Surah

Information

Surah # 13 | Verses: 43 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 96 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
قُلۡ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ قُلِ اللّٰهُ‌ؕ قُلۡ اَفَاتَّخَذۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءَ لَا يَمۡلِكُوۡنَ لِاَنۡفُسِهِمۡ نَفۡعًا وَّلَا ضَرًّا‌ؕ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الۡاَعۡمٰى وَالۡبَصِيۡرُ ۙ اَمۡ هَلۡ تَسۡتَوِى الظُّلُمٰتُ وَالنُّوۡرُ ۚ اَمۡ جَعَلُوۡا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوۡا كَخَلۡقِهٖ فَتَشَابَهَ الۡخَـلۡقُ عَلَيۡهِمۡ‌ؕ قُلِ اللّٰهُ خَالِـقُ كُلِّ شَىۡءٍ وَّهُوَ الۡوَاحِدُ الۡقَهَّارُ‏ ﴿16﴾
آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ کہہ دیجئے! اللہ کہہ دیجئے! کیا تم پھر بھی اس کے سوا اوروں کو حمایتی بنا رہے ہو جو خود اپنی جان کے بھی بھلے برے کا اختیار نہیں رکھتے کہہ دیجئے کہ کیااندھا اور بینا برابر ہو سکتا ہے؟ یا کیا اندھیریا ں اور روشنی برابر ہوسکتی ہے کیا جنہیں یہ اللہ کا شریک ٹھرا رہے ہیں انہوں نے بھی اللہ کی طرح مخلوق پیدا کی ہے کہ ان کی نظر میں پیدائش مشتبہ ہوگئی ہو ، کہہ دیجئے کہ صرف اللہ ہی تمام چیزوں کا خالق ہے وہ اکیلا ہے اور زبردست غالب ہے ۔
قل من رب السموت و الارض قل الله قل افاتخذتم من دونه اولياء لا يملكون لانفسهم نفعا و لا ضرا قل هل يستوي الاعمى و البصير ام هل تستوي الظلمت و النور ام جعلوا لله شركاء خلقوا كخلقه فتشابه الخلق عليهم قل الله خالق كل شيء و هو الواحد القهار
Say, "Who is Lord of the heavens and earth?" Say, " Allah ." Say, "Have you then taken besides Him allies not possessing [even] for themselves any benefit or any harm?" Say, "Is the blind equivalent to the seeing? Or is darkness equivalent to light? Or have they attributed to Allah partners who created like His creation so that the creation [of each] seemed similar to them?" Say, " Allah is the Creator of all things, and He is the One, the Prevailing."
Aap poochiye kay asmanon aur zamin ka perwerdigar kaun hai? Keh dijiye! Allah . Keh dijiye! Kiya tum phir bhi iss kay siwa auron ko himayati bana rahey ho jo khud apni jaan kay bhi bhalay buray ka ikhtiyar nahi rakhtay. Keh dijiye kay kiya andha aur beena barabar hosakta hai? Ya kiya andheriyan aur roshni barabar hosakti hai. Kiya jinhen yeh Allah kay shareek thehra rahey hain unhon ney bhi Allah ki tarah makhlooq peda ki hai kay inn ki nazar mein pedaeesh mushtaba hogaee ho keh dijiye kay sirf Allah hi tamam cheezon ka khaliq hai who akela hai aur zabardast ghalib hai.
