Surah

Information

Surah # 14 | Verses: 52 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 72 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 29, from Madina
وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِرُسُلِهِمۡ لَـنُخۡرِجَنَّكُمۡ مِّنۡ اَرۡضِنَاۤ اَوۡ لَـتَعُوۡدُنَّ فِىۡ مِلَّتِنَا‌ ؕ فَاَوۡحٰۤى اِلَيۡهِمۡ رَبُّهُمۡ لَــنُهۡلِكَنَّ الظّٰلِمِيۡنَۙ‏ ﴿13﴾
کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ ۔ تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہی غارت کر دیں گے ۔
و قال الذين كفروا لرسلهم لنخرجنكم من ارضنا او لتعودن في ملتنا فاوحى اليهم ربهم لنهلكن الظلمين
And those who disbelieved said to their messengers, "We will surely drive you out of our land, or you must return to our religion." So their Lord inspired to them, "We will surely destroy the wrongdoers.
Kafiron ney apney rasoolon say kaha kay hum tumhen mulk badar ker den gay ya tum phir say humaray mazhab mein lot aao. To unn kay perwerdigar ney unn ki taraf waahee bheji kay hum inn zalimon ko hi ghaarat ker den gay.
اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا تھا ، انہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ : ہم تمہیں اپنی سرزمین سے نکال کر رہیں گے ، ورنہ تمہیں ہمارے دین میں واپس آنا پڑے گا ۔ چنانچہ ان کے پروردگار نے ان پر وحی بھیجی کہ : یقین رکھو ، ہم ان ظالموں کو ہلاک کردیں گے ۔
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم ضرور تمہیں اپنی زمین ( ف۳۵ ) سے نکال دیں گے یا تم ہمارے دین پر کچھ ہوجاؤ ، تو انھیں ان کے رب نے وحی بھیجی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے
آخرکار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ یا تو تمہیں ہماری ملّت میں واپس آنا ہوگا 22 ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے ۔ تب ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہلاک کر دیں گے ،
اور کافر لوگ اپنے پیغمبروں سے کہنے لگے: ہم بہرصورت تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے یا تمہیں ضرور ہمارے مذہب میں لوٹ آنا ہوگا ، تو ان کے رب نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :22 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انبیاء علیہم السلام منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے اپنی گمراہ قوموں کی ملت میں شامل ہوا کرتے تھے ، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبوت سے پہلے چونکہ وہ ایک طرح کی خاموش زندگی بسر کرتے تھے ، کسی دین کی تبلیغ اور کسی رائج الوقت دین کی تردید نہیں کرتے تھے ، اس لیے ان کی قوم یہ سمجھتی تھی کہ وہ ہماری ہی ملت میں ہیں ، اور نبوت کا کام شروع کر دینے کے بعد ان پر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ ملت آبائی سے نکل گئے ہیں ۔ حالانکہ وہ نبوت سے پہلے بھی کبھی مشرکین کی ملت میں شامل نہ ہوئے تھے کہ اس سے خروج کا الزام ان پر لگ سکتا ۔
آل لوط کافر جب تنگ ہوئے ، کوئی حجت باقی نہ رہی تو نبیوں کو دھمکانے لگے اور دیس نکالنے سے ڈرانے لگے ۔ قوم شعیب نے بھی اپنے نبی اور مومنوں سے یہی کہا تھا کہ ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ۔ لوطیوں نے بھی یہی کہا تھا کہ آل لوط کو اپنے شہر سے نکال دو ۔ وہ اگرچہ مکر کرتے تھے لیکن اللہ بھی ان کے داؤ میں تھا ۔ اپنے نبی کو سلامتی کے ساتھ مکے سے لے گیا مدینے والوں کو آپ کا انصار و مددگار بنا دیا وہ آپ کے لشکر میں شامل ہو کر آپ کے جھنڈے تلے کافروں سے لڑے اور بتدریج اللہ تعالیٰ نے آپ کو ترقیاں دیں یہاں تک کہ بالاخر آپ نے مکہ بھی فتح کر لیا اب تو دشمنان دین کے منصوبے خاک میں مل گئے ان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی ان کی آرزویں پامال ہو گئیں ۔ اللہ کا دین لوگوں کے دلوں میں مضبوط ہو گیا ، جماعتوں کی جماعتیں دین میں داخل ہونے لگیں ، تمام روئے زمین کے ادیان پر دین اسلام چھا گیا ، کلمہ حق بلند و بالا ہو گیا اور تھوڑے سے زمانے میں مشرق سے مغرب تک اشاعت اسلام ہو گئی فالحمد للہ ۔ یہاں فرمان ہے کہ ادھر کفار نے نبیوں کو دھمکایا ادھر اللہ نے ان سے سچا وعدہ فرمایا کہ یہی ہلاک ہوں گے اور زمین کے مالک تم بنو گے ۔ جسے فرمان ہے کہ ہمارا کلمہ ہمارے رسولوں کے بارے میں سبقت کر چکا ہے کہ وہی کامیاب ہوں گے اور ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا اور آیت میں ہے آیت ( كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ 21؀ ) 58- المجادلة:21 ) اللہ لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ہی غالب آئیں گے ، اللہ قوت والا اور عزت والا ہے ۔ اور آیت میں ارشاد ہے کہ ذکر کے بعد زبور میں بھی یہی تحریر ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا کہ تم اللہ سے مدد طلب کرو ، صبر و برداشت کرو ، زمین اللہ ہی کی ہے ۔ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے وارث بنائے انجام کار پرہیز گاروں کا ہی ہے ۔ اور جگہ ارشاد ہے ۔ آیت ( وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا ١٣٧؁ ) 7- الاعراف:137 ) ضعیف اور کمزور لوگوں کو ہم نے زمین کی مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جہاں ہماری برکتیں تھیں بنی اسرائیل کے صبر کی وجہ سے ہمارا ان سے جو بہترین وعدہ تھا وہ پورا ہو گیا ان کے دشمن فرعون اور فرعونی اور ان کی تمام تیاریاں سب یکمشت خاک میں مل گئیں ۔ نبیوں سے فرما دیا گیا کہ یہ زمین تمہارے قبضے میں آئے گی یہ وعدے ان کے لئے ہیں جو قیامت کے دن میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہیں اور میرے ڈراوے اور عذاب سے خوف کھاتے رہیں ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت ( فَاَمَّا مَنْ طَغٰى 37؀ۙ ) 79- النازعات:37 ) ، یعنی جس نے سرکشی اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی اس کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ اور آیت میں ہے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف جس نے کیا اسے دوہری جنتیں ہیں ۔ رسولوں نے اپنے رب سے مدد و فتح اور فیصلہ طلب کیا یا یہ کہ ان کی قوم نے اسے طلب کیا جیسے قریش مکہ نے کہا تھا کہ الہٰی اگر یہ حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا اور کوئی درد ناک عذاب ہمیں کر ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ادھر سے کفار کا مطالبہ ہوا ادھر سے رسولوں نے بھی اللہ سے دعا کی جیسے بدر والے دن ہوا تھا کہ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگ رہے تھے دوسری جانب سرداران کفر بھی کہہ رہے تھے کہ الہٰی آج سچے کو غا لب کر یہی ہوا بھی ۔ مشرکین سے کلام اللہ میں اور جگہ فرمایا گیا ہے کہ تم فتح طلب کیا کرتے تھے لو اب وہ آ گئی اب بھی اگر باز آ جاؤ تو تمہارے حق میں بہتر ہے الخ نقصان یافتہ وہ ہیں جو متکبر ہوں اپنے تئیں کچھ گنتے ہوں حق سے عناد رکھتے ہوں قیامت کے روز فرمان ہو گا کہ ہر ایک کافر سر کش اور بھلائی سے روکنے والے کو جہنم میں داخل کرو جو اللہ کے ساتھ دوسروں کی پوجا کرتا تھا اسے سخت عذاب میں لے جاؤ ۔ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن جہنم کو لایا جائے گا وہ تمام مخلوق کو ندا کر کے کہے گی کہ میں ہر ایک سر کش ضدی کے لئے مقرر کی گئی ہوں ۔ الخ اس وقت ان بد لوگوں کا کیا ہی برا حال ہو گا جب کہ انبیا تک اللہ کے سا منے گڑگڑا رہے ہوں گے ۔ وراء یہاں پر معنی امام سامنے کے ہیں جیسے آیت ( وکان ورائھم ملک ) میں ہے ابن عباس کی قرأت ہی وکان امامھم ملک ہے غرض سامنے سے جہنم اس کی تاک میں ہو گی جس میں جا کر پھر نکلنا ناممکن ہو گا قیامت کے دن تک تو صبح شام وہ پیش ہوتی رہی اب وہی ٹھکانا بن گئی پھر و ہاں اس کے لئے پانی کے بدلے آگ جیسا پیپ ہے اور حد سے زیادہ ٹھنڈا اور بدبو دار وہ پانی ہے جو جہنمیوں کے زخموں سے رستا ہے ۔ جیسے فرما آیت ( ھٰذَا ۙ فَلْيَذُوْقُوْهُ حَمِيْمٌ وَّغَسَّاقٌ 57؀ۙ ) 38-ص:57 ) پس ایک گرمی میں حد سے گزرا ہوا ایک سردی میں حد سے گزرا ہوا ۔ صدید کہتے ہیں پیپ اور خون کو جو دوزخیوں کے گوشت سے اور ان کی کھالوں سے بہا ہوا ہو گا ۔ اسی کو طینۃ الخبال بھی کہا جاتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ جب اس کے پاس لایا جائے گا تو اسے سخت تکلیف ہو گی منہ کے پاس پہنچتے ہی سارے چہرے کی کھال جھلس کر اس میں گر پڑے گی ۔ ایک گھونٹ لیتے ہی پیٹ کی آنتیں پاخانے کے راستے باہر نکل پڑیں گی ۔ اللہ کا فرمان ہے کہ وہ کھولتا ہوا گرم پانی پلائے جائیں گے جو چہرہ جھلسا دے الخ ۔ جبرا گھونٹ گھونٹ کر کے اتارے گا ، فرشتے لو ہے کے گرز مار مار کر پلائیں گے ، بدمزگی ، بدبو ، حرارت ، گرمی کی تیزی یا سردی کی تیزی کی وجہ سے گلے سے اترنا محال ہو گا ۔ بدن میں ، اعضا میں ، جوڑ جوڑ میں وہ درد اور تکلیف ہو گی کہ موت کا مزہ آئے لیکن موت آنے کی نہیں ۔ رگ رگ پر عذاب ہے لیکن جان نہیں نکلتی ۔ ایک ایک رواں ناقابل برداشت مصیبت میں جکڑا ہوا ہے لیکن روح بدن سے جدا نہیں ہو سکتی ۔ آگے پیچھے دائیں بائیں سے موت آ رہی ہے لیکن آتی نہیں ۔ طرح طرح کے عذاب دوزخ کی آگ گھیرے ہوئے ہے مگر موت بلائے سے بھی نہیں آتی ۔ نہ موت آئے نہ عذاب جائے ۔ ہر سزا ایسی ہے کہ موت کے لئے کافی سے زیادہ ہے لیکن وہاں تو موت کو موت آ گئی ہے تاکہ سزا دوام والی ہوتی رہے ۔ ان تمام باتوں کے ساتھ پھر سخت تر مصیبت ناک الم افزا عذاب اور ہیں ۔ جیسے زقوم کے درخت کے بارے میں فرمایا کہ وہ جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے جس کے شگوفے شیطانوں کے سروں جیسے ہیں وہ اسے کھائیں گے اور پیٹ بھر کے کھائیں گے پھر کھولتا ہوا تیز گرم پانی پیٹ میں جا کر اس سے ملے گا پھر ان کا لوٹنا جہنم کی جانب ہے ۔ الغرض کبھی زقوم کھانے کا کبھی آگ میں جلنے کا کبھی صدید پینے کا عذاب انہیں ہوتا رہے گا ۔ اللہ کی پناہ ۔ فرمان رب عالیشان ہے آیت ( هٰذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِيْ يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُوْنَ 43۝ۘ ) 55- الرحمن:43 ) یہی وہ جہنم ہے جسے کافر جھٹلاتے رہے ۔ آج جہنم کے اور ابلتے ہوئے تیز گرم پانی کے درمیان وہ چکر کھاتے پھریں گے ۔ اور آیت میں ہے کہ زقوم کا درخت گنہگاروں کی غذا ہے جو پگھلتے ہوئے تانبے جیسا ہوگا ، پیٹ میں جا کر ابلے گا اور ایسے جوش مارے گا جیسے گرم پانی کھول رہا ہو ۔ اسے پکڑو اور اسے بیچ جہنم میں ڈال دو پھر اس کے سر پر گرم پانی کے تریڑے کا عذاب بہاؤ مزہ چکھ تو اپنے خیال میں بڑا عزیز تھا اور اکرام والا تھا یہی جس سے تم ہمیشہ شک شبہ کرتے رہے ۔ سورہ واقعہ میں فرمایا کہ وہ لوگ جن کے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دئے جائیں گے یہ بائیں ہاتھ والے کیسے بد لوگ ہیں گرم ہوا اور گرم پانی میں پڑے ہوئے ہوں گے اور دھوئیں کے سائے میں جو نہ ٹھنڈا نہ باعزت دوسری آیت میں ہے سرکشوں کے لئے جہنم کا برا ٹھکانا ہے جس میں داخل ہوں گے اور وہ رہائش کی بدترین جگہ ہے اس مصیبت کے ساتھ تیز گرم پانی اور پیپ لہو اور اسی کے ہم شکل اور بھی قسم قسم کے عذاب ہوں گے جو دوزخیوں کو بھگتنے پڑیں گے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہو گا نہ کہ اللہ کا ظلم ۔