اَفَمَنۡ يَّعۡلَمُ اَنَّمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ الۡحَـقُّ كَمَنۡ هُوَ اَعۡمٰىؕ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِۙ ﴿19﴾
کیا وہ ایک شخص جو یہ علم رکھتا ہو کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وہ حق ہے ، اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہوں ۔
افمن يعلم انما انزل اليك من ربك الحق كمن هو اعمى انما يتذكر اولوا الالباب
Then is he who knows that what has been revealed to you from your Lord is the truth like one who is blind? They will only be reminded who are people of understanding -
Kiya woh aik shaks jo yeh ilm rakhta ho kay aap ki taraf aap kay rab ki janib say jo utara gaya hai woh haq hai uss shaks jaisa ho sakta hai jo andha ho naseehat to woh qabool kertay hain jo aqal mand hon.
جو شخص یہ یقین رکھتا ہو کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے جو کچھ نازل ہوا ہے ، برحق ہے ، بھلا وہ اس جیسا کیسے ہوسکتا ہے جو بالکل اندھا ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل و ہوش رکھتے ہوں ۔
تو کیا وہ جانتا ہے جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا حق ہے ( ف۵۹ ) وہ اس جیسا ہوگا جو اندھا ہے ( ف٦۰ ) نصیحت وہی مانتے ہیں جنہیں عقل ہے ،
بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے ، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے ، دونوں یکساں ہو جائیں؟ 35 نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں ۔ 36
بھلا وہ شخص جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے حق ہے ، اس شخص کے مانند ہو سکتا ہے جو اندھا ہے ، بات یہی ہے کہ نصیحت عقل مند ہی قبول کرتے ہیں
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :35
یعنی نہ دنیا میں ان دونوں کا رویہ یکساں ہوسکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام یکساں ۔
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :36
یعنی خدا کی بھیجی ہوئی اس تعلیم اور خدا کے رسول کی اس دعوت کو جو لوگ قبول کیا کرتے ہیں وہ عقل کے اندھے نہیں بلکہ ہوش گوش رکھنے والے بیدار مغز لوگ ہی ہوتے ہیں ۔ اور پھر دنیا میں ان کی سیرت و کردار کا وہ رنگ اور آخرت میں ان کا وہ انجام ہوتا ہے جو بعد کی آیتوں میں بیان ہوا ہے ۔
ایک موازنہ
ارشاد ہوتا ہے کہ ایک وہ شخص جو اللہ کے کلام کو جو آپ کی جانب اترا سراسر حق مانا ہو ، سب پر ایمان رکھتا ہو ، ایک کو دوسرے کی تصدیق کرنے والا اور موافقت کرنے والا جانا ہو ، سب خبروں کو سچ جانتا ہو ، سب حکموں کو مانتا ہو ، سب برائیوں کو جانتا ہو ، آپ کی سچائی کا قائل ہو ۔ اور دوسرا وہ شخص جو نابینا ہو ، بھلائی کو سمجھتا ہی نہیں اور اگر سمجھ بھی لے تو مانتا نہ ہو ، نہ سچا جانتا ہو ، یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔ جیسے فرمان ہے کہ دوزخی اور جنتی برابر نہیں ۔ جنتی خوش نصیب ہیں ، یہی فرمان یہاں ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں ۔ باب یہ ہے کہ بھلی سمجھ سمجھ داروں کی ہی ہوتی ہے ۔