Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُتِبَ عَلَيۡكُمُ الۡقِصَاصُ فِى الۡقَتۡلٰى  ؕ الۡحُرُّ بِالۡحُـرِّ وَالۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَالۡاُنۡثَىٰ بِالۡاُنۡثٰىؕ فَمَنۡ عُفِىَ لَهٗ مِنۡ اَخِيۡهِ شَىۡءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَاَدَآءٌ اِلَيۡهِ بِاِحۡسَانٍؕ ذٰلِكَ تَخۡفِيۡفٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَرَحۡمَةٌ  ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰى بَعۡدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِيۡمٌۚ‏ ﴿178﴾
اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے ، آزاد ، آزاد کے بدلے غلام غلام کے بدلے عورت عورت کے بدلے ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہوگا ۔
يايها الذين امنوا كتب عليكم القصاص في القتلى الحر بالحر و العبد بالعبد و الانثى بالانثى فمن عفي له من اخيه شيء فاتباع بالمعروف و اداء اليه باحسان ذلك تخفيف من ربكم و رحمة فمن اعتدى بعد ذلك فله عذاب اليم
O you who have believed, prescribed for you is legal retribution for those murdered - the free for the free, the slave for the slave, and the female for the female. But whoever overlooks from his brother anything, then there should be a suitable follow-up and payment to him with good conduct. This is an alleviation from your Lord and a mercy. But whoever transgresses after that will have a painful punishment.
Aey eman walon! Tum per maqtoolon ka qisass lena farz kiya gaya hai aazad aazad kay badlay ghulam ghulam kay badlay aurat aurat kay badlay. Haan jiss kissi ko uss kay bhai kay badlay moafi dey di jaye ussay bhalaee ki ittaba kerni chahaiye aur aasani kay sath deeyat ada kerni chahaiye. Tumharay rab ki taraf say yeh takhfeef aur rehmat hai iss kay baad bhi jo sirkashi keray ussay dard naak azab hoga.
اے ایمان والو ! جو لوگ ( جان بوجھ کر ناحق ) قتل کردییے جائیں ان کے بارے میں تم پر قصاص ( کا حکم ) فرض کردیا گیا ہے ، آزاد کے بدلے آزاد ، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ( ہی کو قتل کیا جائے ) ( ١٠٩ ) ، پھر اگر قاتل کو اس کے بھائی ) یعنی مقتول کے وارث ) کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے ( ١١٠ ) تو معروف طریقے کے مطابق ( خوں بہا کا ) مطالبہ کرنا ( وارث کا ) حق ہے ، اور اسے خوش اسلوبی سے ادا کرنا ( قاتل کا ) فرض ہے ۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک آسانی پیدا کی گئی ہے اور ایک رحمت ہے ، اس کے بعد بھی کوئی زیادتی کرے تو وہ دردناک عذاب کا مستحق ہے ( ١١١ )
اے ایمان والوں تم پر فرض ہے ( ف۳٤۱ ) کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو ( ف۳۱۵ ) آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ( ف۳۱٦ ) تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی ۔ ( ف۳۱۷ ) تو بھلائی سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا ، یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ پر ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے ( ف۳۱۸ ) اس کے لئے دردناک عذاب ہے
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص 176 کا حکم لکھ دیا گیا ہے ۔ آزاد آدمی نےقتل کیا ہو تو آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے ، غلام قاتل ہو تو غلام ہی قتل کیا جائے ، اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص177 لیا جائے ۔ ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو ، 178 تو معروف طریقے179 کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے ۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے ۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے ، 180 اس کے لیے درد ناک سزا ہےـ
اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ ( قصاص ) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کئے جائیں ، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ، پھر اگر اس کو ( یعنی قاتل کو ) اس کے بھائی ( یعنی مقتول کے وارث ) کی طرف سے کچھ ( یعنی قصاص ) معاف کر دیا جائے تو چاہئے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور ( خون بہا کو ) اچھے طریقے سے اس ( مقتول کے وارث ) تک پہنچا دیا جائے ، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے ، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :176 قصاص ، یعنی خون کا بدلہ ، یہ کہ آدمی کے ساتھ وہی کیا جائے ، جو اس نے دوسرے آدمی کے ساتھ کیا ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قاتل نے جس طریقے سے مقتول کو قتل کیا ہو ، اسی طریقے سے اس کو قتل کیا جائے ، بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ جان لینے کا جو فعل اس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے وہی اس کے ساتھ کیا جائے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :177 جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ ایک قوم یا قبیلے کے لوگ اپنے مقتول کے خون کو جتنا قیمتی سمجھتے تھے ، اتنی ہی قیمت کا خون اس خاندان یا قبیلے یا قوم سے لینا چاہتے تھے جس کے آدمی نے اسے مارا ہو ۔ محض مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لے لینے سے ان کا دل ٹھنڈا نہ ہوتا تھا ۔ وہ اپنے ایک آدمی کا بدلہ بیسیوں اور سینکڑوں سے لینا چاہتے تھے ۔ ان کا کوئی معزز آدمی اگر دوسرے گروہ کے کسی چھوٹے آدمی کے ہاتھوں مارا گیا ہو ، تو وہ اصلی قاتل کے قتل کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ قاتل کے قبیلے کا بھی کوئی ویسا ہی معزز آدمی مارا جائے یا اس کے کئی آدمی ان کے مقتول پر سے صدقہ کیے جائیں ۔ برعکس اس کے اگر مقتول ان کی نگاہ میں کوئی ادنیٰ درجے کا شخص اور قاتل کوئی زیادہ قدر و عزت رکھنے والا شخص ہوتا ، تو وہ اس بات کو گوارہ نہ کرتے تھے کہ مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لی جائے ۔ اور یہ حالت کچھ قدیم جاہلیت ہی میں نہ تھی ۔ موجودہ زمانے میں جن قوموں کو انتہائی مہذب سمجھا جاتا ہے ، ان کے باقاعدہ سرکاری اعلانات تک میں بسا اوقات یہ بات بغیر کسی شرم کے دنیا کو سنائی جاتی ہے کہ ہمارا ایک آدمی مارا جائے گا تو ہم قاتل کی قوم کے پچاس آدمیوں کی جان لیں گے ۔ اکثر یہ خبریں ہمارے کان سنتے ہیں کہ ایک شخص کے قتل پر مغلوب قوم کے اتنے یرغمالی گولی سے اڑائے گئے ۔ ایک”مہذب“ قوم نے اسی بیسویں صدی میں اپنے ایک فرد ”سرلی اسٹیک“ کے قتل کا بدلہ پوری مصری قوم سے لے کر چھوڑا ۔ دوسری طرف ان نام نہاد مہذب قوموں کی باضابطہ عدالتوں تک کا یہ طرز عمل رہا ہے کہ اگر قاتل حاکم قوم کا فرد ہو اور مقتول کا تعلق محکوم قوم سے ہو ، تو ان کے جج قصاص کا فیصلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ یہی خرابیاں ہیں ، جن کے سد باب کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے ۔ وہ فرماتا ہے کہ مقتول کے بدلے میں صرف قاتل ہی کی جان لی جائے قطع نظر اس سے کہ قاتل کون ہے اور مقتول کون ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :178 ”بھائی“ کا لفظ فرما کر نہایت لطیف طریقے سے نرمی کی سفارش بھی کر دی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اور دوسرے شخص کے درمیان باپ مارے کا بیر ہی سہی ، مگر ہے تو وہ تمہارا انسانی بھائی ۔ لہٰذا اگر اپنے ایک خطا کار بھائی کے مقابلے میں انتقام کے غصے کو پی جاؤ ، تو یہ تمہاری انسانیت کے زیادہ شایان شان ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلامی قانون تعزیرات میں قتل تک کا معاملہ قابل راضی نامہ ہے ۔ مقتول کے وارثوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ قاتل کو معاف کر دیں اور اس صورت میں عدالت کے لیے جائز نہیں کہ قاتل کی جان ہی لینے پر اصرار کرے ۔ البتہ جیسا کہ بعد کی آیت میں ارشاد ہوا ، معافی کی صورت میں قاتل کو خوں بہا ادا کرنا ہوگا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :179 ”مَعْرُوْف“ کا لفظ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے ۔ اس سے مراد وہ صحیح طریق کار ہے ، جس سے بالعموم انسان واقف ہوتے ہیں ، جس کے متعلق ہر وہ شخص ، جس کا کوئی ذاتی مفاد کسی خاص پہلو سے وابستہ نہ ہو ، یہ بول اٹھے کہ بے شک حق اور انصاف یہی ہے اور یہی مناسب طریق عمل ہے ۔ رواج عام ( Common Law ) کو بھی اسلامی اصطلاح میں ”عرف“ اور ”معروف“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ ایسے تمام معاملات میں معتبر ہے ، جن کے بارے میں شریعت نے کوئی خاص قاعدہ مقرر نہ کیا ہو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :180 ( مثلاً ) یہ کہ مقتول کا وارث خوں بہا وصول کر لینے کے بعد پھر انتقام لینے کی کوشش کرے ، یا قاتل خوں بہا ادا کرنے میں ٹال مٹول کرے اور مقتول کے وارث نے جو احسان اس کے ساتھ کیا ہے ، اس کا بدلہ احسان فراموشی سے دے ۔
