Surah

Information

Surah # 14 | Verses: 52 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 72 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 29, from Madina
اَلَمۡ يَاۡتِكُمۡ نَبَـؤُا الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوۡدَ‌  ۛؕ وَالَّذِيۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ ‌ۛؕ لَا يَعۡلَمُهُمۡ اِلَّا اللّٰهُ‌ؕ جَآءَتۡهُمۡ رُسُلُهُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ فَرَدُّوۡۤا اَيۡدِيَهُمۡ فِىۡۤ اَفۡوَاهِهِمۡ وَقَالُوۡۤا اِنَّا كَفَرۡنَا بِمَاۤ اُرۡسِلۡـتُمۡ بِهٖ وَاِنَّا لَفِىۡ شَكٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَـنَاۤ اِلَيۡهِ مُرِيۡبٍ‏ ﴿9﴾
کیا تمہارے پاس تم سے پہلے کے لوگوں کی خبریں نہیں آئیں؟ یعنی قوم نوح کی اور عاد و ثمود کی اور ان کے بعد والوں کی جنہیں سوائے اللہ تعالٰی کے اور کوئی نہیں جانتا ان کے پاس ان کے رسول معجزے لائے لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ میں دبا لیے اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمیں تو اس میں بڑا بھاری شبہ ہے ۔
الم ياتكم نبؤا الذين من قبلكم قوم نوح و عاد و ثمود و الذين من بعدهم لا يعلمهم الا الله جاءتهم رسلهم بالبينت فردوا ايديهم في افواههم و قالوا انا كفرنا بما ارسلتم به و انا لفي شك مما تدعوننا اليه مريب
Has there not reached you the news of those before you - the people of Noah and 'Aad and Thamud and those after them? No one knows them but Allah . Their messengers brought them clear proofs, but they returned their hands to their mouths and said, "Indeed, we disbelieve in that with which you have been sent, and indeed we are, about that to which you invite us, in disquieting doubt."
Kiya tumharay pass tum say pehlay kay logon ki khabren nahi aaen? Yani qom-e-nooh ki aur aad-o-samood ki aur unn kay baad walon ki jinhen siwaye Allah Taalaa kay aur koi nahi janta unn kay pass unn kay rasool moajzzay laye lekin unhon ney apney hath apney mun mein daba liye aur saaf keh diya kay jo kuch tumhen dey ker bheja gaya hai hum uss kay munkir hain aur jiss cheez ki taraf tum humen bula rahey ho humen to iss mein bara bhari shuba hai.
۔ ( اے کفار مکہ ) کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچتی جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں ، قوم نوح ، عاد ، ثمود اور ان کے بعد آنے والی قومیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ ( ٥ ) ان سب کے پاس ان کے رسول کھلے کھلے دلائل لے کر آئے ، تو انہوں نے ان کہ منہ پر اپنے ہاتھ رکھ دیے ، ( ٦ ) اور کہا کہ : جو پیغام تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے ، ہم اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ، اور جس بات کی تم ہمیں دعوت دے رہے ہو ، اس کے بارے میں ہمیں بڑا بھاری شک ہے ۔
کیا تمہیں ان کی خبریں نہ آئیں جو تم سے پہلے تھی نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور جو ان کے بعد ہوئے ، انھیں اللہ ہی جانے ( ف۱۹ ) ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لے کر آئے ( ف۲۰ ) تو وہ اپنے ہاتھ ( ف۲۱ ) اپنے منہ کی طرف لے گئے ( ف۲۲ ) اور بولے ہم منکر ہیں اس کے جو تمہارے ہاتھ بھیجا گیا اور جس راہ ( ف۲۳ ) کی طرف ہمیں بلاتے ہو اس میں ہمیں وہ شک ہے کہ بات کھلنے نہیں دیتا ،
کیا تمہیں 14 ان قوموں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں؟ قوم نوح ( علیہ السلام ) ، عاد ، ثمود اور ان کے بعد آنے والی بہت سی قومیں جن کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے؟ ان کے رسول جب ان کے پاس صاف صاف باتیں اور کھلی کھلی نشانیاں لیے ہوئے آئے تو انہوں نے اپنے منہ میں ہاتھ دبا لیے15 اور کہا کہ جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو اس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔ 16
کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں ، ( وہ ) قومِ نوح اور عاد اور ثمود ( کی قوموں کے لوگ ) تھے اور ( کچھ ) لوگ جو ان کے بعد ہوئے ، انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ( کیونکہ وہ صفحۂ ہستی سے بالکل نیست و نابود ہو چکے ہیں ) ، ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیوں کے ساتھ آئے تھے پس انہوں نے ( اَز راہِ تمسخر و عناد ) اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں ڈال لئے اور ( بڑی جسارت کے ساتھ ) کہنے لگے: ہم نے اس ( دین ) کا انکار کر دیا جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو اور یقیناً ہم اس چیز کی نسبت اضطراب انگیز شک میں مبتلا ہیں جس کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :15 ان الفاظ کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان بہت کچھ اختلاف پیش آیا ہے اور مختلف لوگوں نے مختلف معنی بیان کیے ہیں ۔ ہمارے نزدیک ان کا قریب ترین مفہوم وہ ہے جسے ادا کرنے کے لیے ہم اردو میں کہتے ہیں کانوں پر ہاتھ رکھے ، یا دانتوں میں انگلی دبائی ۔ اس لیے کہ بعد کا فقرہ صاف طور پر انکار اور اچنبھے ، دونوں مضامین پر مشتمل ہے اور کچھ اس میں غصے کا انداز بھی ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :16 ”یعنی ایسا شک جس کی وجہ سے اطمینان رخصت ہو گیا ہے ۔ یہ دعوت حق کا خاصہ ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو اس کی وجہ سے ایک کھلبلی ضرور مچ جاتی ہے اور انکار و مخالفت کر نے والے بھی اطمینان کے ساتھ نہ اس کا انکار کر سکتے ہیں نہ اس کی مخالفت ۔ وہ چاہے کتنی ہی شدت کے ساتھ اسے رد کریں اور کتنا ہی زور اس کی مخالفت میں لگائیں ، دعوت کی سچائی ، اس کی معقول دلیلیں ، اس کی کھر کھری اور بے لاگ باتیں ، اس کی دل موہ لینے والی زبان ، اس کے داعی کی بے داغ سیرت ، اس پر ایمان لانے والوں کی زندگیوں کا صریح انقلاب ، اور اپنے صدق مقال کے عین مطابق ان کے پاکیزہ اعمال ، یہ ساری چیزیں مل جل کر کٹے سے کٹے مخالف کے دل میں بھی ایک اضطراب پیدا کر دیتی ہیں ۔ داعیان حق کو بے چین کرنے والا خود بھی چین سے محروم ہو جاتا ہے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا باقی وعظ بیان ہو رہا ہے کہ آپ نے اپنی قوم کو اللہ کی وہ نعمتیں یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو تم سے پہلے کے لوگوں پر رسولوں کے جھٹلانے کی وجہ سے کیسے سخت عذاب آئے ؟ اور کس طرح وہ غارت کئے گئے ؟ یہ قول تو ہے امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا لیکن ذرا غور طلب ہے ۔ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ وعظ تو ختم ہو چکا اب یہ نیا بیان قرآن ہے ۔ کہا گیا ہے کہ عادیوں اور ثمودیوں کے واقعات تورات شریف میں تھے اور یہ دونوں واقعات بھی تورات میں تھے واللہ اعلم ۔ فی الجملہ ان لوگوں کے اور ان جیسے اور بھی بہت سے لوگوں کے واقعات قرآن کریم میں ہمارے سامنے بیان ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے پیغمبر اللہ کی آیتیں اور اللہ کے دیئے ہوئے معجزے لے کر پہنچے ان کی گنتی کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں نسب کے بیان کرنے والے غلط گو ہیں بہت سے لوگوں کے واقعات قرآن کریم میں ہمارے سامنے بیان ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے پیغمبر اللہ کی آیتیں اور اللہ کے دیئے ہوئے معجزے لے کر پہنچے ان کی گنتی کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ۔ ، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں نسب کے بیان کرنے والے غلط گو ہیں بہت سی امتیں ایسی بھی گزری ہیں جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ۔ عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ معد بن عدنان کے بعد کا نسب نامہ صحیح طور پر کوئی نہیں جانتا ۔ وہ اپنے ہاتھ ان کے منہ تک لوٹا لیے گئے کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ رسولوں کے منہ بند کرنے لگے ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکھنے لگے کہ محض جھوٹ ہے جو رسول کہتے ہیں ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جواب سے لاچار ہو کر انگلیاں منہ پر رکھ لیں ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اپنے منہ سے انہیں جھٹلانے لگے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں پر فی معنی میں بے کے ہو جیسے بعض عرب کہتے ہیں ادخلک اللہ بالجنۃ یعنی فی الجنۃ شعر میں بھی یہ محاورہ مستعمل ہے ۔ اور بقول مجاہد اس کے بعد کا جملہ اسی کی تفسیر ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے مارے غصے کے اپنی انگلیاں اپنے منہ میں ڈال لیں ۔ چنانچہ اور آیت میں منافقین کے بارے میں ہے کہ آیت ( وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۭ قُلْ مُوْتُوْا بِغَيْظِكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ١١٩؁ ) 3-آل عمران:119 ) یہ لوگ خلوت میں تمہاری جلن سے اپنی انگلیاں چباتے رہتے ہیں ۔ یہ بھی ہے کہ کلام اللہ سن کر تعجب سے اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکھ دیتے ہیں اور کہہ گزرتے ہیں کہ ہم تو تمہاری رسالت کے منکر ہیں ہم تمہیں سچا نہیں جانتے بلکہ سخت شبہ میں ہیں ۔