Surah

Information

Surah # 14 | Verses: 52 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 72 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 29, from Madina
قَالَتۡ رُسُلُهُمۡ اَفِى اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ يَدۡعُوۡكُمۡ لِيَـغۡفِرَ لَـكُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِكُمۡ وَيُؤَخِّرَكُمۡ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى‌ؕ قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَاؕ تُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا كَانَ يَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلۡطٰنٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿10﴾
ان کے رسولوں نے انہیں کہا کہ کیا حق تعالٰی کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے وہ تو تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے تمام گناہ معاف فرما دے اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے ، انہوں نے کہا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے ہیں اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو ۔
قالت رسلهم افي الله شك فاطر السموت و الارض يدعوكم ليغفر لكم من ذنوبكم و يؤخركم الى اجل مسمى قالوا ان انتم الا بشر مثلنا تريدون ان تصدونا عما كان يعبد اباؤنا فاتونا بسلطن مبين
Their messengers said, "Can there be doubt about Allah , Creator of the heavens and earth? He invites you that He may forgive you of your sins, and He delays your death for a specified term." They said, "You are not but men like us who wish to avert us from what our fathers were worshipping. So bring us a clear authority."
Unn kay rasoolon ney unhen kaha kay kiya haq taalaa kay baray mein tumhen shak hai jo aasmano aur zamin ka bananey wala hai woh to tumhen iss liye bula raha hai kay tumharay tamam gunah moaf farma dey aur aik muqarrara waqt tak tumhen mohlat ata farmaye unhon ney kaha kay tum to hum jaisay hi insan ho tum chahatay ho kay humen unn khudaon ki ibadat say rok do jin ki ibadat humaray baap dada kertay rahey acha to humaray samney koi khulli daleel paish kero.
ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا : کیا اللہ کے بارے میں شک ہے جو سارے آسمانوں اور زمین کا خالق ہے ؟ وہ تمہیں بلا رہا ہے کہ تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے ، اور تمہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دے ۔ ( ٧ ) انہوں نے کہا کہ : تمہاری حقیقت اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ تم ایسے ہی انسان جو جیسے ہم ہیں ۔ تم یہ چاہتے ہو کہ ہمارے باپ دادا جن کی عبادت کرتے آئے ہیں ان سے ہمیں روک دو ، لہذا کوئی صاف صاف معجزہ لاکر دکھاؤ ۔ ( ٨ )
ان کے رسولوں نے کہا کیا اللہ میں شک ہے ( ف۲٤ ) آسمان اور زمین کا بنانے والا ، تمہیں بلاتا ہے ( ف۲۵ ) کہ تمہارے کچھ گناہ بخشے ( ف۲٦ ) اور موت کے مقرر وقت تک تمہاری زندگی بےعذاب کاٹ دے ، بولے تم تو ہمیں جیسے آدمی ہو ( ف۲۷ ) تم چاہتے ہو کہ ہمیں اس سے باز رکھو جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ( ف۲۸ ) اب کوئی روشن سند ہمارے پاس لے آؤ ( ف۲۹ )
ان کے رسولوں نے کہا کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ 17 وہ تمہیں بلا رہا ہے تاکہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدتِ مقرر تک مہلت دے ۔ 18 انہوں نے جواب دیا تم کچھ نہیں ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں ۔ 19 تم ہمیں ان ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی باپ دادا سے ہوتی چلی آرہی ہے ۔ اچھا تو لاؤ کوئی صریح سَنَد ۔ 20
ان کے پیغمبروں نے کہا: کیا اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا فرمانے والا ہے ، ( جو ) تمہیں بلاتا ہے کہ تمہارے گناہوں کو تمہاری خاطر بخش دے اور ( تمہاری نافرمانیوں کے باوجود ) تمہیں ایک مقرر میعاد تک مہلت دیئے رکھتا ہے ۔ وہ ( کافر ) بو لے: تم تو صرف ہمارے جیسے بشر ہی ہو ، تم یہ چاہتے ہو کہ ہمیں ان ( بتوں ) سے روک دو جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے ، سو تم ہمارے پاس کوئی روشن دلیل لاؤ
