Surah

Information

Surah # 13 | Verses: 43 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 96 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتۡ اَوۡدِيَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحۡتَمَلَ السَّيۡلُ زَبَدًا رَّابِيًا‌ ؕ وَمِمَّا يُوۡقِدُوۡنَ عَلَيۡهِ فِى النَّارِ ابۡتِغَآءَ حِلۡيَةٍ اَوۡ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثۡلُهٗ‌ ؕ كَذٰلِكَ يَضۡرِبُ اللّٰهُ الۡحَـقَّ وَالۡبَاطِلَ ؕ  فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذۡهَبُ جُفَآءً‌‌ ۚ وَاَمَّا مَا يَنۡفَعُ النَّاسَ فَيَمۡكُثُ فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ كَذٰلِكَ يَضۡرِبُ اللّٰهُ الۡاَمۡثَالَؕ‏ ﴿17﴾
اسی نے آسمان سے پانی برسایا پھر اپنی اپنی وسعت کے مطابق نالے بہہ نکلے ۔ پھر پانی کے ریلے نے اوپر چڑھے جھاگ کو اٹھا لیا اور اس چیز میں بھی جس کو آگ میں ڈال کر تپاتے ہیں زیور یا سازو سامان کے لئے اسی طرح کے جھاگ ہیں اسی طرح اللہ تعالٰی حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے اب جھاگ تو نا کارہ ہو کر چلا جا تا ہے لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے ۔ وہ زمین میں ٹھہر رہتی ہے اللہ تعالٰی اسی طرح مثالیں بیان فرماتا ہے ۔
انزل من السماء ماء فسالت اودية بقدرها فاحتمل السيل زبدا رابيا و مما يوقدون عليه في النار ابتغاء حلية او متاع زبد مثله كذلك يضرب الله الحق و الباطل فاما الزبد فيذهب جفاء و اما ما ينفع الناس فيمكث في الارض كذلك يضرب الله الامثال
He sends down from the sky, rain, and valleys flow according to their capacity, and the torrent carries a rising foam. And from that [ore] which they heat in the fire, desiring adornments and utensils, is a foam like it. Thus Allah presents [the example of] truth and falsehood. As for the foam, it vanishes, [being] cast off; but as for that which benefits the people, it remains on the earth. Thus does Allah present examples.
Ussi ney aasman say pani barsaya phir apni apni wusat kay mutabiq nalay beh niklay. Phir pani kay railay ney upper charhay jhaag ko utha liya aur uss cheez mein bhi jiss ko aag mein daal ker tapatay hain zewar ya saaz-o-saman kay liye issi tarah jay jhaag hain issi tarah Allah Taalaa haq-o-batil ki misal biyan farmata hai abb jhaag to nakara hoker chala jata hai lekin jo logon ko nafa denay wali cheez hai woh zamin mein thehri rehti hai Allah Taalaa issi tarah misalen biyan farmata hai.
اسی نے آسمان سے پانی برسایا جس سے ندی نالے اپنی اپنی بساط کے مطابق بہہ پڑے ، پھر پانی کے ریلے نے پھولے ہوئے جھاگ کو اوپر اٹھا لیا ، اور اسی قسم کا جھاگ اس وقت بھی اٹھتا ہے جب لوگ زیور یا برتن بنانے کے لیے دھاتوں کو آگ پر تپاتے ہیں ۔ اللہ حق اور باطل کی مثال اسی طرح بیان کر رہا ہے کہ ( دونوں قسم کا ) جو جھاگ ہوتا ہے وہ تو باہر گر کر ضائع ہوجاتا ہے ، لیکن وہ چیز جو لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے ۔ ( ٢٠ ) اسی قسم کی تمثیلیں ہیں جو اللہ بیان کرتا ہے ۔
اس نے آسمان سے پانی اتارا تو نالے اپنے اپنے لائق بہہ نکلے تو پانی کی رو اس پر ابھرے ہوئے جھاگ اٹھا لائی ، اور جس پر آگ دہکاتے ہیں ( ف۵۳ ) گہنا یا اور اسباب ( ف۵٤ ) بنانے کو اس سے بھی ویسے ہی جھاگ اٹھتے ہیں اللہ بتاتا ہے کہ حق و باطل کی یہی مثال ہے ، تو جھاگ تو پھک ( جل ) کر دور ہوجاتا ہے ، اور وہ جو لوگوں کے کام آئے زمین میں رہتا ہے ( ف۵۵ ) اللہ یوں ہی مثالیں بیان فرماتا ہے ،
اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے ۔ 31 اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں ۔ 32 اِسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے ۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے ۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے ۔
اس نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا تو وادیاں اپنی ( اپنی ) گنجائش کے مطابق بہہ نکلیں ، پھر سیلاب کی رَو نے ابھرا ہوا جھاگ اٹھا لیا ، اور جن چیزوں کو آگ میں تپاتے ہیں ، زیور یا دوسرا سامان بنانے کے لئے اس پر بھی ویسا ہی جھاگ اٹھتا ہے ، اس طرح اﷲ حق اور باطل کی مثالیں بیان فرماتا ہے ، سو جھاگ تو ( پانی والا ہو یا آگ والا سب ) بے کار ہو کر رہ جاتا ہے اور البتہ جو کچھ لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے ، اﷲ اس طرح مثالیں بیان فرماتا ہے
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :31 اس تمثیل میں اس علم کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعے سے نازل کیا گیا تھا ، آسمانی بارش سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ اور ایمان لانے والے سلیم الفطرت لوگوں کو ان ندی نالوں کے مانند ٹھیرایا گیا ہے جو اپنے اپنے ظرف کے مطابق باران رحمت سے بھرپور ہو کر رواں دواں ہو جاتے ہیں ۔ ۔ اور اس ہنگامہ و شورش کو جو تحریک اسلامی کے خلاف منکرین و مخالفین نے برپا کر رکھی تھی اس جھاگ اور اس خس و خاشاک سے تشبیہ دی گئی ہے جو ہمیشہ سیلاب کے اٹھتے ہی سطح پر اپنی اچھل کود دکھانی شروع کر دیتا ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :32 یعنی بھٹی جس کام کے لیے گرم کی جاتی ہے وہ تو ہے خالص دھات کو تپا کر کارآمد بنانا ۔ مگر یہ کام جب بھی کیا جاتا ہے میل کچیل ضرور ابھر آتا ہے اور اس شان سے چرخ کھاتا ہے کہ کچھ دیر تک سطح پر بس وہی وہ نظر آتا رہتا ہے ۔
باطل بےثبات ہے حق وباطل کے فرق ، حق کی پائیداری اور باطل کی بےثباتی کی یہ دو مثالیں بیان فرمائیں ۔ ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ بادلوں سے مینہ برساتا ہے ، چشموں دریاؤں نالیوں وغیرہ کے ذریعے برسات کا پانی بہنے لگتا ہے ۔ کسی میں کم ، کسی میں زیادہ ، کوئی چھوٹی ، کوئی بڑی ۔ یہ دلوں کی مثال ہے اور ان کے تفاوت کی ۔ کوئی آسمانی علم بہت زیادہ حاصل کرتا ہے کوئی کم ۔ پھر پانی کی اس رو پر جھاگ تیرنے لگتا ہے ۔ ایک مثال تو یہ ہوئی ۔ دوسری مثال سونے چاندی لوہے تانبے کی ہے کہ اسے آگ میں تپایا جاتا ہے سونے چاندی زیور کے لئے لوہا تانبا برتن بھانڈے وغیرہ کے لئے ان میں بھی جھاگ ہوتے ہیں تو جیسے ان دونوں چیزوں کے جھاگ مٹ جاتے ہیں ، اسی طرح باطل جو کبھی حق پر چھا جاتا ہے ، آخر چھٹ جاتا ہے اور حق نتھر آتا ہے جیسے پانی نتھر کر صاف ہو کر رہ جاتا ہے اور جیسے چاندی سونا وغیرہ تپا کر کھوٹ سے الگ کر لئے جاتے ہیں ۔ اب سونے چاندی پانی وغیرہ سے تو دنیا نفع اٹھاتی رہتی ہے اور ان پر جو کھوٹ اور جھاگ آ گیا تھا ، اس کا نام ونشان بھی نہیں رہتا ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے سمجھانے کے لئے کتنی صاف صاف مثالیں بیان فرما رہا ہے ۔ کہ سوچیں سمجھیں ۔ جیسے فرمایا ہے کہ ہم یہ مثالیں لوگوں کے سامنے بیان فرماتے ہیں لیکن اسے علماء خوب سمجھتے ہیں ۔ بعض سلف کی سمجھ میں جو کوئی مثال نہیں آتی تھی تو وہ رونے لگتے تھے کیونکہ انہیں نہ سمجھنا علم سے خالی لوگوں کا وصف ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلی مثال میں بیان ہے ان لوگوں کا جن کے دل یقین کے ساتھ علم الہٰی کے حامل ہوتے ہیں اور بعض دل وہ بھی ہیں ، جن میں رشک باقی رہ جاتا ہے پس شک کے ساتھ کا علم بےسود ہوتا ہے ۔ یقین پورا فائدہ دیتا ہے ۔ ابد سے مراد شک ہے جو کمتر چیز ہے ، یقین کار آمد چیز ہے ، جو باقی رہنے والی ہے ۔ جیسے زیور جو آگ میں تپایا جاتا ہے تو کھوٹ جل جاتا ہے اور کھری چیز رہ جاتی ہے ، اسی طرح اللہ کے ہاں یقین مقبول ہے شک مردود ہے ۔ پس جس طرح پانی رہ گیا اور پینے وغیرہ کا کام آیا اور جس طرح سونا چاندی اصلی رہ گیا اور اس کے سازو سامان بنے ، اسی طرح نیک اور خالص اعمال عامل کو نفع دیتے ہیں اور باقی رہتے ہیں ۔ ہدایت وحق پر جو عامل رہے ، وہ نفع پاتا ہے جیسے لوہے کی چھری تلوار بغیر تپائے بن نہیں سکتی ۔ اسی طرح باطل ، شک اور ریاکاری والے اعمال اللہ کے ہاں کار آمد نہیں ہو سکتے ۔ قیامت کے دن باطل ضائع ہو جائے گا ۔ اور اہل حق کو حق نفع دے گا ۔ سورہ بقرہ کے شروع میں منافقوں کی دو مثالیں اللہ رب العزت نے بیان فرمائیں ۔ ایک پانی کی ایک آگ کی ۔ سورہ نور میں کافروں کی دو مثالیں بیان فرمائیں ۔ ایک سراب یعنی ریت کی دوسری سمندر کی تہ کے اندھیروں کی ۔ ریت کا میدان موسم گرما میں دور سے بالکل لہریں لیتا ہوا دریا کا پانی معلوم ہوتا ہے ۔ چنانچہ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن یہودیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا مانگتے ہو ؟ کہیں گے پیاسے ہو رہے ہیں ، پانی چاہئے تو ان سے کہا جائے گا کہ پھر جاتے کیوں نہیں ہو؟ چنانچہ جہنم انہیں ایسی نظر آئے گی جیسے دنیا میں ریتلے میدان ۔ دوسری آیت میں فرمایا آیت ( او کظلمات فی البحر لجی ) الخ بخری ومسلم میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس ہدایت وعلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی ۔ زمین کے ایک حصہ نے تو پانی کو قبول کیا ، گھاس چارہ بکثرت آ گیا ۔ بعض زمین جاذب تھی ، اس نے پانی کو روک لیا پس اللہ نے اس سے بھی لوگوں کو نفع پہنچایا ۔ پانی ان کے پینے کے ، پلانے کے ، کھیت کے کام آیا اور جو ٹکڑا زمین کا سنگلاخ اور سخت تھا نہ اس میں پانی ٹھیرا نہ وہاں کچھ بیداوار ہوئی ۔ پس یہ اس کی مثال ہے جس نے دین میں سمجھ حاصل کی اور میری بعثت سے اللہ نے اسے فائدہ پہنچایا اس نے خود علم سیکھا دوسروں کو سکھایا اور مثال ہے اس کی جس نے اس کے لئے سر بھی نہ اٹھایا اور نہ اللہ کی وہ ہدایت قبول کی جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں ۔ پس وہ سنگلاخ زمین کی مثل ہے ایک اور حدیث میں ہے میری اور تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی جب آگ نے اپنے آس پاس کی جیزیں روشن کر دیں تو پتنگے اور پروانے وغیرہ کیڑے اس میں گر گر کر جان دینے لگے وہ انہیں ہر چند روکتا ہے لیکن بس پھر بھی وہ برابر گر رہے ہیں بالکل یہی مثال میری اور تمہاری ہے کہ میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تمہیں روکتا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ آگ سے پرے ہٹو لیکن تم میری نہیں سنتے ، نہیں مانتے ، مجھ سے چھوٹ چھوٹ کر آگ میں گرے چلے جاتے ہو ۔ پس حدیث میں بھی پانی اور آگ کی دونوں مثالیں آ چکی ہیں ۔