اور موسیٰ نے کہا تھا کہ : اگر تم اور زمین پر بسنے والے تمام لوگ بھی ناشکری کریں ، تو ( اللہ کا کوئی نقصان نہیں ، کیونکہ ) اللہ بڑا بے نیاز ہے ، بذات خود قابل تعریف ۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :13
اس جگہ حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کے معاملہ کی طرف یہ مختصر اشارہ کرنے سے مقصود اہل مکہ کو یہ بتانا ہے کہ اللہ جب کسی قوم پر احسان کرتا ہے اور جواب میں وہ قوم نمک حرامی اور سرکشی دکھاتی ہے تو پھر ایسی قوم کو وہ عبرتناک انجام دیکھنا پڑتا ہے جو تمہاری آنکھوں کے سامنے بنی اسرائیل دیکھ رہے ہیں ۔ اب کیا تم بھی خدا کی نعمت اور اس کے احسان کا جواب کفران نعمت سے دے کر یہی انجام دیکھنا چاہتے ہو؟ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اللہ تعالی اپنی جس نعمت کی قدر کرنے کا یہاں قریش سے مطالبہ فرما رہا ہے وہ خصوصیت کے ساتھ اس کی یہ نعمت ہے کہ اس نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے درمیان پیدا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ان کے پاس وہ عظیم الشان تعلیم بھیجی جس کے متعلق حضور بار بار قریش سے فرمایا کرتے تھے کہ کلمۃ واحدۃ تعطونیہا تملکون بہا العرب وتدین لکم بھا العجم ۔ میری ایک بات لو ، عرب اور عجم سب تمہارے تابع ہوجائیں گے ۔