئی چیز فضائے بسیط میں ایسی نہیں ہے جو ان بے حد و حساب اجرام فلکی کو تھامے ہوئے ہو ۔ مگر ایک غیر محسوس طاقت ایسی ہے جو ہر ایک کو اس کے مقام و مدار پر روکے ہوئے اور ان عظیم الشان اجسام کو زمین پر یا ایک دوسرے پر گرنے نہیں دیتی ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :3 اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف حاشیہ نمبر ٤۱ ۔ مختصرا یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ عرش ( یعنی سلطنت کائنات کے مرکز ) پر اللہ تعالی کی جلوہ فرمائی کو جگہ جگہ قرآن میں جس غرض سے بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو صرف پیدا ہی نہیں کر دیا ہے بلکہ وہ آپ ہی اس سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے ۔ یہ جہان ہست و بود کوئی خود بخود چلنے والا کارخانہ نہیں ہے ، جیسا کہ بہت سے جاہل خیال کرتے ہیں ، اور نہ مختلف خداؤں کی آماج گاہ ہے ، جیسا کہ بہت سے دوسرے جاہل سمجھے بیٹھے ہیں ، بلکہ یہ ایک باقاعدہ نظام ہے جسے اس کا پیدا کرنے والا خود چلا رہا ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :4 یہاں یہ امر ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ مخاطب وہ قوم ہے جو اللہ کی ہستی کی منکر نہ تھی ، نہ اس کے خالق ہونے کی منکر تھی ، اور نہ یہ گمان رکھتی تھی کہ یہ سارے کام جو یہاں بیان کیے جا رہے ہیں ، اللہ کے سوا کسی اور کے ہیں ۔ اس لیے بجائے خود اس بات پر دلیل لانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی کہ واقعی اللہ ہی نے آسمانوں کو قائم کیا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو ایک ضابطے کا پابند بنایا ہے ۔ بلکہ ان واقعات کو ، جنہیں مخاطب خود ہی مانتے تھے ، ایک دوسری بات پر دلیل قرار دیا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا اس نظام کائنات میں صاحب اقتدار نہیں ہے جو معبود قرار دیے جانے کا مستحق ہو ۔ رہا یہ سوال کہ جو شخص سرے سے اللہ کی ہستی کا اور اس کے خالق و مدبر ہونے ہی کا قائل نہ ہو اسکے مقابلے میں یہ استدلال کیسے مفید ہوسکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی مشرکین کے مقابلے میں توحید کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل دیتا ہے وہی دلائل ملاحدہ کے مقابلے میں وجود باری کے اثبات کے لیے بھی کافی ہیں ۔ توحید کا سارا استدلال اس بنیاد پر قائم ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری کائنات ایک مکمل نظام ہے اور یہ پورا نظام ایک زبردست قانون کے تحت چل رہا ہے جس میں ہر طرف ایک ہمہ گیر اقتدار ، ایک بے عیب حکمت ، اور بے خطا علم کے آثار نظر آتے ہیں ۔ یہ آثار جس طرح اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کے بہت سے فرمانروا نہیں ہیں ، اسی طرح اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کا ایک فرمانروا ہے ۔ نظم کا تصور ایک ناظم کے بغیر ، قانون کا تصور ایک حکمران کے بغیر ، حکمت کا تصور ایک حکیم کے بغیر ، علم کا تصور ایک عالم کے بغیر ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلق کا تصور ایک خالق کے بغیر صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو ہٹ دھرم ہو ، یا پھر وہ جس کی عقل ماری گئی ہو ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :5 یعنی یہ نظام صرف اسی امر کی شہادت نہیں دے رہا ہے کہ ایک ہمہ گیر اقتدار اس پر فرمانروا ہے اور ایک زبردست حکمت اس میں کام کر رہی ہے ، بلکہ اس کے تمام اجزا اور ان میں کام کرنے والی ساری قوتیں اس بات پر بھی گواہ ہیں کہ اس نظام کی کوئی چیز غیر فانی نہیں ہے ۔ ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس کے اختتام تک وہ چلتی ہے اور جب اس کا وقت آن پورا ہوتا ہے تو مٹ جاتی ہے ۔ یہ حقیقت جس طرح اس نظام کے ایک ایک جزء کے معاملے میں صحیح ہے اسی طرح اس پورے نظام کے بارے میں بھی صحیح ہے ۔ اس عالم طبیعی کی مجموعی ساخت یہ بتا رہی ہے کہ یہ ابدی و سرمدی نہیں ہے ، اس کے لیے بھی کوئی وقت ضرور مقرر ہے جب یہ ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا عالم برپا ہوگا ۔ لہٰذا قیامت ، جس کے آنے کی خبر دی گئی ہے ، اس کا آنا مُستبَعد نہیں بلکہ نہ آنا مُستبَعد ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :6 یعنی اس امر کی نشانیاں کہ رسول خدا جن حقیقتوں کی خبر دے رہے ہیں وہ فی الواقع سچی حقیقتیں ہیں ۔ کائنات میں ہر طرف ان پر گواہی دینے والے آثار موجود ہیں ۔ اگر لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آجائے کہ قرآن میں جن جن باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے زمین و آسمان میں پھیلے ہوئے بے شمار نشانات ان کی تصدیق کر رہے ہیں ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :7 اوپر جن آثار کائنات کو گواہی میں پیش کیا گیا ہے ان کی یہ شہادت تو بالکل ظاہر و باہر ہے کہ اس عالم کا خالق و مدبر ایک ہی ہے ، لیکن یہ بات کہ موت کے بعد دوسری زندگی ، اور عدالت الہٰی میں انسان کی حاضری ، اور جزا و سزا کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خبریں دی ہیں ان کے برحق ہونے پر بھی یہی آثار شہادت دیتے ہیں ، ذرا مخفی ہے اور زیادہ غور کرنے سے سمجھ میں آتی ہے ۔ اس لیے پہلی حقیقت پر متنبہ کرنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی ، کیونکہ سننے والا محض دلائل کو سن کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ ان سے کیا ثابت ہوتا ہے ۔ البتہ دوسری حقیقت پر خصوصیت کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے رب کی ملاقات کا یقین بھی تم کو انہی نشانیوں پر غور کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے ۔ مذکورہ بالا نشانیوں سے آخرت کا ثبوت دو طرح سے ملتا ہے: ایک یہ کہ جب ہم آسمانوں کی ساخت اور شمس و قمر کی تسخیر پر غور کرتے ہیں تو ہمارا دل یہ شہادت دیتا ہے کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان اجرام فلکی پیدا کیے ہیں ، اور جس کی قدرت اتنے بڑے بڑے کروں کو فضا میں گردش دے رہی ہے ، اس کے لیے نوع انسانی کو موت کے بعد دوبارہ پیدا کر دینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ اسی نظام فلکی سے ہم کو یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا کمال درجے کا حکیم ہے ، اور اس کی حکمت سے یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کہ وہ نوع انسانی کو ایک ذی عقل و شعور صاحب اختیار و ارادہ مخلوق بنانے کے بعد ، اور اپنی زمین کی بے شمار چیزوں پر تصرف کی قدرت عطا کر نے کے بعد ، اس کے کارنامہ زندگی کا حساب نہ لے ، اس کے ظالموں سے باز پرس اور اس کے مظلوموں کی داد رسی نہ کرے ، اس کے نیکوکاروں کو جزا اور اس کے بدکاروں کو سزا نہ دے ، اور اس سے کبھی یہ پوچھے ہی نہیں کہ جو بیش قیمت امانتیں میں نے تیرے سپرد کی تھیں ان کے ساتھ تونے کیا معاملہ کیا ۔ ایک اندھا راجہ تو بے شک اپنی سلطنت کے معاملات اپنے کار پردازوں کے حوالے کر کے خواب غفلت میں سرشار ہو سکتا ہے ، لیکن ایک حکیم و دانا سے اس غلط بخشی و تغافل کیشی کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ اس طرح آسمانوں کا مشاہدہ ہم کو نہ صرف آخرت کے امکان کا قائل کرتا ہے ، بلکہ اس کے وقوع کا یقین بھی دلا تا ہے ۔
کمال قدرت اور عظمت سلطنت ربانی دیکھو کہ بغیر ستونوں کے آسمان کو اس نے بلند بالا اور قائم کر رکھا ہے ۔ زمین سے آسمان کو اللہ نے کیسا اونچا کیا اور صرف اپنے حکم سے اسے ٹھرایا ۔ جس کی انتہا کوئی نہیں پاتا ۔ آسمان دنیا ساری زمین کو اور جو اس کے ارد گرد ہے پانی ہوا وغیرہ سب کو احاطہ کئے ہوے ہے اور ہر طرف سے برابر اونچا ہے ، زمین سے پانچ سو سال کی راہ پر ہے ، ہر جگہ سے اتنا ہی اونچا ہے ۔ پھر اس کی اپنی موٹائی اور دل بھی پانچ سو سال کے فاصلے کا ہے ، پھر دوسرا آسمان اس آسمان کو بھی گھیرے ہوئے ہے اور پہلے سے دوسرے تک کا فاصلہ وہی پانچ سو سال کا ہے ۔ اسی طرح تیسرا پھر چوتھا پھر پانچواں پھر چھٹا پھر ساتواں جیسے فرمان الٰہی ہے آیت ( اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ 12۝ۧ ) 65- الطلاق:12 ) یعنی اللہ نے سات آسمان بیدا کئے ہیں اور اسی کے مثل زمین ۔ حدیث شریف میں ہے ساتوں آسمان اور ان میں اور ان کے درمیان میں جو کچھ ہے وہ کرسی کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے کہ چٹیل میدان میں کوئی حلقہ ہو اور کرسی عرش کے مقابلے پر بھی ایسی ہی ہے ۔ عرش کی قدر اللہ عزوجل کے سوا کسی کو معلوم نہیں ۔ بعض سلف کا بیان ہے کہ عرش سے زمین تک کا فاصلہ پچاس ہزار سال کا ہے ۔ عرش سرخ یاقوت کا ہے ۔ بعض مفسر کہتے ہیں آسمان کے ستون تو ہیں لیکن دیکھے نہیں جاتے ۔ لیکن ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں آسمان زمین پر مثل قصبے کے ہے یعنی بغیر ستون کے ہے ۔ قرآن کے طرز عبارت کے لائق بھی یہی بات ہے اور آیت ( ویمسک السماء ان تقع علی الارض ) سے بھی ظاہر ہے پس ترونھا اس نفی کی تاکید ہو گی یعنی آسمان بلا ستون اس قد بلند ہے اور تم آپ دیکھ رہے ہو ، یہ ہے کمال قدرت ۔ امیہ بن ابو الصلت کے اشعار میں ہے ، جس کے اشعار کی بابت حدیث میں ہے کہ اس کے اشعار ایمان لائے ہیں اور اس کا دل کفر کرتا ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ یہ اشعار حضرت زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہے جن میں ہے وانت الذی من فصل من ورحمتہ بعثت الی موی رسولا منادیا فقلت لہ فاذہب وہارون فادعوا الی اللہ فرعون الذی کان طاغیا وقولا لہ ہل انت سویت ہذہ بلا عمدا وثوق ذالک بانیا ولوالا لہ ہل انت سویت وسطہا منیرا انا جنک الیل ہادیا وقولا لنا من انبت الحب فی الثری فیصبح منہ العشب یفتر دابیا ویخرج منہ حبہ فی روسہ ففی ذالک ایات لمن کان واعیا یعنی تو وہ اللہ ہے جس نے اپنے فضل وکرم سے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کو مع ہارون علیہ السلام کے فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور ان سے فرما دیا کہ اس سرکش کو قائل کرنے کے لئے اس سے کہیں کہ اس بلند وبالا بےستون آسمان کو کیا تو نے بنایا ہے ؟ اور اس میں سورج چاند ستارے تو نے پیدا کئے ہیں ؟ اور مٹی سے دانوں کو اگانے والا پھر ان درختوں میں بالیں پیدا کر کے ان میں دانے پکانے والا کیا تو ہے ؟ کیا قدرت کی یہ زبردست نشانیاں ایک گہرے انسان کے لئے اللہ کی ہستی کی دلیل نہیں ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوا ۔ اس کی تفسیر سورہ اعراف میں گزر چکی ہے ۔ اور یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ جس طرح ہے اسی طرح چھوڑ دی جائے ۔ کیفیت ، تشبیہ ، تعطیل ، تمثلیل سے اللہ کی ذات پاک ہے اور برتر وبالا ہے ۔ سورج چاند اس کے حکم کے مطابق گردش میں ہیں اور وقت موزوں یعنی قیامت تک برابر اسی طرح لگے رہیں گے ۔ جیسے فرمان ہے کہ سورج اپنی جگہ برابر چل رہا ہے اس کی جگہ سے مراد عرش کے نیچے ہے جو زمین کے تلے سے دوسری طرف سے ملحق ہے یہ اور تمام ستارے یہاں تک پہنچ کر عرش سے اور دور ہو جاتے ہیں کیونکہ صحیح بات جس پر بہت سی دلیلیں ہیں یہی ہے کہ وہ قبہ ہے متصل عالم باقی آسمانوں کی طرح وہ محیط نہیں اس لئے کہ اس کے پائے ہیں اور اس کے اٹھانے والے ہیں اور یہ بات آسمان مستدیر گھومے ہوئے آسمان میں تصور میں نہیں آ سکتی جو بھی غور کرے گا اسے سچ مانے گا ۔ آیات واحادیث کا جانچنے والا اسی نتیجے پر پہنچے گا ۔ وللہ الحمد والمنہ صرف سورج چاند کا ہی ذکر یہاں اس لیے ہے کہ ساتوں سیاروں میں بڑے اور روشن یہی دو ہیں پس جب کہ یہ دونوں مسخر ہیں تو اور تو بطور اولیٰ مسخر ہوئے ۔ جیسے کہ سورج چاند کو سجدہ نہ کرو سے مراد اور ستاروں کو بھی سجدہ نہ کرنا ہے ۔ پھر اور آیت میں تصریح بھی موجود ہے فرمان ہے آیت ( وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ 54؀ ) 7- الاعراف:54 ) یعنی سورج چاند اور ستارے اس کے حکم سے مسخر ہیں ، وہی خلق و امر والا ہے ، وہی برکتوں والا ہے وہی رب العالمین ہے ۔ وہ اپنی آیتوں کو اپنی وحدانیت کی دلیلوں کو بالتفصیل بیان فرما رہا ہے کہ تم اس کی توحید کے قائل ہو جاؤ اور اسے مان لو کہ وہ تمہیں فنا کر کے پھر زندہ کر دے گا ۔