Surah

Information

Surah # 13 | Verses: 43 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 96 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَلَوۡ اَنَّ قُرۡاٰنًا سُيِّرَتۡ بِهِ الۡجِبَالُ اَوۡ قُطِّعَتۡ بِهِ الۡاَرۡضُ اَوۡ كُلِّمَ بِهِ الۡمَوۡتٰى‌ ؕ بَلْ لِّلّٰهِ الۡاَمۡرُ جَمِيۡعًا ‌ؕ اَفَلَمۡ يَايۡــَٔسِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ لَّوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيۡعًا ؕ وَلَا يَزَالُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا تُصِيۡبُهُمۡ بِمَا صَنَعُوۡا قَارِعَةٌ اَوۡ تَحُلُّ قَرِيۡبًا مِّنۡ دَارِهِمۡ حَتّٰى يَاۡتِىَ وَعۡدُ اللّٰهِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخۡلِفُ الۡمِيۡعَادَ‏ ﴿31﴾
اگر ( بالفرض ) کسی قرآن ( آسمانی کتاب ) کے ذریعہ پہاڑ چلا دیے جاتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے کر دی جاتی یا مردوں سے باتیں کرا دی جاتیں ( پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے ) ، بات یہ ہے کہ سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہے ، تو کیا ایمان والوں کو اس بات پر دل جمعی نہیں کہ اگر اللہ تعالٰی چاہے تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دے ۔ کفار کو تو ان کے کفر کے بدلے ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی سخت سزا پہنچتی رہے گی یا ان کے مکانوں کے قریب نازل ہوتی رہے گی تاوقتیکہ وعدہ الٰہی آپہنچے یقیناً اللہ تعالٰی وعدہ ٔخلافی نہیں کرتا ۔
و لو ان قرانا سيرت به الجبال او قطعت به الارض او كلم به الموتى بل لله الامر جميعا افلم يايس الذين امنوا ان لو يشاء الله لهدى الناس جميعا و لا يزال الذين كفروا تصيبهم بما صنعوا قارعة او تحل قريبا من دارهم حتى ياتي وعد الله ان الله لا يخلف الميعاد
And if there was any qur'an by which the mountains would be removed or the earth would be broken apart or the dead would be made to speak, [it would be this Qur'an], but to Allah belongs the affair entirely. Then have those who believed not accepted that had Allah willed, He would have guided the people, all of them? And those who disbelieve do not cease to be struck, for what they have done, by calamity - or it will descend near their home - until there comes the promise of Allah . Indeed, Allah does not fail in [His] promise.
Agar ( bil farz ) kissi quran ( aasmani kitab ) kay zariye pahar chala diye jatay ya zamin tukray tukray ker di jati ya murdon say baaten kerwa di jatin ( phir bhi woh eman na latay ) baat yeh hai kay sab kaam Allah kay hath mein hai to kiya eman walon ko iss baat per dil jamaee nahi kay agar Allah Taalaa chahaye to tamam logon ko hidayat dey dey. Kuffaar ko to inn kay kufur kay badlay hamesha hi koi na koi sakht saza phonchti rahey gi ya inn kay makano kay qarib nazil hoti rahey gi ta-waqt-e-kay wada-e-elahi aa phonchay. Yaqeenan Allah Taalaa wada khilafi nahi kerta.
