Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَنۡدَادًا يُّحِبُّوۡنَهُمۡ كَحُبِّ اللّٰهِؕ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ؕ وَلَوۡ يَرَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡٓا اِذۡ يَرَوۡنَ الۡعَذَابَۙ اَنَّ الۡقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِيۡعًا ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعَذَابِ‏ ﴿165﴾
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں ، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں کاش کہ مشرک لوگ جانتے جب کہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر ( جان لیں گے ) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے ( تو ہرگِز شرک نہ کرتے ) ۔
و من الناس من يتخذ من دون الله اندادا يحبونهم كحب الله و الذين امنوا اشد حبا لله و لو يرى الذين ظلموا اذ يرون العذاب ان القوة لله جميعا و ان الله شديد العذاب
And [yet], among the people are those who take other than Allah as equals [to Him]. They love them as they [should] love Allah . But those who believe are stronger in love for Allah . And if only they who have wronged would consider [that] when they see the punishment, [they will be certain] that all power belongs to Allah and that Allah is severe in punishment.
Baaz log aisay bhi hain jo Allah kay shareek auron ko thehra ker uss say aisi mohabbat rakhtay hain jaisi mohabbat Allah say honi chahaiye aur eman walay Allah ki mohabbat mein boht sakht hotay hain kaash kay mushrik log jantay jab kay Allah kay azab ko dekh ker ( jaan len gay ) kay tamam taqat Allah hi ko hai aur Allah Taalaa sakht azab denay wala hai ( to hergiz shirk na kertay ) .
اور ( اس کے باوجود ) لوگوں میں کچھ وہ بھی ہیں جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو اس کی خدائی میں اس طرح شریک قرار دیتے ہیں کہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسے اللہ کی محبت ( رکھنی چاہئے ) اور جو لوگ ایمان لاچکے ہیں وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں ، اور کاش کہ یہ ظالم جب ( دنیا میں ) کوئی تکلیف دیکھتے ہیں اسی وقت یہ سمجھا لیا کریں کہ تمام تر طاقت اللہ ہی کو حاصل ہے اور یہ کہ اللہ کا عذاب ( آخرت میں ) اس وقت بڑا سخت ہوگا ۔
اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنالیتے ہیں کہ انہیں اللہ کی طرح محبوب رکھتے ہیں اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں اور کیسے ہو اگر دیکھیں ظالم وہ وقت جب کہ عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آئے گا اس لئے کہ سارا زور خدا کو ہے اور اس لئے کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے ،
﴿مگر وحدتِ خدا وندی پر دلالت کرنے والے ان کھلے کھلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی ﴾ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مد مقابل بناتے ہیں 163 اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسی اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے ۔ حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں ۔ 164 کاش ، جو کچھ عذاب کو سامنے دیکھ کر انھیں سوجھنے والا ہے وہ آج ہی ان ظالموں کو سوجھ جائے کہ ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے ۔
اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو اﷲ کے غیروں کو اﷲ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور ان سے”اﷲ سے محبت“ جیسی محبت کرتے ہیں ، اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ ( ہر ایک سے بڑھ کر ) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں ، اور اگر یہ ظالم لوگ اس وقت کو دیکھ لیں جب ( اُخروی ) عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے ہوگا ( توجان لیں ) کہ ساری قوتوں کا مالک اﷲ ہے اور بیشک اﷲ سخت عذاب دینے والا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :163 یعنی خدائی کی جو صفات اللہ کے لیے خاص ہیں ان میں سے بعض کو دُوسروں کی طرف منسُوب کرتے ہیں ، اور خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر اللہ تعالیٰ کے جو حقوق ہیں ، وہ سب یا ان میں سے بعض حقوق یہ لوگ ان دُوسرے بناوٹی معبُودوں کو ادا کرتے ہیں ۔ مثلاً سلسلہء اسباب پر حکمرانی ، حاجت روائی ، مشکل کشائی ، فریاد رسی ، دُعائیں سُننا اور غیب و شہادت ہر چیز سے واقف ہونا ، یہ سب اللہ کی مخصُوص صفات ہیں ۔ اور یہ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ بندے اسی کو مقتدرِ اعلیٰ مانیں ، اسی کے آگے اعترافِ بندگی میں سَر جُھکائیں ، اسی کی طرف اپنی حاجتوں میں رجُوع کریں ، اسی کو مدد کے لیے پکاریں ، اسی پر بھروسہ کریں ، اسی سے اُمیدیں وابستہ کریں اور اسی سے ظاہر و باطن میں ڈریں ۔ اِسی طرح مالک الملک ہونے کی حیثیت سے یہ منصب بھی اللہ ہی کا ہے کہ اپنی رعیّت کے لیے حلال و حرام کے حدُود مقرر کرے ، ان کے فرائض و حقوق معیّن کرے ، ان کو امر و نہی کے احکام دے ، اور انہیں یہ بتائے کہ اس کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے وسائل کو وہ کس طرح کِن کاموں میں کن مقاصد کے لیے استعمال کریں ۔ اور یہ صرف اللہ کا حق ہے کہ بندے اس کی حاکمیّت تسلیم کریں ، اس کے حکم کو منبعِ قانون مانیں ، اسی کو امر و نہی کا مختار سمجھیں ، اپنی زندگی کے معاملات میں اس کے فرمان کو فیصلہ کُن قرار دیں ، اور ہدایت و رہنمائی کے لیے اسی کی طرف رُجوع کریں ۔ جو شخص خدا کی ان صفات میں سے کسی صِفْت کو بھی کسی دُوسرے کی طرف منسُوب کرتا ہے ، اور اس کے ان حقوق میں سے کوئی ایک حق بھی کسی دُوسرے کو دیتا ہے وہ دراصل اسے خدا کا مدِّ مقابل اور ہمسر بناتا ہے ۔ اور اسی طرح جو شخص یا جو ادارہ ان صفات میں سے کسی صِفْت کا مدّعی ہو اور ان حقوق میں سے کسی حق کا انسانوں سے مطالبہ کرتا ہو ، وہ بھی دراصل خدا کا مدِّ مقابل اور ہمسر بنتا ہے خواہ زبان سے خدائی کا دعویٰ کرے یا نہ کرے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :164 یعنی ایمان کا اقتضا یہ ہے کہ آدمی کے لیے اللہ کی رضا ہر دُوسرے کی رضا پر مقدم ہو اور کسی چیز کی محبت بھی انسان کے دل میں یہ مرتبہ اور مقام حاصل نہ کرلے کہ وہ اللہ کی محبت پر اسے قربان نہ کر سکتا ہو ۔
محبت اللہ تعالیٰ یا اپنی پسند سے؟ اس آیت میں مشرکین کا دنیوی اور اخروی حال بیان ہو رہا ہے ، یہ اللہ کا شریک مقرر کرتے ہیں اس جیسا اوروں کو ٹھہراتے ہیں اور پھر ان کی محبت اپنے دل میں ایسی ہی جماتے ہیں جیسی اللہ کی ہونی چاہئے حالانکہ وہ معبود برحق صرف ایک ہی ہے ، وہ شریک اور حصہ داری سے پاک ہے بخاری و مسلم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے پوچھا یارسول اللہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا حالانکہ پیدا اسی اکیلے نے کیا ہے ۔ پھر فرمایا ایماندار اللہ تعالیٰ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں ان کے دل عظمت الہٰی اور توحید ربانی سے معمور ہوتے ہیں ، وہ اللہ کے سوا دوسرے سے ایسی محبت نہیں کرتے کسی اور سے طرف التجا کرتے ہیں نہ دوسروں کی طرف جھکتے ہیں نہ اس کی پاک ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں ۔ پھر ان مشرکین کو جو اپنی جانوں پر شرک کے بوجھ کا ظلم کرتے ہیں انہیں اس عذاب کی خبر پہنچاتا ہے کہ اگر یہ لوگ اسے دیکھ لیں تو یقین ہو جائے کہ قدرتوں والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ، تمام چیزیں اسی کے ماتحت اور زیر فرمان ہیں اور اس کا عذاب بڑا بھاری ہے جیسے اور جگہ ہے کہ اس دن نہ تو اس کے عذاب جیسا کوئی عذاب کر سکتا ہے نہ اس کی پکڑ جیسی کسی کی پکڑ ہو سکتی ، دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر انہیں اس منظر کا علم ہوتا تو یہ اپنی گمراہی اور شرک وکفر پر ہرگز نہ اڑتے ۔ اس دن ان لوگوں نے جن جن کو اپنا پیشوا بنا رکھا تھا وہ سب ان سے الگ ہو جائیں گے ، فرشتے کہیں گے اللہ ہم ان سے بیزار ہیں یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے اللہ تری ذات پاک ہے تو ہی ہمارا ولی ہے ، یہ لوگ تو جنات کی عبادت کرتے ہیں انہیں پر ایمان رکھتے تھے ، اسی طرح جنات بھی ان سے بیزاری کا اعلان کریں گے اور صاف صاف ان کے دشمن ہو جائیں گے اور عبادت سے انکار کریں گے اور جگہ قرآن میں ہے کہ یہ لوگ جن جن کی عبادت کرتے تھے وہ سب کے سب قیامت کے دن آیت ( سَيَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا ) 19 ۔ مریم:82 ) ان کی عبادت سے انکار کریں گے اور ان کے دشمن بن جائیں گے ، حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کا فرمان ہے آیت ( اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا ۙ مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ) 29 ۔ العنکبوت:25 ) تم نے اللہ کے سوا بتوں کی محبت دل میں بٹھا کر ان کی پوجا شروع کر دی ہے قیامت کے دن وہ تمہاری عبادت کا انکار کریں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور تمہارا ٹھکانہ جہنم ہو گا اور تمہارا مددگار کوئی نہ ہو گا ، اسی طرح اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ښ يَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ ۚ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِيْنَ ) 34 ۔ سبأ:31 ) یعنی یہ ظالم رب کے سامنے کھڑے ہوئے ہوں گے اور اپنے پیشواؤں سے کہہ رہے ہوں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایماندار بن جاتے ، وہ جواب دیں گے کیا ہم نے تمہیں اللہ پرستی سے روکا ؟حقیقت یہ ہے کہ تم خود مجرم تھے ، وہ کہیں گے تمہاری دن رات کی مکاریاں تمہارے کفرانہ احکام تمہاری شرف کی تعلیم نے ہمیں پھانس لیا ، اب سب دل سے نادم ہوں گے اور ان کی گردنوں میں ان کے برے اعمال کے طوق ہوں گے اور جگہ ہے کہ اس دن شیطان بھی کہے گا آیت ( اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ ) 14 ۔ ابراہیم:22 ) یعنی اللہ کا وعدہ تو سچا تھا اور میں تمہیں جو سبز باغ دکھایا کرتا تھا وہ محض دھوکہ تھا لیکن تم پر میرا کوئی زور تو نہیں تھا میں نے تمہیں صرف کہا اور تم نے منظور کر لیا اب مجھے ملازمت کرنے سے کیا فائدہ؟ اب اپنی جانوں کو لعنت ملامت کرو ۔ نہ میں نے تمہاری مدد کر سکتا ہوں نہ تم میری میں تمہارے اگلے شرک سے کوئی واسطہ نہیں جان لو کہ ظالموں کے لئے درناک عذاب ہے پھر فرمایا کہ وہ عذاب دیکھ لیں گے اور اور تمام اسباب منقطع ہو جائیں گے نہ کوئی بھاگنے کی جگہ رہے گی نہ چھٹکارے کی کوئی صورت نظر آئے گی دوستیاں کٹ جائیں گی رشتے ٹوٹ جائیں گے ۔ اور بلادلیل باتیں ماننے والے بےوجہ اعتقاد رکھنے والے پوجا پاٹ اور اطاعت کرنے والے جب اپنے پیشواؤں کو اس طرح بری الذمہ ہوتے ہوئے دیکھیں گے تو نہایت حسرت ویاس سے کہیں گے کہ اگر اب ہم دنیا میں لوٹ جائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہوئے نہ ان کی طرف التفات کریں نہ ان کی باتیں مانیں نہ انہیں شریک اللہ سمجھیں بلکہ اللہ واحد کی خالص عبادت کریں ۔ حالانکہ اگر درحقیقت یہ لوٹائے بھی جائیں تو وہی کریں گے جو اس سے پہلے کرتے تھے جیسے فرمایا آیت ( وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:28 ) اسی لئے یہاں فرمایا اللہ تعالیٰ ان کے کرتوت اسی طرح دکھائے گا ان پر حسرت وافسوس ہے یعنی اعمال نیک جو تھے وہ بھی ضائع ہو گئے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا ) 25 ۔ الفرقان:23 ) اور جگہ ہے آیت ( اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ ) 14 ۔ ابراہیم:18 ) اور جگہ ہے آیت ( اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۢ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً ) 24 ۔ النور:48 ) یعنی ان کے اعمال برباد ہیں ان کے اعمال کی مثال راکھ کی طرح ہے جسے تند ہوائیں اڑا دیں ، ان کے اعمال ریت کی طرح ہیں جو دور سے پانی دکھائی دیتا ہے مگر پاس جاؤ تو ریت کا تودا ہوتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ لوگ آگ سے نکلنے والے نہیں ۔