Surah

Information

Surah # 13 | Verses: 43 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 96 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَهُوَ الَّذِىۡ مَدَّ الۡاَرۡضَ وَجَعَلَ فِيۡهَا رَوَاسِىَ وَاَنۡهٰرًا‌ ؕ وَمِنۡ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِيۡهَا زَوۡجَيۡنِ اثۡنَيۡنِ‌ يُغۡشِى الَّيۡلَ النَّهَارَ‌ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ‏ ﴿3﴾
اسی نے زمین پھیلا کر بچھا دی ہے اور اس میں پہاڑ اور نہریں پیدا کر دی ہیں ۔ اور اس میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے دوہرے دوہرے پیدا کر دیئے ہیں وہ رات کو دن سے چھپا دیتا ہے ۔ یقیناً غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔
و هو الذي مد الارض و جعل فيها رواسي و انهرا و من كل الثمرت جعل فيها زوجين اثنين يغشي اليل النهار ان في ذلك لايت لقوم يتفكرون
And it is He who spread the earth and placed therein firmly set mountains and rivers; and from all of the fruits He made therein two mates; He causes the night to cover the day. Indeed in that are signs for a people who give thought.
Ussi ney zamin phela ker bicha di hai aur iss mein pahar aur nehren peda ker di hain. Aur iss mein her qisam kay phalon kay joray dohra dohray peda ker diye hain woh raat ko din say chupa deta hai. Yaqeenan ghor-o-fikar kerney walon kay liye iss mein boht si nishaniyan hain.
اور وہی ذات ہے جس نے یہ زمین پھیلائی ، اس میں پہاڑ اور دریا بنائے ، اور اس میں ہر قسم کے پھلوں کے دو دو جوڑے پیدا کیے ۔ ( ٦ ) وہ دن کو رات کی چادر اڑھا دیتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ساری باتوں میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غوروفکر کریں ۔
اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلا اور اس میں لنگر ( ف۱۱ ) اور نہریں بنائیں ، اور زمین ہر قسم کے پھل دو دو طرح کے بنائے ( ف۱۲ ) رات سے دن کو چھپا لیتا ہے ، بیشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کو ( ف۱۳ )
اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے ، اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیے ہیں ۔ اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں ، اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے ۔ 8 ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیےجو غور و فکر سے کام لیتے ہیں ۔
اور وہی ہے جس نے ( گولائی کے باوجود ) زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا بنائے ، اور ہر قسم کے پھلوں میں ( بھی ) اس نے دو دو ( جنسوں کے ) جوڑے بنائے ( وہی ) رات سے دن کو ڈھانک لیتا ہے ، بیشک اس میں تفکر کرنے والوں کے لئے ( بہت ) نشانیاں ہیں
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :8 اجرام فلکی کے بعد عالم ارضی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور یہاں بھی خدا کی قدرت اور حکمت کے نشانات سے انہی دونوں حقیقتوں ( توحید اور آخرت ) پر استشہاد کیا گیا ہے جن پر پچھلی آیات میں عالم سماوی کے آثار سے استشہاد کیا گیا تھا ۔ ان دلائل کا خلاصہ یہ ہے: ( ۱ ) اجرام فلکی کے ساتھ زمین کا تعلق ، زمین کے ساتھ سورج اور چاند کا تعلق ، زمین کی بے شمار مخلوقات کی ضرورتوں سے پہاڑوں اور دریاؤں کا تعلق ، یہ ساری چیزیں اس بات پر کھلی شہادت دیتی ہیں کہ ان کو نہ تو الگ الگ خداؤں نے بنایا ہے اور نہ مختلف با اختیار خدا ان کا انتظام کر رہے ہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو ان سب چیزوں میں باہم اتنی مناسبتیں اور ہم آہنگیاں اور موافقتیں نہ پیدا ہو سکتی تھیں اور نہ مسلسل قائم رہ سکتی تھیں ۔ الگ الگ خداؤں کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ مل کر پوری کائنات کے لیے تخلیق و تدبیر کا ایسا منصوبہ بنا لیتے جس کی ہر چیز زمین سے لے کر آسمانوں تک ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کھاتی چلی جائے اور کبھی ان کی مصلحتوں کے درمیان تصادم واقع نہ ہونے پائے ۔ ( ۲ ) زمین کے اس عظیم الشان کرے کا فضائے بسیط میں معلق ہونا ، اس کی سطح پر اتنے بڑے بڑے پہاڑوں کا ابھر آنا ، اس کے سینے پر ایسے ایسے زبر دست دریاؤں کا جاری ہونا ، اس کی گود میں طرح طرح کے بے حد و حساب درختوں کا پھلنا ، اور پیہم انتہائی باقاعدگی کے ساتھ رات اور دن کے حیرت انگیز آثار کا طاری ہونا ، یہ سب چیزیں اس خدا کی قدرت پر گواہ ہیں جس نے انہیں پیدا کیا ہے ۔ ایسے قادر مطلق کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندگی عطا نہیں کر سکتا ، عقل ودانش کی نہیں ، حماقت و بلادت کی دلیل ہے ۔ ( ۳ ) زمین کی ساخت میں ، اس پر پہاڑوں کی پیدائش میں ، پہاڑوں سے دریاؤں کی روانی کا انتظام کرنے میں ، پھلوں کی ہر قسم دو دو طرح کے پھل پیدا کرنے میں ، اور رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات باقاعدگی کے ساتھ لانے میں جو بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں پائی جاتی ہیں وہ پکار پکار کر شہادت دے رہی ہیں کہ جس خدانے تخلیق کا یہ نقشہ بنایا ہے وہ کمال درجے کا حکیم ہے ۔ یہ ساری چیزیں خبر دیتی ہیں کہ یہ نہ تو کسی بے ارادہ طاقت کی کار فرمائی ہے اور نہ کسی کھلنڈرے کا کھلونا ۔ ان میں سے ہر ہر چیز کے اندر ایک حکیم کی حکمت اور انتہائی بالغ حکمت کام کرتی نظر آتی ہے ۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد صرف ایک نادان ہی ہو سکتا ہے جو یہ گمان کرے کہ زمین پر انسان کو پیدا کر کے اور اسے ایسی ہنگامہ آرائیوں کے مواقع دے کر وہ اس کو یونہی خاک میں گم کر دے گا ۔
عالم سفلی کے انواع واقسام اوپر کی آیت میں عالم علوی کا بیان تھا ، یہاں علم سفلی کا ذکر ہو رہا ہے ، زمین کو طول عرض میں پھیلا کر اللہ ہی نے بچھایا ہے ۔ اس میں مضبوط پہاڑ بھی اسی کے گاڑے ہوئے ہیں ، اس میں دریاؤں اور چشموں کو بھی اسی نے جاری کیا ہے ۔ تاکہ مختلف شکل وصورت ، مختلف رنگ ، مختلف ذائقوں کے پھل پھول کے درخت اس سے سیراب ہوں ۔ جوڑا جوڑا میوے اس نے پیدا کئے ، کھٹے میٹھے وغیرہ ۔ رات دن ایک دوسرے کے پے در پے برابر آتے جاتے رہتے ہیں ، ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے پس مکان سکان اور زمان سب میں تصرف اسی قادر مطلق کا ہے ۔ اللہ کی ان نشانیوں ، حکمتوں ، اور دلائل کو جو غور سے دیکھے وہ ہدایت یافتہ ہو سکتا ہے ۔ زمین کے ٹکڑے ملے جلے ہوئے ہیں ، پھر قدرت کو دیکھے کہ ایک ٹکڑے سے تو پیداوار ہو اور دوسرے سے کچھ نہ ہو ۔ ایک کی مٹی سرخ ، دوسرے کی سفید ، زرد ، وہ سیاہ ، یہ پتھریلی ، وہ نرم ، یہ میٹھی ، وہ شور ۔ ایک ریتلی ، ایک صاف ، غرض یہ بھی خالق کی قدرت کی نشانی ہے اور بتاتی ہے کہ فاعل ، خود مختار ، مالک الملک ، لا شریک ایک وہی اللہ خالق کل ہے ۔ نہ اس کے سوا کوئی معبود ، نہ پالنے والا ۔ زرع ونحیل کو اگر جنات پر عطف ڈالیں تو پیش سے مرفوع پڑھنا چاہئے اور اعناب پر عطف ڈالیں تو زیر سے مضاف الیہ مان کر مجرور پڑھنا چاہئے ۔ ائمہ کی جماعت کی دونوں قرأت یں ہیں ۔ صنوان کہتے ہیں ایک درخت جو کئی تنوں اور شاخوں والا ہو جیسے انار اور انجیر اور بعض کھجوریاں ۔ غیر صنوان جو اس طرح نہ ہو ایک ہی تنا ہو جیسے اور درخت ہوتے ہیں ۔ اسی سے انسان کے چچا کو صنوالاب کہتے ہیں حدیث میں بھی یہ آیا ہے ۔ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ انسان کا چچا مثل باپ کے ہوتا ہے ۔ برا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک جڑ یعنی ایک تنے میں کئی ایک شاخدار درخت کھجور ہوتے ہیں اور ایک تنے پر ایک ہی ہوتا ہے یہی صنوان اور غیر صنوان ہے یہی قول اور بزرگوں کا بھی ہے ۔ سب کے لئے پانی ایک ہی ہے یعنی بارش کا لیکن ہر مزے اور پھل میں کمی بیشی میں بے انتہا فرق ہے ، کوئی میٹھا ہے ، کوئی کھٹا ہے ۔ حدیث میں بھی یہ تفسیر ہے ملاحظہ ہو ترمذی شریف ۔ الغرض قمسوں اور جنسوں کا اختلاف ، شکل صورت کا اختلاف ، رنگ کا اختلاف ، بو کا اختلاف ، مزے کا اختلاف ، پتوں کا اختلاف ، تروتازگی کا اختلاف ، ایک بہت ہی میٹھا ، ایک سخت کڑوا ، ایک نہایت خوش ذائقہ ، ایک بیحد بد مزہ ، رنگ کسی کا زرد ، کسی کا سرخ ، کسی کا سفید ، کسی کا سیاہ ۔ اسی طرح تازگی اور پھل میں بھی اختلاف ، حالانکہ غذا کے اعتبار سے سب یکساں ہیں ۔ یہ قدرت کی نیرنگیاں ایک ہوشیار شخص کے لئے عبرت ہیں ۔ اور فاعل مختار اللہ کی قدرت کا بڑا زبردست پتہ دیتی ہیں کہ جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے ۔ عقل مندوں کے لئے یہ آیتیں اور یہ نشانیاں کافی وافی ہیں ۔