اور اگر کوئی قرآن ایسا بھی اترتا ہے جس کے ذریعے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیے جاتے یا اس کی بدولت زمین شق کردی جاتی ( اور اس سے دریا نکل پڑتے ) یا اس کے نتیجے میں مردوں سے بات کرلی جاتی ، ( تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے ) ( ٢٧ ) ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام تر اختیار اللہ کا ہے ۔ کیا پھر بھی ایمان والوں نے یہ سوچ کر اپنا ذہن فارغ نہیں کیا کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے ہی انسانوں کو ( زبردستی ) راہ پر لے آتا؟ ( ٢٨ ) اور جنہوں نے کفر اپنایا ہے ان پر تو ان کے کرتوت کی وجہ سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی کھڑ کھڑانے والی مصیبت پڑتی رہتی ہے ، یا ان کی بستی کے قریب کہیں نازل ہوتی رہتی ہے ، یہاں تک کہ ( ایک دن ) اللہ نے جو وعدہ کر رکھا ہے وہ آکر پورا ہوجائے گا ۔ ( ٢٩ ) یقین رکھو کہ اللہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔
اور اگر کوئی ایسا قرآن آتا جس سے پہاڑ ٹل جاتے ( ف۸۲ ) یا زمین پھٹ جاتی یا مردے باتیں کرتے جب بھی یہ کافر نہ مانتے ( ف۸۳ ) بلکہ سب کام اللہ ہی کے اختیار ميں ہیں ( ف۸٤ ) تو کیا مسلمان اس سے ناامید نہ ہوئے ( ف۸۵ ) کہ اللہ چاہتا تو سب آدمیوں کو ہدایت کردیتا ( ف۸٦ ) اور کافروں کو ہمیشہ کے لیے یہ سخت دھمک ( ہلادینے والی مصیبت ) پہنچتی رہے گی ( ف۸۷ ) یا ان کے گھروں کے نزدیک اترے گی ( ف۸۸ ) یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آئے ( ف۸۹ ) بیشک اللہ وعدہ خلاف نہیں کرتا ( ف۹۰ )
اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے ، یا زمین شق ہو جاتی ، یا مردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ 47 ﴿اس طرح کی نشانیاں دِکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے﴾ بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ 48 پھر کیا اہل ایمان ﴿ابھی تک کفّار کی طلب کے جواب میں کِسی نشانی کے ظہور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر﴾ مایوس نہیں ہو گئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا ؟ 49 جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کا رویّہ اختیار کر رکھا ہے ان پر ان کے کر تو توں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے ، یا ان کےگھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے ۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو ۔ یقیناً اللہ اپنے وعدےکے خلاف ورزی نہیں کرتا ۔ ؏ ٤
اور اگر کوئی ایسا قرآن ہوتا جس کے ذریعے پہاڑ چلا دیئے جاتے یا اس سے زمین پھاڑ دی جاتی یا اس کے ذریعے مُردوں سے بات کرا دی جاتی ( تب بھی وہ ایمان نہ لاتے ) ، بلکہ سب کام اﷲ ہی کے اختیار میں ہیں ، تو کیا ایمان والوں کو ( یہ ) معلوم نہیں کہ اگر اﷲ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت فرما دیتا ، اور ہمیشہ کافر لوگوں کو ان کے کرتوتوں کے باعث کوئی ( نہ کوئی ) مصیبت پہنچتی رہے گی یا ان کے گھروں ( یعنی بستیوں ) کے آس پاس اترتی رہے گی یہاں تک کہ اﷲ کا وعدۂ ( عذاب ) آپہنچے ، بیشک اﷲ وعدہ خلافی نہیں کرتا
