Surah

Information

Surah # 14 | Verses: 52 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 72 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 29, from Madina
وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيۡثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيۡثَةٍۨاجۡتُثَّتۡ مِنۡ فَوۡقِ الۡاَرۡضِ مَا لَهَا مِنۡ قَرَارٍ‏ ﴿26﴾
اور ناپاک بات کی مثال گندے درخت جیسی ہے جو زمین کے کچھ ہی اوپر سے اکھاڑ لیا گیا ۔ اسے کچھ ثبات تو ہے نہیں ۔
و مثل كلمة خبيثة كشجرة خبيثة اجتثت من فوق الارض ما لها من قرار
And the example of a bad word is like a bad tree, uprooted from the surface of the earth, not having any stability.
Aur na pak baat ki misal ganday darakht jaisi hai jo zamin kay kuch hi upper say ukhaar liya gaya. Issay kuch sabaat to hai hi nahi.
اور ناپاک کلمے کی مثال ایک خراب درخت کی طرح ہے جسے زمین کے اوپر ہی اوپر سے اکھاڑ لیا جائے ، اس میں ذرا بھی جماؤ نہ ہو ۔ ( ٢٠ )
اور گندی بات ( ف٦۵ ) کی مثال جیسے ایک گندہ پیڑ ( ف٦٦ ) کہ زمین کے اوپر سے کاٹ دیا گیا اب اسے کوئی قیام نہیں ( ف٦۷ )
اور کلمہ خبیثہ 37 کی مثال ایک بدذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے ، اس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے ۔ 38
اور ناپاک بات کی مثال اس ناپاک درخت کی سی ہے جسے زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے ، اسے ذرا بھی قرار ( و بقا ) نہ ہو
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :37 ” یہ لفظ کلمہ طیبہ کی ضد ہے جس کا اطلاق اگرچہ ہر خلاف حقیقت اور مبنی بر غلط قول پر ہو سکتا ہے ، مگر یہاں اس سے مراد ہر وہ باطل عقیدہ ہے جس کو انسان اپنے نظام زندگی کی بنیاد بنائے ، عام اس سے کہ وہ دہریت ہو ، الحاد و زندقہ ہو ، شرک و بت پرستی ہو ، یا کوئی اور ایسا تخیل جو انبیاء علیہم السلام کے واسطے سے نہ آیا ہو ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :38 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ عقیدہ باطل چونکہ حقیقت کے خلاف ہے اس لیے قانون فطرت کہیں بھی اس سے موافقت نہیں کرتا ۔ کائنات کا ہر ذرہ اس کی تکذیب کرتا ہے ۔ زمین و آسمان کی ہر شے اس کی تردید کرتی ہے ۔ زمین میں اس کا بیج بونے کی کوشش کی جائے تو ہر وقت وہ اسے اگلنے کے لیے تیار رہتی ہے ۔ آسمان کی طرف اس کی شاخیں بڑھنا چاہیں تو وہ انہیں نیچے دھکیلتا ہے ۔ انسان کو اگر امتحان کی خاطر انتخاب کی آزادی اور عمل کی مہلت نہ دی گئی ہوتی تو یہ بدذات درخت کہیں اگنے ہی نہ پاتا ۔ مگر چونکہ اللہ تعالی نے ابن آدم کو اپنے رحجان کے مطابق کام کرنے کا موقع عطا کیا ہے ، اس لیے جو نادان لوگ قانون فطرت سے لڑ بھڑ کر یہ درخت لگانے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کے زور مارنے سے زمین اسے تھوڑی بہت جگہ دے دیتی ہے ، ہوا اور پانی سے کچھ نہ کچھ غذا بھی اسے مل جاتی ہے ، اور فضا بھی اس کی شاخوں کے پھیلنے کے لیے بادل ناخواستہ کچھ موقع دینے پر آمادہ ہو جاتی ہے ۔ لیکن جب تک یہ درخت قائم رہتا ہے کڑوے ، کسیلے ، زہریلے پھل دیتا رہتا ہے ، اور حالات کے بدلتے ہی حوادث کا ایک جھٹکا اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے ۔ کلمہ طیبہ اور کلمات خبیثہ کے اس فرق کو ہر وہ شخص بآسانی محسوس کر سکتا ہے جو دنیا کی مذہبی ، اخلاقی ، فکری اور تمدنی تاریخ کا مطالعہ کرے ۔ وہ دیکھے گا کہ آغاز تاریخ سے آج تک کلمہ طیبہ تو ایک ہی رہا ہے ، مگر کلمات خبیثہ بے شمار پیدا ہو چکے ہیں ۔ کلمہ طیبہ کبھی جڑ سے نہ اکھاڑا جا سکا ، مگر کلمات خبیثہ کی فہرست ہزاروں مردہ کلمات کے ناموں سے بھری پڑی ہے ، حتی کہ ان میں سے بہتوں کا حال یہ ہے کہ آج تاریخ کے صفحات کے سوا کہیں ان کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا ۔ اپنے زمانے میں جن کلمات کا بڑا زور و شور رہا ہے آج ان کا ذکر کیا جائے تو لوگ حیران رہ جائیں کہ کبھی انسان ایسی ایسی حماقتوں کا بھی قائل رہ چکا ہے ۔ پھر کلمہ طیبہ کو جب ، جہاں ، جس شخص یا قوم نے بھی صحیح معنوں میں اپنایا اس کی خوشبو سے اس کا ماحول معطر ہوگیا اور اس کی برکتوں سے صرف اسی شخص یا قوم نے فائدہ نہیں اٹھایا ، بلکہ اس کے گردوپیش کی دنیا بھی ان سے مالا مال ہوگئی ۔ مگر کسی کلمہ خبیث نے جہاں جس انفرادی یا اجتماعی زندگی میں بھی جڑ پکڑی اس کی سڑاند سے سارا ماحول متعفن ہو گیا ۔ اور اس کے کانٹوں کی چبھن سے نہ اس کا ماننے والا امن میں رہا ، نہ کوئی ایسا شخص جس کو اس سے سابقہ پیش آیا ہو ۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں تمثیل کے پیرایہ میں اسی مضمون کو سمجھایا گیا ہے جو آیت ۱۸ میں یوں بیان ہوا تھا کہ ” اپنے رب سے کفر کرنے والوں کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو “ ۔ اور یہی مضمون اس سے پہلے سورہ رعد آیت ۱۷ میں ایک دوسرے انداز سیلاب اور پگھلائی ہوئی دھاتوں کی تمثیل میں بیان ہوچکا ہے ۔