[It will be] on the Day the earth will be replaced by another earth, and the heavens [as well], and all creatures will come out before Allah , the One, the Prevailing.
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :57
اس آیت سے اور قرآن کے دوسرے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں زمین و آسمان بالکل نیست و نابود نہیں ہو جائیں گے بلکہ صرف موجودہ نظام طبیعی کو درہم برہم کر ڈالا جائے گا ۔ اس کے بعد نفخ صور اول اور نفخ صور آخر کے درمیان ایک خاص مدت میں ، جسے اللہ تعالی ہی جانتا ہے ، زمین اور آسمانوں کی موجودہ ہیئت بدل دی جائے گی اور ایک دوسرا نظام طبیعت ، دوسرے قوانین فطرت کے ساتھ بنا دیا جائے گا ۔ وہی عالم آخرت ہوگا ۔ پھر نفخ صور آخر کے ساتھ ہی تمام وہ انسان جو تخلیق آدم سے لے کر قیامت تک پیدا ہوئے تھے ، از سر نو زندہ کیے جائیں گے اور اللہ تعالی کے حضور پیش ہوں گے ۔ اسی کا نام قرآن کی زبان میں حشر ہے جس کے لغوی معنی سمیٹنے اور اکٹھا کرنے کے ہیں ۔ قرآن کے اشارات اور حدیث کی تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ حشر اسی زمین پر برپا ہوگا ، یہیں عدالت قائم ہوگی ، یہیں میزان لگائی جائے گی اور قضیہ زمین برسر زمین ہی چکایا جائے گا ۔ نیز یہ بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ ہماری وہ دوسری زندگی جس میں یہ معاملات پیش آئیں گے محض روحانی نہیں ہوگی بلکہ ٹھیک اسی طرح جسم و روح کے ساتھ ہم زندہ کیے جائیں گے جس طرح آج زندہ ہیں ، اور ہر شخص ٹھیک اسی شخصیت کے ساتھ وہاں موجود ہوگا جسے لیے ہو ئے وہ دنیا سے رخصت ہوا تھا ۔