۔ ( اے پیغمبر ! ان کافروں سے ) کہو کہ : وہ کون ہے جو آسمانوں اور زمین کی پرورش کرتا ہے؟ کہو کہ : وہ اللہ ہے ! کہو کہ : کیا پھر بھی تم نے اس کو چھوڑ کر ایسے کارساز بنا لیے ہیں جنہیں خود اپنے آپ کو بھی نہ کوئی فائدہ پہنچانے کی قدرت حاصل ہے نہ نقصان پہنچانے کی ؟ کہو کہ : کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوسکتا ہے؟ یا کیا اندھیریاں اور روشنی ایک جیسی ہوسکتی ہیں؟ یا ان لوگوں نے اللہ کے ایسے شریک مانے ہوئے ہیں جنہوں نے کوئی چیز اسی طرح پیدا کی ہو جیسے اللہ پیدا کرتا ہے ، ( ١٩ ) اور اس وجہ سے ان کو دونوں کی تخلیق ایک جیسی معلوم ہورہی ہو؟ ( اگر کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا ہے تو اس سے ) کہہ دو کہ : صرف اللہ ہر چیز کا خالق ہے ، اور وہ تنہا ہی ایسا ہے کہ اس کا اقتدار سب پر حاوی ہے ۔
تم فرماؤ کون رب ہے آسمانوں اور زمین کا ، تم خود ہی فرماؤ اللہ ( ف٤٦ ) تم فرماؤ تو کیا اس کے سوا تم نے وہ حمایتی بنائے ہیں جو اپنا بھلا برا نہیں کرسکتے ہیں ( ف٤۷ ) تم فرماؤ کیا برابر ہوجائیں گے اندھا اور انکھیارا ( بینا ) ( ف٤۸ ) یا کیا برابر ہوجائیں گی اندھیریاں اور اجالا ( ف٤۹ ) کیا اللہ کے لیے ایسے شریک ٹھہراتے ہیں جنہوں نے اللہ کی طرح کچھ بنایا تو انھیں ان کا اور اس کا بنانا ایک سا معلوم ہوا ( ف۵۰ ) تم فرماؤ اللہ ہر چیز کا بنانے والا ہے ( ف۵۱ ) اور وہ اکیلا سب پر غالب ہے ( ف۵۲ )
اِن سے پوچھو ، آسمان و زمین کا ربّ کون ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو ، اللہ ۔ 26 پھر ، ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھہرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ کہو ، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے؟ 27 کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں؟ 28 اور اگر ایسا نہیں تو کیا ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اس کی وجہ سے ان پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہوگیا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ 29 کہو ، ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے ، سب پر غالب! 30
۔ ( ان کافروں کے سامنے ) فرمایئے کہ آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے؟ آپ ( خود ہی ) فرما دیجئے: اﷲ ہے ۔ ( پھر ) آپ ( ان سے دریافت ) فرمایئے: کیا تم نے اس کے سوا ( ان بتوں ) کو کارساز بنا لیا ہے جو نہ اپنی ذاتوں کے لئے کسی نفع کے مالک ہیں اور نہ کسی نقصان کے ۔ آپ فرما دیجئے: کیا اندھا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں یا کیا تاریکیاں اور روشنی برابر ہو سکتی ہیں ۔ کیا انہوں نے اﷲ کے لئے ایسے شریک بنائے ہیں جنہوں نے اﷲ کی مخلوق کی طرح ( کچھ مخلوق ) خود ( بھی ) پیدا کی ہو ، سو ( ان بتوں کی پیدا کردہ ) اس مخلوق سے ان کو تشابُہ ( یعنی مغالطہ ) ہو گیا ہو ، فرما دیجئے: اﷲ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ایک ہے ، وہ سب پر غالب ہے
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :26 واضح رہے کہ وہ لوگ خود اس بات کے قائل تھے کہ زمین و آسمان کا رب اللہ ہے ۔ وہ اس سوال کا جواب انکار کی صورت میں نہیں دے سکتے تھے ، کیونکہ یہ انکار خود ان کے اپنے عقیدے کے خلا ف تھا ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر وہ اقرار کی صورت میں بھی اس جواب دینے سے کتراتے تھے ، کیونکہ اقرار کے بعد توحید کا ماننا لازم آجاتا تھا اور شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد باقی نہیں رہتی تھی ۔ اس لیے اپنے مؤقف کی کمزوری محسوس کر کے وہ اس سوال کے جواب میں چپ سادھ جاتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان سے پوچھو زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ کائنات کا رب کون ہے؟ تم کو رزق دینے والا کون ہے؟ پھر حکم دیتا ہے کہ تم خود کہو کہ اللہ ، اور اس کے بعد یوں استدلال کرتا ہے کہ جب یہ سارے کام اللہ کے ہیں تو آخر یہ دوسرے کون ہیں جن کی تم بندگی کیے جا رہے ہو؟ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :27 اندھے سے مراد وہ شخص ہے جس کے آگے کائنات میں ہر طرف اللہ کی وحدانیت کے آثار و شواہد پھیلے ہوئے ہیں مگر وہ ان میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھ رہا ہے ۔ اور آنکھوں والے سے مراد وہ ہے جس کے لیے کائنات کے ذرے ذرے اور پتے پتے میں معرفت کردگار کے دفتر کھلے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالی کے اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ عقل کے اندھو ! اگر تمہیں کچھ نہیں سوجھتا تو آخر چشم بینا رکھنے والا اپنی آنکھیں کیسے پھوڑے؟ جو شخص حقیقت کو آشکار دیکھ رہا ہے اس کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ وہ تم بے بصیرت لوگوں کی طرح ٹھوکریں کھاتا پھرے؟ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :28 روشنی سے مراد علم حق کی وہ روشنی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کو حاصل تھی ۔ اور تاریکیوں سے مراد جہالت کی وہ تاریکیاں ہیں جن میں منکرین بھٹک رہے تھے ۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ جس کو روشنی مل چکی ہے وہ کس طرح اپنی شمع بجھا کر اندھیروں میں ٹھوکریں کھانا قبول کر سکتا ہے؟ تم اگر نور کے قدر شناس نہیں ہو تو نہ سہی ۔ لیکن جس نے اسے پالیا ہے ، جو نور و ظلمت کے فرق کو جان چکا ہے ، جو دن کے اجالے میں سیدھا راستہ صاف دیکھ رہا ہے ، وہ روشنی کو چھوڑ کر تاریکیوں میں بھٹکتے پھرنے کے لیے کیسے آمادہ ہو سکتا ہے؟ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :29 اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ اگر دنیا میں کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہوتیں اور کچھ دوسروں نے ، اور یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا کہ خدا کا تخلیقی کام کونسا ہے اور دوسروں کا کونسا ، تب تو واقعی شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد ہو سکتی تھی ۔ لیکن جب یہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ ان کے معبودوں میں سے کسی نے ایک تنکا اور ایک بال تک پیدا نہیں کیا ہے ، اور جب انہیں خود تسلیم ہے کہ خلق میں ان جعلی خداؤں کا ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہیں ہے ، تو پھر یہ جعلی معبود خالق کے اختیارات اور اس کے حقوق میں آخر کس بنا پر شریک ٹھیرا لیے گئے؟ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :30 اصل میں لفظ قھّار استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں” وہ ہستی جو اپنے زور سے سب پر حکم چلائے اور سب کو مغلوب کر کے رکھے“ ۔ یہ بات کہ ” اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے “ ، مشرکین کی اپنی تسلیم کردہ حقیقت ہے جس سے انہیں کبھی انکار نہ تھا ۔ اور یہ بات کہ ” وہ یکتا اور قہار ہے“ اس تسلیم شدہ حقیقت کا لازمی نتیجہ ہے جس سے انکار کرنا ، پہلی حقیقت کو مان لینے کے بعد ، کسی صاحب عقل کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے کہ جو ہر چیز کا خالق ہے ، وہ لامحالہ یکتا و یگانہ ہے ، کیونکہ دوسری جو چیز بھی ہے وہ اسی کی مخلوق ہے ، پھر بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مخلوق اپنے خالق کی ذات ، یا صفات ، یا اختیارات ، یا حقوق میں اس کی شریک ہو؟ اسی طرح وہ لامحالہ قہّار بھی ہے ، کیونکہ مخلوق کا اپنے خالق سے مغلوب ہو کر رہنا عین تصور مخلوقیت میں شامل ہے ۔ غلبہ کامل اگر خالق کو حاصل نہ ہو تو وہ خلق ہی کیسے کر سکتا ہے ۔ پس جو شخص اللہ کو خالق مانتا ہے اس کے لیے ان دو خالص عقلی و منطقی نتیجوں سے انکار کرنا ممکن نہیں رہتا ، اور اس کے بعد یہ بات سراسر غیر معقول ٹھیرتی ہے کہ کوئی شخص خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کرے اور غالب کو چھوڑ کر مغلوب کو مشکل کشائی کے لیے پکارے ۔
اندھیرا اور روشنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ۔ یہ مشرکین بھی اس کے قائل ہیں کہ زمین وآسمان کا رب اور مدبر اللہ ہی ہے ۔ اس کے باوجود دوسرے اولیا کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ وہ سب عاجز بندے ہیں ۔ ان کے تو کیا خود اپنے بھی نفع نقصان کا انہیں کوئی اختیار نہیں پس یہ اور اللہ کے عابد یکساں نہیں ہو سکتے ۔ یہ تو اندھیروں میں ہیں اور بندہ رب نور میں ہے ۔ جتنا فرق اندھے میں اور دیکھنے والے میں ہے ، جتنا فرق اندھیروں اور روشنی میں ہے اتنا ہی فرق ان دونوں میں ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ کیا ان مشرکین کے مقرر کردہ شریک اللہ ان کے نزدیک کسی چیز کے خالق ہیں ؟ کہ ان پر تمیز مشکل ہو گئی کہ کسی چیز کا خالق اللہ ہے ؟ اور کس چیز کے خالق ان کے معبود ہیں ؟ حالانکہ ایسا نہیں اللہ کے مشابہ اس جیسا اس کے برابر کا اور اس کی مثل کا کوئی نہیں ۔ وہ وزیر سے ، شریک سے ، اولاد سے ، بیوی سے ، پاک ہے اور ان سب سے اس کی ذات بلند و بالا ہے ۔ یہ تو مشرکین کی پوری بیوقوفی ہے کہ اپنے چھوٹے معبودوں کو اللہ کا پیدا کیا ہوا ، اس کی مملوک سمجھتے ہوئے پھر بھی ان کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہیں ۔ لبیک پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا اللہ ہم حاضر ہوئے تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ شریک کہ وہ خود تیری ملکیت میں ہے اور جس چیز کا وہ مالک ہے ، وہ بھی دراصل تیری ہی ملکیت ہے ۔ قرآن نے اور جگہ ان کا مقولہ بیان فرمایا ہے کہ آیت ( مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى Ǽ۝ ) 39- الزمر:3 ) یعنی ہم تو ان کی عبادت صرف اس لالچ میں کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں ۔ ان کے اس اعتقاد کی رگ گردن توڑتے ہوئے ارشاد ربانی ہوا کہ اس کے پاس کوئی بھی اس کی اجازت بغیر لب نہیں ہلا سکتا ۔ آسمانوں کے فرشتے بھی شفاعت اس کی اجازت بغیر کر نہیں سکتے ۔ سورۃ مریم میں فرمایا زمین وآسمان کی تمام مخلوق اللہ کے سامنے غلام بن کر آنے والی ہے ، سب اس کی نگاہ میں اور اس کی گنتی میں ہیں اور ہر ایک تنہا تنہا اس کے سامنے قیامت کے دن حاضری دینے والا ہے ۔ پس جبکہ سب کے سب بندے اور غلام ہونے کی حیثیت میں یکساں ہیں پھر ایک کا دوسرے کی عبادت کرنا بڑی حماقت اور کھلی بے انصافی نہیں تو اور کیا ہے ؟ پھر اس نے رسولوں کا سلسلہ شروع دنیا سے جاری رکھا ۔ ہر ایک نے لوگوں کو سبق یہ دیا کہ اللہ ایک ہی عبادت کے لائق ہے ۔ اس کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں لیکن انہوں نے نہ اپنے اقرار کا پاس کیا نہ رسولوں کی متفقہ تعلیم کا لحاظ کیا ، بلکہ مخالفت کی ، رسولوں کو جھٹلایا تو کلمہ عذاب ان پر صادق آ گیا ۔ یہ رب کا ظلم نہیں ۔