Surah

Information

Surah # 13 | Verses: 43 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 96 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَالَّذِيۡنَ صَبَرُوا ابۡتِغَآءَ وَجۡهِ رَبِّهِمۡ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً وَّيَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اُولٰۤٮِٕكَ لَهُمۡ عُقۡبَى الدَّارِۙ‏ ﴿22﴾
اور وہ اپنے رب کی رضامندی کی طلب کے لئے صبر کرتے ہیں اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے ۔
و الذين صبروا ابتغاء وجه ربهم و اقاموا الصلوة و انفقوا مما رزقنهم سرا و علانية و يدرءون بالحسنة السية اولىك لهم عقبى الدار
And those who are patient, seeking the countenance of their Lord, and establish prayer and spend from what We have provided for them secretly and publicly and prevent evil with good - those will have the good consequence of [this] home -
Aur woh apney rab ki raza mandi ki talab kay liye sabar kertay hain aur namazon ko barabar qaeem rakhtay hain aur jo kuch hum ney unhen dey rakha hai ussay chuppay khulay kharach kertay hain aur buraee ko bhi bhalee say taaltay hain inn hi kay liye aaqibat ka ghar hai.
اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر سے کام لیا ہے ، ( ٢٢ ) اور نماز قائم کی ہے اور ہم نے انہیں جو رزق عطا فرمایا ہے ، اس میں سے خفیہ بھی اور علانیہ بھی خرچ کیا ہے ، اور وہ بدسلوکی کا دفاع حسن سلوک سے کرتے ہیں ، ( ٢٣ ) وطن اصلی میں بہترین انجام ان کا حصہ ہے ( ٢٤ ) ۔
اور وہ جنہوں نے صبر کیا ( ف٦٤ ) اپنے رب کی رضا چاہنے کو اور نماز قائم رکھی اور ہمارے دیئے سے ہماری راہ میں چھپے اور ظاہر کچھ خرچ کیا ( ف٦۵ ) اور برائی کے بدلے بھلائی کرکے ٹالتے ہیں ( ف٦٦ ) انھیں کے لیے پچھلے گھر کا نفع ہے ،
ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں 39 ، نماز قائم کرتے ہیں ، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں ، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں ۔ 40 آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے ،
اور جو لوگ اپنے رب کی رضاجوئی کے لئے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ ( دونوں طرح ) خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعہ برائی کو دور کرتے رہتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت کا ( حسین ) گھر ہے
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :39 یعنی اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتے ہیں ، اپنے جذبات اور میلانات کو حدود کا پابند بناتے ہیں ، خدا کی نافرمانی میں جن جن فائدوں اور لذتوں کا لالچ نظر آتا ہے انہیں دیکھ کر پھسل نہیں جاتے ، اور خدا کی فرمانبرداری میں جن جن نقصانات اور تکلیفوں کا اندیشہ ہوتا ہے انہیں برداشت کرتے جاتے ہیں ۔ اس لحاظ سے مومن کی پوری زندگی درحقیقت صبر کی زندگی ہے ، کیونکہ وہ رضائے الہی کی امید پر اور آخرت کے پائدار نتائج کی توقع پر اس دنیا میں ضبط نفس سے کام لیتا ہے اور گناہ کی جانب نفس کے ہر میلان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :40 یعنی وہ بدی کے مقابلے میں بدی نہیں بلکہ نیکی کرتے ہیں ۔ وہ شر کا مقابلہ شر سے نہیں بلکہ خیر ہی سے کرتے ہیں ۔ کوئی ان پر خواہ کتنا ہی ظلم کرے ، وہ جواب میں ظلم نہیں بلکہ انصاف ہی کرتے ہیں ۔ کوئی ان کے خلاف کتنا ہی جھوٹ بولے ، وہ جواب میں سچ ہی بولتے ہیں ۔ کوئی ان سے خواہ کتنی ہی خیانت کرے ، وہ جواب میں دیانت ہی سے کام لیتے ہیں ۔ اسی معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: لا تکونو ا امعۃ تقولون ان احسن الناس احسنا و ان ظلمونا ظلمنا ۔ و لٰکن وطّنوا انفسکم ، ان احسن الناس ان تحسنوا و ان اساؤا فلا تظلموا ۔ ”تم اپنے طرز عمل کو لوگوں کے طرز عمل کا تابع بنا کر نہ رکھو ۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھلائی کریں گے اور لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے ۔ تم اپنے نفس کو ایک قاعدے کا پابند بناؤ ۔ اگر لوگ نیکی کریں تو نیکی کرو ۔ اور اگر لوگ تم سے بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو ۔ “ اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے ۔ اور ان میں سے چار باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائیں کہ میں خواہ کسی سے خوش ہوں یا ناراض ہر حالت میں انصاف کی بات کہوں ، جو میرا حق مارے میں اس کا حق ادا کروں ، جو مجھے محروم کرے میں اس کو عطا کروں ، اور جو مجھ پر ظلم کرے میں اس کو معاف کر دوں ۔ اور اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لا تخن من خانک ” جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر“ ۔ اور اسی معنی میں ہے حضرت عمر رضی للہ عنہ کا یہ قول کہ ” جو شخص تیرے ساتھ معاملہ کرنے میں خدا سے نہیں ڈرتا اس کی سزا دینے کی بہترین صورت یہ ہے کہ تو اس کے ساتھ خدا سے ڈرتے ہوئے معاملہ کر“ ۔