Surah

Information

Surah # 13 | Verses: 43 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 96 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لِلَّذِيۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّهِمُ الۡحُسۡنٰىؔ‌ؕ وَالَّذِيۡنَ لَمۡ يَسۡتَجِيۡبُوۡا لَهٗ لَوۡ اَنَّ لَهُمۡ مَّا فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا وَّمِثۡلَهٗ مَعَهٗ لَافۡتَدَوۡا بِهٖؕ اُولٰۤٮِٕكَ لَهُمۡ سُوۡۤءُ الۡحِسَابِ ۙ وَمَاۡوٰٮهُمۡ جَهَـنَّمُ‌ؕ وَبِئۡسَ الۡمِهَادُ‏ ﴿18﴾
جن لوگوں نے اپنے رب کے حکم کی بجاآوری کی ان کے لئے بھلائی ہے اور جن لوگوں نے اس کی حکم کی برداری نہ کی اگر ان کے لئے زمین میں جو کچھ ہے سب کچھ ہو اور اسی کے ساتھ ویسا ہی اور بھی ہو تو وہ سب کچھ اپنے بدلے میں دے دیں ۔ یہی ہیں جن کے لئے برا حساب ہے اور جن کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے ۔
للذين استجابوا لربهم الحسنى و الذين لم يستجيبوا له لو ان لهم ما في الارض جميعا و مثله معه لافتدوا به اولىك لهم سوء الحساب و ماوىهم جهنم و بس المهاد
For those who have responded to their Lord is the best [reward], but those who did not respond to Him - if they had all that is in the earth entirely and the like of it with it, they would [attempt to] ransom themselves thereby. Those will have the worst account, and their refuge is Hell, and wretched is the resting place.
Jin logon ney apney rab kay hukum ki baja aawri ki unn kay liye bhalee hai aur jin logon ney uss ki hukum bardari na ki agar unn kay liye zamin mein jo kuch hai sab kuch ho aur issi kay sath wisa hi aur bhi ho to woh sab kuch apney badlay mein dey den. Yehi hain jin kay liye bura hisab hai aur jin ka thikana jahannum hai jo boht buri jagah hai.
بھلائی انہی لوگوں کے حصے میں ہے جنہوں نے اپنے رب کا کہنا مانا ہے اور جنہوں نے اس کا کہنا نہیں مانا ، اگر ان کے پاس دنیا بھر کی ساری چیزیں بھی ہوں گی ، بلکہ اتنی ہی اور بھی ، تو وہ ( قیامت کے دن ) اپنی جان بچانے کے لیے وہ سب کچھ دینے کو تیار ہوجائیں گے ۔ ان لوگوں کے حصے میں بری طرح کا حساب ہے ، اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے ۔
جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا انھیں کے لیے بھلائی ہے ( ف۵٦ ) اور جنہوں نے اس کا حکم نہ مانا ( ف۵۷ ) اگر زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اور اس جیسا اور ان کی ملِک میں ہوتا تو اپنی جان چھڑانے کو دے دیتے یہی ہیں جن کا برُا حساب ہوگا ( ف۵۸ ) اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے ، اور کیا ہی برا بچھونا ،
جن لوگوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کر لی ان کے لیے بھلائی ہے ، اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیا وہ اگر زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوں اور اتنی ہی اور فراہم کرلیں تو وہ خدا کی پکڑ سے بچنے کے لیے اس سب کو فدیہ میں دے ڈالنے کے لیے تیار ہو جائیں گے ۔ 33 یہ وہ لوگ ہیں جن سے بری طرح حساب لیا جائے گا 34 اور ان کا ٹھکانا جہنّم ہے ، بہت ہی برا ٹھکانہ ۔ ؏ ۲
