Surah

Information

Surah # 13 | Verses: 43 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 96 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
الَّذِيۡنَ يُوۡفُوۡنَ بِعَهۡدِ اللّٰهِ وَلَا يَنۡقُضُوۡنَ الۡمِيۡثَاقَۙ‏ ﴿20﴾
جو اللہ کے عہد ( و پیمان ) کو پورا کرتے ہیں اور قول و قرار کو توڑتے نہیں ۔
الذين يوفون بعهد الله و لا ينقضون الميثاق
Those who fulfill the covenant of Allah and do not break the contract,
Jo Allah kay ehad ( o-paymaan ) ko poora kertay hain aur qol-o-qarar ko tortay nahi.
۔ ( یعنی ) وہ لوگ جو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں ، اور معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے ۔
وہ جو اللہ کا عہد پورا کرتے ہیں ( ف٦۱ ) اور قول باندھ کر پھرتے نہیں
اور ان کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں ، اسے مضبوط باندھے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے ۔ 37
جو لوگ اﷲ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور قول و قرار کو نہیں توڑتے
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :37 اس سے مراد وہ ازلی عہد ہے جو اللہ تعالی نے ابتدائے آفرینش میں تمام انسانوں سے لیا تھا کہ وہ صرف اسی کی بندگی کریں گے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف ، حاشیہ نمبر ۱۳٤ و ۱۳۵ ) ۔ یہ عہد ہر انسان سے لیا گیا ہے ، ہر ایک کی فطرت میں مضمر ہے ، اور اسی وقت پختہ ہو جاتا ہے جب آدمی اللہ تعالی کی تخلیق سے وجود میں آتا ہے اور ربوبیت سے پرورش پاتا ہے ۔ خدا کے رزق سے پلنا ، اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے کام لینا اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں کو استعمال کرنا آپ سے آپ انسان کو خدا کے ساتھ ایک میثاق بندگی میں باندھ دیتا ہے جسے توڑنے کی جرأت کوئی ذی شعور اور نمک حلال آدمی نہیں کر سکتا ، الا یہ کہ نادانستہ کبھی احیانا اس سے کوئی لغزش ہو جائے ۔
منافق کا نفسیاتی تجزیہ ان بزرگوں کی نیک صفتیں بیان ہو رہی ہیں اور ان کے بھلے انجام کی خبر دی جا رہی ہے جو آخرت میں جنت کے مالک بنیں گے اور یہاں بھی جو نیک انجام ہیں ۔ وہ منافقوں کی طرح نہیں ہوتے کہ عہد شکنی ، غداری اور بےوفائی کریں ۔ یہ منافق کی خصلت ہے کہ وعدہ کر کے توڑ دیں ۔ جھگڑوں میں گالیاں بکیں ، باتوں میں جھوٹ بولیں ، امانت میں خیانت کریں ۔ صلہ رحمی کا ، رشتہ داروں سے سلوک کرنے کا ، فقیر محتاج کو دینے کا ، بھلی باتوں کے نباہ نے کا ، جو حکم الہٰی ہے یہ اس کے عامل ہیں ۔ رب کا خوف دل میں رکھتے ہوئے فرمان الہٰی سمجھ کر نیکیاں کرتے ہیں ، بدیاں چھوڑتے ہیں ۔ آخرت کے حساب سے ڈرتے ہیں ، اسی لئے برائیوں سے بچتے ہیں ، نیکیوں کی رغبت کرتے ہیں ۔ اعتدال کا راستہ نہیں چھوڑتے ۔ ہر حال میں فرمان الہٰی کا لحاظ رکھتے ہیں ۔ گو نفس حرام کاموں اور اللہ کی نافرمانیوں کی طرف جانا چاہے لیکن یہ اسے روک لیتے ہیں اور ثواب آخرت یاد دلا کر مرضی مولا رضائے رب کے طالب ہو کر نافرمانیوں سے باز رہتے ہیں ۔ نماز کی پوری حفاظت کرتے ہیں ۔ رکوع ، سجدہ ، قعدہ ، خشوع خضوع شرعی طور بجا لاتے ہیں ۔ جنہیں دینا اللہ نے فرمایا ہے انہیں اللہ کی دی ہوئی چیزیں دیتے رہتے ہیں ۔ فقرا ، محتاج ، مساکین اپنے ہوں یا غیر ہوں ۔ ان کی برکتوں سے محروم نہیں رہتے ۔ چھپے کھلے ، دن رات ، وقت بےوقت ، برابر راہ للہ خرچ کرتے رہتے ہیں ۔ قباحت کو احسان سے ، برائی کو بھلائی سے ، دشمنی کو دوستی سے ٹال دیتے ہیں ۔ دوسرا سرکشی کرے یہ نرمی کرتے ہیں ۔ دوسرا سر چڑھے یہ سر جھکا دیتے ہے ۔ دوسروں کے ظلم سہ لیتے ہیں اور خود نیک سلوک کرتے ہیں ۔ تعلیم قرآن ہے آیت ( اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ 96؀ ) 23- المؤمنون:96 ) بہت اچھے طریقے سے ٹال دو تو دشمن بھی گاڑھا دوست بن جائے گا ۔ صبر کرنے والے ، صاحب نصیب ہی اس مرتبے کو پاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لئے اچھا انجام ہے ۔ بروج و بالا خانے وہ اچھا انجام اور بہترین گھر جنت ہے جو ہمیشگی والی اور پائیدار ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جنت کے ایک محل کا نام عدن ہے جس میں بروج اور بالا خانے ہیں جس کے پانچ ہزار دروازے ہیں ، ہر دروازے پر پانچ ہزار فرشتے ہیں ۔ وہ محل مخصوص ہے نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے لئے ۔ ضحاک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ جنت کا شہر ہے جس میں انبیا ہوں گے شہداء ہوں گے اور ہدایت کے ائمہ ہوں گے ۔ ان کے آس پاس اور لوگ ہوں گے اور ان کے ارد گرد اور جنتیں ہیں وہاں یہ اپنے اور چہیتوں کو بھی اپنے ساتھ دیکھیں گے ۔ ان کے بڑے باپ دادے ، ان کے چھوٹے بیٹے پوتے ، ان کے جوڑے جو بھی ایماندار اور نیکو کار تھے ان کے پاس ہوں گے اور راحتوں سے مسرور ہوں گے جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی ۔ یہاں تک کہ اگر کسی کے عمل اس درجہ بلند تک پہنچنے کے قابل نہ بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے درجے بڑھا دے گا جیسے آیت ( وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21؀ ) 52- الطور:21 ) جن ایمانداروں کی اولاد ان کی پیروی ایمان میں کرتی ہے ہم انہیں بھی ان کے ساتھ ملا دیتے ہیں ان کے پاس مبارک باد اور سلام کے لئے ہر ہر دروازے سے ہر وقت فرشتے آتے رہتے ہیں یہ بھی اللہ کا انعام ہے تاکہ یہ ہر وقت خوش رہیں اور بشارتیں سنتے رہیں ۔ نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں کا پڑوس ، فرشتوں کا سلام اور جنت الفردوس مقام ۔ مسند کی حدیث میں ہے جانتے بھی ہو کہ سب سے پہلے جنت میں کون جائیں گے ؟ لوگوں نے کہا اللہ کو علم ہے اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا سب سے پہلے جنتی مساکین مہاجرین ہیں جو دنیا کی لذتوں سے دور تھے جو تکلیفوں میں مبتلا تھے جن کی امنگیں دلوں میں ہی رہ گئیں اور قضا آ گئی ۔ رحمت کے فرشتوں کو حکم الہٰی ہو گا کہ جاؤ انہیں مبارک باد دو فرشتے کہیں گے اللہ ہم تیرے آسمانوں کے رہنے والے تیری بہترین مخلوق ہیں کیا تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم جا کر انہیں سلام کریں اور انہیں مبارک باد پیش کریں جناب باری جواب دے گا یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے صرف میری عبادت کی میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا دنیوی راحتوں سے محروم رہے مصیبتوں میں مبتلا رہے کوئی مراد پوری ہونے نہ پائی اور یہ صابر و شاکر رہے اب تو فرشتے جلدی جلدی بصد شوق ان کی طرف دوڑیں گے ادھر ادھر کے ہر ایک دروازے سے گھسیں گے اور سلام کر کے مبارک پیش کریں گے طبرانی میں ہے کہ سب سے پہلے جنت میں جانے والے تین قسم کے لوگ ہیں فقراء مہاجرین جو مصیبتوں میں مبتلا رہے ، جب انہیں حکم ملا بجا لاتے رہے ، انہیں ضرورتیں بادشاہوں سے ہوتی تھیں لیکن مرتے دم تک پوری نہ ہوئیں ۔ جنت کو بروز قیامت اللہ تعالیٰ اپنے سامنے بلائے گا وہ بنی سنوری اپنی تمام نعمتوں اور تازگیوں کے ساتھ حاضر ہو گی اس وقت ندا ہوگی کہ میرے وہ بندے جو میری راہ میں جہاد کرتے تھے ، میری راہ میں ستائے جاتے تھے ، میری راہ میں لڑتے بھڑتے تھے وہ کہاں ہیں ؟ آؤ بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں چلے جاؤ ۔ اس وقت فرشتے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے اور عرض کریں گے کہ پروردگار ہم تو صبح شام تیری تسبیح وتقدیس میں لگے رہے یہ کون ہیں جنہیں ہم پر بھی تو نے فضیلت عطا فرمائی ؟ اللہ رب العزت فرمائے گا یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے میری راہ میں جہاد کیا میری راہ میں تکلیفیں برداشت کیں ۔ اب تو فرشتے جلدی کر کے ان کے پاس ہر ایک دروازے سے جا پہنچیں گے سلام کریں گے اور مبارک بادیاں پیش کریں گے کہ تمہیں تمہارے صبر کا بدلہ کتنا اچھا ملا ۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مومن جنت میں اپنے تخت پر با آرام نہایت شان سے تکیہ لگائے بیٹھا ہوا ہو گا خادموں کی قطاریں ادھر ادھر کھڑی ہوں گی جو دروازے والے خادم سے فرشتہ اجازت مانگے گا وہ یکے بعد دیگرے پوچھے گا یہاں تک کہ مومن سے پوچھا جائے گا ۔ مومن اجازت دے گا کہ اسے آنے دو یونہی ایک دوسرے کو پیغام پہنچائے گا اور آخری خادم فرشتے کو اجازت دے گا اور دروازہ کھول دے گا ۔ وہ آئے گا اور سلام کرے گا اور چلا جائے گا ۔ ایک روایت میں ہے کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال کے آخر پر شہداء کی قبروں پر آتے اور کہتے آیت ( سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ 24؀ۭ ) 13- الرعد:24 ) اور اسی طرح ابو بکر عمر عثمان بھی رضی اللہ عنہم ( اس کی سند ٹھیک نہیں )