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :47 اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی ضروری ہے کہ اس میں خطاب کفار سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہے ۔ مسلمان جب کفار کی طرف سے بار بار نشانی کا مطالبہ سنتے تھے تو ان کے دلوں میں بے چینی پیدا ہوتی تھی کہ کاش ان لوگوں کو کوئی نشانی دکھا دی جاتی جس سے یہ لوگ قائل ہو جاتے ۔ پھر جب وہ محسوس کرتےتھے کہ اس طرح کی کسی نشانی کے نہ آنے کی وجہ سے کفار کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پھیلانے کا موقع مل رہا ہے تو ان کی یہ بے چینی اور بھی زیادہ بڑھ جاتی تھی ۔ اس پر مسلمانوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر قرآن کی کسی سورۃ کے ساتھ ایسی اور ایسی نشانیاں یکایک دکھا دی جاتیں تو کیا واقعی تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ لوگ ایمان لے آتے ؟ کیا تمہیں ان سے یہ خوش گمانی ہے کہ یہ قبول حق کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں ، صرف ایک نشانی کے ظہور کی کسر ہے؟ جن لوگوں کو قرآن کی تعلیم میں ، کائنات کے آثار میں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی میں ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے انقلاب حیات میں نور حق نظر نہ آیا کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ پہاڑوں کے چلنے اور زمین کے پھٹنے اور مردوں کے قبروں سے نکل آنے میں کوئی روشنی پا لیں گے؟ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :48 یعنی نشانیوں کے نہ دکھانے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی ان کے دکھانے پر قادر نہیں ہے ، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ان طریقوں سے کام لینا اللہ کی مصلحت کے خلاف ہے ۔ اس لیے کہ اصل مقصود تو ہدایت ہے نہ کہ ایک نبی کی نبوت کو منوا لینا ، اور ہدایت اس کے بغیر ممکن نہیں کہ لوگوں کی فکر وبصیرت کی اصلاح ہو ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :49 یعنی اگر سمجھ بوجھ کے بغیر محض ایک غیر شعوری ایمان مطلوب ہوتا تو اس کے لیے نشانیاں دکھانے کے تکلف کی کیا حاجت تھی ۔ یہ کام تو اس طرح بھی ہو سکتا تھا کہ اللہ سارے انسانوں کو مومن ہی پیدا کر دیتا ۔
قرآن حکیم کی صفات جلیلہ اللہ تعالیٰ اس پاک کتاب قرآن کریم کی تعریفیں بیان فرما رہا ہے اگر سابقہ کتابوں میں کسی کتاب کے ساتھ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جانے والے اور زمین پھٹ جانے والی اور مردے جی اٹھنے والے ہو تے تو یہ قرآن جو تمام سابقہ کتابوں سے بڑھ چڑھ کر ہے ان سب سے زیادہ اس بات کا اہل تھا اس میں تو وہ معجز بیانی ہے کہ سارے جنات وانسان مل کر بھی اس جیسی ایک سورت نہ بنا کر لا سکے ۔ یہ مشرکین اس کے بھی منکر ہیں تو معاملہ سپرد رب کرو ۔ وہ مالک کل کہ ، تمام کاموں کا مرجع وہی ہے ، وہ جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے ، جو نہیں چاہتا ہرگز نہیں ہوتا ۔ اس کے بھٹکائے ہوئے کی رہبری اور اس کے راہ دکھائے ہوئے کی گمراہی کسی کے بس میں نہیں ۔ یہ یاد رہے کہ قرآن کا اطلاق اگلی الہامی کتابوں پر بھی ہوتا ہے اس لئے کہ وہ سب سے مشتق ہے ۔ مسند میں ہے حضرت داؤد پر قرآن اس قد رآسان کر دیا گیا تھا کہ ان کے حکم سے سواری کسی جاتی اس کے تیار ہونے سے پہلے ہی وہ قرآن کو ختم کر لیتے ، سوا اپنے ہاتھ کی کمائی کے وہ اور کچھ نہ کھاتے تھے ۔ پس مراد یہاں قرآن سے زبور ہے ۔ کیا ایماندار اب تک اس سے مایوس نہیں ہوئے کہ تمام مخلوق ایمان نہیں لائے گی ۔ کیا وہ مشیت الہٰی کے خلاف کچھ کر سکتے ہیں ۔ رب کی یہ منشاہی نہیں اگر ہوتی تو روئے زمین کے لوگ مسلمان ہو جاتے ۔ بھلا اس قرآن کے بعد کس معجزے کی ضرورت دنیا کو رہ گئی ؟ اس سے بہتر واضح ، اس سے صاف ، اس سے زیادہ دلوں میں گھر کرنے والا اور کون سا کلام ہو گا ؟ اسے تو اگر بڑے سے بڑے پہاڑ پر اتارا جاتا تو وہ بھی خشیت الہٰی سے چکنا چور ہو جاتا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی کو ایسی چیز ملی کہ لوگ اس پر ایمان لائیں ۔ میری ایسی چیز اللہ کی یہ وحی ہے پس مجھے امید ہے کہ سب نبیوں سے زیادہ تابعداروں والا میں ہو جاؤں گا ۔ مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے معجزے ان کے ساتھ ہی چلے گئے اور میرا یہ معجزہ جیتا جاگتا رہتی دنیا تک رہے گا ، نہ اس کے عجائبات ختم ہوں نہ یہ کثرت تلاوت سے پرانا ہو نہ اس سے علماء کا پیٹ بہر جائے ۔ یہ فضل ہے دل لگی نہیں ۔ جو سرکش اسے چھوڑ دے گا اللہ اسے توڑ دے گا جو اس کے سوا اور میں ہدایت تلاش کرے گا اسے اللہ گمراہ کر دے گا ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کافروں نے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اگر آپ یہاں کے پہاڑ یہاں سے ہٹوا دیں اور یہاں کی زمین زراعت کے قابل ہو جائے اور جس طرح سیلمان علیہ السلام زمین کی کھدائی ہوا سے کراتے تھے آپ بھی کرا دیجئے یا جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیتے تھے آپ بھی کر دیجئے اس پر یہ آیت اتری قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اگر کسی قرآن کے ساتھ یہ امور ظاہر ہوتے تو اس تمہارے قرآن کے ساتھ بھی ہوتے سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا تاکہ تم سب کو آزما لے اپنے اختیار سے ایمان لاؤ یا نہ لاؤ ۔ کیا ایمان والے نہیں جانتے ؟ یا لیئس کے بدلے دوسری جگہ یتبیتن بھی ہے ایمان دار ان کی ہدایت سے مایوس ہو چکے تھے ۔ ہاں اللہ کے اختیار میں کسی کا بس نہیں وہ اگر چاہے تمام مخلوق کو ہدایت پر کھڑا کر دے ۔ یہ کفار برابر دیکھ رہے ہیں کہ ان کے جھٹلانے کی وجہ سے اللہ کے عذاب برابر ان پر برستے رہتے ہیں یا ان کے آس پاس آ جاتے ہیں پھر بھی یہ نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟ جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 46 ۔ الاحقاف:27 ) یعنی ہم نے تمہارے آس پاس کی بہت سی بستیوں کو ان کی بد کرداریوں کی وجہ سے غارت وبرباد کر دیا اور طرح طرح سے اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں کہ لوگ برائیوں سے باز رہیں ۔ اور آیت میں ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا ۭوَاللّٰهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ ۭ وَهُوَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ) 13 ۔ الرعد:41 ) کیا وہ نہیں دیکھ رہے کہ ہم زمین کو گھٹاتے چلے آ رہے ہیں کیا اب بھی اپنا ہی غلبہ مانتے چلے جائیں گے ؟ تحل کا فاعل قارعہ ہے یہی ظاہر اور مطابق روانی عبارت ہے لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قارعہ پہنچے یعنی چھوٹا سا لشکر اسلامی یا تو خود ان کے شہر کے قریب اتر پڑے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تک کہ وعدہ ربانی آ پہنچے اس سے مراد فتح مکہ ہے ۔ آپ سے ہی مروی ہے کہ قارعہ سے مراد آسمانی عذاب ہے اور آس پاس اترنے سے مراد انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے لشکروں سمیت ان کی حدود میں پہنچ جانا ہے اور ان سے جہاد کرنا ہے ۔ ان سب کا قول ہے کہ یہاں وعدہ الہٰی سے مراد فتح مکہ ہے ۔ لیکن حسن بصری رحمتۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے مراد قیامت کا دن ہے ۔ اللہ کا وعدہ اپنے رسولوں کی نصرت وامداد کا ہے وہ کبھی ٹلنے والا نہیں انہیں اور ان کے تابعداروں کو ضرور بلندی نصیب ہو گی ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( ولا تحسبن اللہ مخلف وعدہ رسلہ ان اللہ عزیز ذو انتقام ) یہ غلظ گمان ہرگز نہ کرو کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے ۔ اللہ غلب ہے اور بدلہ لینے والا ۔