Surah

Information

Surah # 14 | Verses: 52 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 72 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 29, from Madina
وَلَـقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰى بِاٰيٰتِنَاۤ اَنۡ اَخۡرِجۡ قَوۡمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ ۙ وَذَكِّرۡهُمۡ بِاَيّٰٮمِ اللّٰهِ‌ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لّـِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوۡرٍ‏ ﴿5﴾
۔ ( یاد رکھو جب کہ ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ تو اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی میں نکال اور انہیں اللہ کے احسانات یاد دلا بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہرایک صبر شکر کرنے والے کے لئے ۔
و لقد ارسلنا موسى بايتنا ان اخرج قومك من الظلمت الى النور و ذكرهم بايىم الله ان في ذلك لايت لكل صبار شكور
And We certainly sent Moses with Our signs, [saying], "Bring out your people from darknesses into the light and remind them of the days of Allah ." Indeed in that are signs for everyone patient and grateful.
( yaad rakho jabkay ) hum ney musa ko apni nishaniyan dey ker bheja kay tu apni qom ko andheron say roshni mein nikal aur enhen Allah kay ehsanaat yaad dila. Iss mein nishaniyan hain her aik sabar shukar kerney wlay kay liye.
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ : اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاؤ ، اور ( مختلف لوگوں کو ) اللہ نے ( خوشحالی اور بدحالی کے ) جو دن دکھائے ہیں ، ( ٤ ) ان کے حوالے سے انہیں نصیحت کرو ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو صبر اور شکر کا خوگر ہو ، اس کے لیے ان واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ۔
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں ( ف۱۲ ) دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیریوں سے ( ف۱۳ ) اجالے میں لا ، اور انھیں اللہ کے دن یاد دلا ( ف۱٤ ) بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر بڑے صبرے والے شکر گزار کرو ،
ہم اس سے پہلے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں ۔ اسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں تاریخِ الٰہی 8 کے سبق آموز واقعات سنا کر نصیحت کر ۔ ان واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں 9 ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو ۔ 10
اور بیشک ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ ( اے موسٰی! ) تم اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جاؤ اور انہیں اﷲ کے دنوں کی یاد دلاؤ ( جو ان پر اور پہلی امتوں پر آچکے تھے ) ۔ بیشک اس میں ہر زیادہ صبر کرنے والے ( اور ) خوب شکر بجا لانے والے کے لئے نشانیاں ہیں
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :8 ”ایّام“ کا لفظ عربی زبان میں اصطلاحا یادگار تاریخی واقعات کے لیے بولا جاتا ہے ۔ ”ایام اللہ“ سے مراد تاریخ انسانی کے وہ اہم ابواب ہیں جن میں اللہ تعالی نے گزشتہ زمانہ کی قوموں اور بڑی بڑی شخصیتوں کو ان کے اعمال کے لحاظ سے جزا یا سزا دی ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :9 یعنی ان تاریخی واقعات میں ایسی نشانیاں موجود ہیں جن سے ایک آدمی توحید خداوندی کے برحق ہونے کا ثبوت بھی پا سکتا ہے اور اس حقیقت کی بھی بے شمار شہادتیں فراہم کر سکتا ہے کہ مکافات کا قانون ایک عالمگیر قانون ہے ، اور وہ سراسر حق اور باطل کے علمی و اخلاقی امتیاز پر قائم ہے ، اور اسکے تقاضے پورے کرنے کے لیے ایک دوسرا عالم ، یعنی عالم آخرت ناگزیر ہے ۔ نیز ان واقعات میں وہ نشانیاں بھی موجود ہیں جن سے ایک آدمی باطل عقائد و نظریات پر زندگی کی عمارت اٹھانے کے برے نتائج معلوم کر سکتا ہے اور ان سے عبرت حاصل کر سکتا ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :10 یعنی یہ نشانیاں تو اپنی جگہ موجود ہیں مگر ان سے فائدہ اٹھانا صرف انہی لوگوں کا کام ہے جو اللہ کی آزمائشوں سے صبر اور پامردی کے ساتھ گزرنے والے ، اور اللہ کی نعمتوں کو ٹھیک ٹھیک محسوس کر کے ان کا صحیح شکریہ ادا کرنے والے ہوں ۔ چھچھورے اور کم ظرف اور احسان ناشناس لوگ اگر ان نشانیوں کا ادراک کر بھی لیں تو ان کی یہ اخلاقی کمزوریاں اُنہیں اس ادراک سے فائدہ اٹھانے نہیں دیتیں ۔
نو ( ٩ ) نشانیاں جیسے ہم نے تجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور تجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے کہ تو لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے ۔ اسی طرح ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تھا بہت سی نشانیاں بھی دی تھیں جن کا بیان آیت ( وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا ١٠١؁ ) 17- الإسراء:101 ) میں ہے ۔ انہیں بھی یہی حکم تھا کہ لوگوں کو نیکیوں کی دعوت دے انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں اور جہالت و ضلالت سے ہٹا کر علم و ہدایت کی طرف لے آ ۔ انہیں اللہ کے احسناتات یاد دلا ۔ کہ اللہ نے انہیں فرعون جیسے ظالم و جابر بادشاہ کی غلامی سے آزاد کیا ان کے لئے دریا کو کھڑا کر دیا ان پر ابر کا سایہ کر دیا ان پر من و سلوی اتارا اور بھی بہت سی نعمتیں عطا فرمائیں ۔ مسند کی مرفوع حدیث میں ایام اللہ کی تفسیر اللہ کی نعمتوں سے مروی ہے ۔ لکن ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ میں یہ روایت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے موقوفا بھی آئی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے ۔ ہم نے اپنے بندوں بنی اسرائیل کے ساتھ جو احسان کئے فرعون سے نجات دلوانا ، اس کے ذلیل عذابوں سے چھڑوانا ، اس میں ہر صابر و شاکر کے لئے عبرت ہے ۔ جو مصیبت میں صبر کرے اور راحت میں شکر کرے ۔ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن کا تمام کام عجیب ہے اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے وہی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے راحت و آرام ملے شکر کرتا ہے اس کا انجام بھی اس کے لئے بہتر ہوتا ہے ۔