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :17 رسولوں نے یہ بات اس لیے کہی کہ ہر زمانے کے مشرکین خدا کی ہستی کو مانتے تھے اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق وہی ہے ۔ اسی بنیاد پر رسولوں نے فرمایا کہ آخر تمہیں شک کس چیز پر ہے ؟ ہم جس چیز کی طرف تمہیں دعوت دیتے ہیں وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ اللہ فاطر السمٰوات والارض تمہاری بندگی کا حقیقی مستحق ہے ۔ پھر کیا اللہ کے بارے میں تم کو شک ہے؟ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :18 مدت مقرر سے مراد افراد کی موت کا وقت بھی ہو سکتا ہے اور قیامت بھی ۔ جہاں تک قوموں کا تعلق ہے ان کے اٹھنے اور گرنے کے لیے اللہ کے ہاں مدت کا تعین ان کے اوصاف کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے ۔ ایک اچھی قوم اگر اپنے اندر بگاڑ پیدا کر لے تو اس کی مہلت عمل گھٹا دی جاتی ہے اور اسے تباہ کر دیا جاتا ہے ۔ اور ایک بگڑی ہوئی قوم اگر اپنے برے اوصاف کو اچھے اوصاف سے بدل لے تو اس کی مہلت عمل بڑھا دی جاتی ہے ، حتی کہ وہ قیامت تک بھی دراز ہو سکتی ہے ۔ اسی مضمون کی طرف سورہ رعد کی آیت نمبر ۱۱ اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالی کسی قوم کے حال کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اوصاف کو نہ بدل دے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :19 ان کا مطلب یہ تھا کہ تم ہر حیثیت سے بالکل ہم جیسے انسان ہی نظر آتے ہو ۔ کھاتے ہو ، پیتے ہو ، سوتے ہو ، بیوی بچے رکھتے ہو ، بھوک ، پیاس ، بیماری ، دکھ ، سردی ، گرمی ، ہر چیز کے احساس میں اور ہر بشری کمزوری میں ہمارے مشابہ ہو ۔ تمہارے اندر کوئی غیر معمولی پن ہمی نظر نہیں آتا جس کی بنا پر ہم یہ مان لیں کہ تم کوئی پہنچے ہوئے لوگ ہو اور خدا تم سے ہم کلام ہوتا ہے اور فرشتے تمہارے پاس آتے ہیں ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :20 یعنی کوئی ایسی سند جسے ہم آنکھوں سے دیکھیں اور ہاتھوں سے چھوئیں اور جس سے ہم کو یقین آجائے کہ واقعی خدا نے تم کو بھیجا ہے اور یہ پیغام جو تم لائے ہو خدا ہی کا پیغام ہے ۔
کفار اور انبیاء میں مکالمات رسولوں کی اور اور ان کی قوم کے کافروں کی بات چیت بیان ہو رہے ۔ قوم نے اللہ کی عبادت میں شک شبہ کا اظہار کیا اس پر رسولوں نے کہا اللہ کے بارے میں شک ؟ یعنی اس کے وجود میں شک کیسا ؟ فطرت اس کی شاہد عدل ہے انسان کی بنیاد میں اس کا اقرار موجود ہے ۔ عقل سلیم اس کے ماننے پر مجبور ہے ۔ اچھا اگر دلیل کے بغیر اطمینان نہیں تو دیکھ لو کہ یہ آسمان و زمین کیسے پیدا ہو گئے ؟ موجود کے لئے موجد کا ہونا ضروری ہے ۔ انہیں بغیر نمونہ پیدا کرنے والا وہی وحدہ لا شریک لہ ہے اس عالم کی تخلیق تو مطیع و مخلوق ہونا بالکل ظاہر ہے اس سے کیا اتنی موٹی بات بھی سمجھ نہیں آتی ؟ کہ اس کا صانع اس کا خالق ہے اور وہی اللہ تعالیٰ ہے جو ہر چیز کا خالق مالک اور معبود بر حق ہے ۔ یا کیا تمہیں اس کی الوہیت اور اس کی وحدانیت میں شک ہے ؟ جب تمام موجودات کا خالق اور موجود وہی ہے تو پھر عبادت میں تنہا وہی کیوں نہ ہو؟ چونکہ اکثر امتیں خالق کے وجود کے قائل تھیں پھر اوروں کی عبادت انہیں واسطہ اور وسیلہ جان کر اللہ سے نزدیک کرنے والے اور نفع دینے والے سمجھ کر کرتی تھیں اس لئے رسول اللہ انہیں ان کی عبادتوں سے یہ سمجھا کر روکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی طرف بلا رہا ہے کہ آخرت میں تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو وقت مقرر ہے اس تک تمہیں اچھائی سے پہنچا دے ہر ایک فضیلت والے کو وہ اس کی فضیلت عنایت فرمائے گا ۔ اب امتوں نے پہلے مقام کو تسلیم کرنے کے بعد جواب دیا کہ تمہاری رسالت ہم کیسے مان لیں تم میں انسانیت تو ہم جیسی ہی ہے اچھا اگر سچے ہو تو زبردست معجزہ پیش کرو جو انسانی طاقت سے باہر ہو ؟ اس کے جواب میں پیغمبران رب نے فرمایا کہ یہ تو بالکل مسلم ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں ۔ لیکن رسالت و نبوت اللہ کا عطیہ ہے وہ جسے چاہے دے ۔ انسانیت رسالت کے منافی نہیں ۔ اور جو چیز تم ہمارے ہاتھوں سے دیکھنا چاہتے ہو اس کی نسبت بھی سن لو کہ وہ ہمارے بس کی بات نہیں ہاں ہم اللہ سے طلب کریں گے اگر ہماری دعا مقبول ہوئی تو بیشک ہم دکھا دیں گے مومنوں کو تو ہر کام میں اللہ ہی پر توکل ہے ۔ اور خصوصیت کے ساتھ ہمیں اس پر زیادہ توکل اور بھروسہ ہے اس لئے بھی کہ اس نے تمام راہوں میں سے بہترین راہ دکھائی ۔ تم جتنا چاہو دکھ دو لیکن انشاء اللہ دامن توکل ہمارے ہاتھ سے چھوٹنے کا نہیں ۔ متوکلین کے گروہ کے لئے اللہ کا توکل کافی وافی ہے ۔