ایسے لوگوں کے لئے جنہوں نے اپنے رب کا حکم قبول کیا بھلائی ہے ، اور جنہوں نے اس کا حکم قبول نہیں کیا اگر ان کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہو سو وہ اسے ( عذاب سے نجات کے لئے ) فدیہ دے ڈالیں ( تب بھی ) انہی لوگوں کا حساب برا ہوگا ، اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے ، اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :33 یعنی اس وقت ان پر ایسی مصیبت پڑے گی کہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے دنیا و مافیہا کی دولت دے ڈالنے میں بھی تامل نہ کریں گے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :34 بری حساب فہمی یا سخت حساب فہمی سے مطلب یہ ہے کہ آدمی کی کسی خطا اور کسی لغزش کو معاف نہ کیا جائے ، کوئی قصور جو اس نے کیا ہو مؤاخذے کے بغیر نہ چھوڑا جائے ۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالی اس طرح کا محاسبہ اپنے ان بندوں سے کرے گا جو اس کے باغی بن کر دنیا میں رہے ہیں ۔ بخلاف اس کے جنہوں نے اپنے خدا سے وفاداری کی ہے اور اس کے مطیع فرمان بن کر رہے ہیں ان سے حساب یسیر یعنی ہلکا حساب لیا جائے گا ، ان کی خدمات کے مقابلے میں ان کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا اور ان کے مجموعی طرز عمل کی بھلائی کو ملحوظ رکھ کر ان کی بہت سی کوتاہیوں سے صرف نظر کر لیا جائے گا ۔ اس کی مزید توضیح اس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ابوداؤد میں مروی ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے نزدیک کتاب اللہ کی سب سے زیادہ خوفناک آیت وہ ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ من یعمل سوء یجز بہ ، جو شخص کوئی برائی کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا ، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ ، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا کے مطیع فرمان بندے کو دنیا میں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے ، حتی کہ اگر کوئی کانٹا بھی اس کو چبھتا ہے ، تو اللہ اسے اس کے کسی نہ کسی قصور کی سزا قرار دے کر دنیا ہی میں اس کا حساب صاف کر دیتا ہے؟ آخرت میں تو جس سے بھی محاسبہ ہوگا وہ سزا پاکر رہے گا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا پھر اللہ تعالی کے اس ارشاد کا مطلب کیا ہے کہ فاما من اوتی کتابہ بیمیینہ فسوف یحاسب حسابا یسیرا جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا ، حضور نے جواب دیا ، اس سے مراد ہے پیشی یعنی اس کی بھلائیوں کے ساتھ اس کی برائیاں بھی اللہ تعالی کے سامنے ضرور پیش ہوں گی ، مگر جس سے باز پرس ہوئی وہ تو بس سمجھ لو کہ مارا گیا ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص اپنے وفادار ملازم کی چھوٹی چھوٹی خطاؤں پر کبھی سخت گرفت نہیں کرتا بلکہ اس کے بڑے بڑے قصوروں کو بھی اس کی خدمات کے پیش نظر معاف کر دیتا ہے ۔ لیکن اگر کسی ملازم کی غداری وخیانت ثابت ہوجائے تو اس کی کوئی خدمت قابل لحاظ نہیں رہتی اور اس کے چھوٹے بڑے سب قصور شمار میں آجاتے ہیں ۔
ذوالقرنین نیکوں بدوں کا انجام بیان ہو رہا ہے ۔ اللہ رسول کو ماننے والے ، احکام کے پابند ، خبروں پر یقین رکھنے والے تو نیک بدلہ پائیں گے ۔ ذوالقرنین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ظلم کرنے والے کو ہم بھی سزا دیں گے اور اللہ کے ہاں بھی سخت عذاب دیا جائے گا اور ایماندار اور نیک اعمال لوگ بہترین بدلہ پائیں گے اور ہم بھی ان سے نرمی کی باتیں کریں گے ۔ اور آیت میں فرمان ربی ہے نیکوں کے لئے نیک بدلہ ہے اور زیادتی بھی ۔ پھر فرماتا ہے جو لوگ اللہ کی باتیں نہیں مانتے یہ قیامت کے دن ایسے عذابوں کو دیکھیں گے کہ اگر ان کے پاس ساری زمین بھر کر سونا ہو تو وہ اپنے فدیے میں دینے کے لئے تیار ہو جائیں بلکہ اس جتنا اور بھی ۔ مگر قیامت کے روز نہ فدیہ ہوگا ، نہ بدلہ ، نہ عوض ، نہ معاوضہ ۔ ان سے سخت باز پرس ہو گی ایک ایک چھلکے اور ایک ایک دانے کا حساب لیا جائے گا حساب میں پورے نہ اتریں کم تو عذاب ہو گا ۔ جہنم ان کا ٹھکانا ہو گا جو بدترین جگہ ہو گی ۔