قصاص کی وضاحت یعنی اے مسلمانوں قصاص کے وقت عدل سے کام لیا کرو آزاد کے بدلے آزاد غلام کے بدلے غلام عورت کے بدلے عورت اس بارے میں حد سے نہ بڑھو جیسے کہ اگلے لوگ حد سے بڑھ گئے اور اللہ کا حکم بدل دیا ، اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں بنوقریظہ اور بنونضیر کی جنگ ہوئی تھی جس میں بنونضیر غالب آئے تھے اب یہ دستور ہو گیا تھا کہ جب نضری کسی قرظی کو قتل کرے تو اس کے بدلے اسے قتل نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ایک سو وسق کھجور دیت میں لی جاتی تھی اور جب کوئی قرظی نضری کو مار ڈالے تو قصاص میں اسے قتل کر دیا تھا اور اگر دیت لی جائے تو دوگنی دیت یعنی دو سو وسق کھجور لی جاتی تھی پس اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی اس رسم کو مٹایا اور عدل ومساوات کا حکم دیا ، ابو حاتم کی روایت میں شان نزول یوں بیان ہوا ہے کہ عرب کے دو قبیلوں میں جدال وقتال ہوا تھا اسلام کے بعد اس کا بدلہ لینے کی ٹھانی اور کہا کہ ہمارے غلام کے بدلے ان کا آزاد قتل ہو اور عورت کے بدلے مرد قتل ہو تو ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی اور یہ حکم بھی منسوخ ہے قرآن فرماتا ہے آیت ( النفس بالنفس ) پس ہر قاتل مقتول کے بدلے مار ڈالا جائے گاخواہ آزاد نے کسی غلام کو قتل کیا ہو خواہ اس کے برعکس ہو خواہ مرد نے عورت کو قتل کیا ہو خواہ اس کے برعکس ہو ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ مرد کو عورت کے بدلے قتل نہیں کرتے تھے جس پر ( اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ۙوَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ) 5 ۔ المائدہ:45 ) نازل ہوئی پس آزاد لوگ سب برابر ہیں جسن کے بدلے جان لی جائے گی خواہ قاتل مرد ہو خواہ عورت ہو اسی طرح مقتول خواہ مرد ہو خواہ عورت ہو جب کہ ایک آزاد انسان نے ایک آزاد انسان کو مار ڈالا ہے تو اسے بھی مار ڈالا جائے گا اسی طرح یہی حکم غلاموں اور لونڈیوں میں بھی جاری ہو گا اور جو کوئی جان لینے کے قصد سے دوسرے کو قتل کرے گا وہ قصاص میں قتل کیا جائے گا اور یہی حکم قتل کے علاوہ اور زخمیوں کا اور دوسرے اعضاء کی بربادی کا بھی ہے ، حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ بھی اس آیت کو آیت ( النفس بالنفس ) سے منسوخ بتلاتے ہیں ۔ ٭مسئلہ٭ امام ابو حنیفہ امام ثوری امام ابن ابی لیلی اور داؤد کا مذہب ہے کہ آزاد نے اگر غلام کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلے وہ بھی قتل کیا جائے گا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت سعید بن جبیر حضرت ابراہیم نخعی حضرت قتادہ اور حضرت حکم کا بھی یہی مذہب ہے ، حضرت امام بخاری ، علی بن مدینی ، ابراہیم نخعی اور ایک اور روایت کی رو سے حضرت ثوری کا بھی مذہب یہی ہے کہ اگر کوئی آقا اپنے غلام کو مار ڈالے تو اس کے بدلے اس کی جان لی جائے گی دلیل میں یہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے ہم اسے قتل کریں گے اور جو شخص اپنے غلام کو نکٹا کرے ہم بھی اس کی ناک کاٹ دیں گے اور جو اسے خصی کرے اس سے بھی یہی بدلہ لیا جائے ، لیکن جمہور کا مذہب ان بزرگوں کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں آزاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ غلام مال ہے اگر وہ خطا سے قتل ہو جائے تو دیت یعنی جرمانہ نہیں دینا پڑتا صرف اس کے مالک کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور اسی طرح اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے نقصان پر بھی بدلے کا حکم نہیں ۔ آیا مسلمان کافر کے بدلے قتل کیا جائے گا یا نہیں؟ اس بارے میں جمہور علماء امت کا مذہب تو یہ ہے کہ قتل نہ کیا جائے گا اور دلیل صحیح بخاری شریف کی یہ حدیث ہے کہ حدیث ( لا یقتل مسلم بکافر ) مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے ، اس حدیث کے خلاف نہ تو کوئی صحیح حدیث ہے کہ کوئی ایسی تاویل ہو سکتی ہے جو اس کے خلاف ہو ، لیکن تاہم صرف امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل کر دیا جائے ۔ مسئلہ٭٭ حضرت حسن بصری اور حضرت عطا کا قول ہے کہ مرد عورت کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور دلیل میں مندرجہ بالا آیت کو پیش کرتے ہیں لیکن جمہور علماء اسلام اس کے خلاف ہیں کیونکہ سورۃ مائدہ کی آیت عام ہے جس میں آیت ( النفس بالنفس ) موجود ہے علاوہ ازیں حدیث شریف میں بھی ہے حدیث ( المسلون تتکافا دماء ھم ) یعنی مسلمانوں کے خون آپس میں یکساں ہیں ، حضرت لیث کا مذہب ہے کہ خاوند اگر اپنی بیوی کو مار ڈالے تو خاصتہ اس کے بدلے اس کی جان نہیں لی جائے ۔ مسئلہ٭٭ چاروں اماموں اور جمہور امت کا مذہب ہے کہ کئی ایک نے مل کر ایک مسلمان کو قتل کیا ہے تو وہ سارے اس ایک کے بدلے قتل کر دئے جائیں گے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک شخص کو سات شخص مل کر مار ڈالتے ہیں تو آپ ان ساتوں کو قتل کراتے ہیں اور فرماتے ہیں اگر صفا کے تمام لوگ بھی اس قتل میں شریک ہوتے تو میں قصاص میں سب کو قتل کرا دیتا ۔ آپ کے اس فرمان کے خلاف آپ کے زمانہ میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اعتراض نہیں کیا پس اس بات پر گویا اجماع ہو گیا ۔ لیکن امام احمد سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ایک کے بدلے ایک ہی قتل کیا جائے زیادہ قتل نہ کیے جائیں ۔ حضرت معاذ حضرت ابن زبیر عبدالملک بن مروان زہری ابن سیرین حبیب بن ابی ثابت سے بھی یہ قول مروی ہے ، ابن المندر فرماتے ہیں یہی زیادہ صحیح ہے اور ایک جماعت کو ایک مقتول کے بدلے قتل کرنے کی کوئی دلیل نہیں اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ وہ اس مسئلہ کو نہیں مانتے تھے پس جب صحابہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہوا تو اب مسئلہ غور طلب ہو گیا ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ اور بات ہے کہ کسی قاتل کو مقتول کا کوئی وارث کچھ حصہ معاف کر دے یعنی قتل کے بدلے وہ دیت قبول کر لے یا دیت بھی اپنے حصہ کی چھوڑ دے اور صاف معاف کر دے ، اگر وہ دیت پر راضی ہو گیا ہے تو قاتل کو مشکل نہ ڈالے بلکہ اچھائی سے دیت وصول کرے اور قاتل کو بھی چاہئے کہ بھلائی کے ساتھ اسے دیت ادا کر دے ، حیل وحجت نہ کرے ۔ مسئلہ٭٭ امام مالک کا مشہور مذہب اور امام ابو حنیفہ اور آپ کے شاگردوں کا اور امام شافعی اور امام احمد کا ایک روایت کی رو سے یہ مذہب ہے کہ مقتول کے اولیاء کا قصاص چھوڑ کر دیت پر راضی ہونا اس وقت جائز ہے جب خود قاتل بھی اس پر آمادہ ہوا لیکن اور بزرگان دین فرماتے ہیں کہ اس میں قاتل کی رضامندی شرط نہیں ۔ مسئلہ٭٭ سلف کی ایک جماعت کہتی ہے کہ عورت قصاص سے درگزر کر کے دیت پر اگر رضامند ہوں تو ان کا اعتبار نہیں ۔ حسن ، قتادہ ، زہرہ ، ابن شبرمہ ، لیث اور اوزاعی کا یہی مذہب ہے لیکن باقی علماء دین ان کے مخالف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی عورت نے بھی دیت پر رضامندی ظاہر کی تو قصاص جاتا رہے گا پھر فرماتے ہیں کہ قتل عمد میں دیت لینا یہ اللہ کی طرف سے تخفیف اور مہربانی ہے اگلی امتوں کو یہ اختیار نہ تھا ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بنی اسرائیل پر قصاص فرض تھا انہیں قصاص سے درگزر کرنے اور دیت لینے کی اجازت نہ تھی لیکن اس مات پر یہ مہربانی ہوئی کہ دیت لینی بھی جائز کی گئی تو یہاں تین چیزیں ہوئیں قصاص دیت اور معانی اگلی امتوں میں صرف قصاص اور معافی ہی تھی دیت نہ تھی ، بعض لوگ کہتے ہیں اہل تورات کے ہوں صرف قصاصا اور معافی تھی اور اہل انجیل کے ہاں صرف معافی ہی تھی ۔ پھر فرمایا جو شخص دیت یعنی جرمانہ لینے کے بعد یا دیت قبول کر لینے کے بعد بھی زیادتی پر تل جائے اس کے لئے سخت دردناک عذاب ہے ۔ مثلاً دیت لینے کے بعد پر قتل کے درپے ہو وغیرہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس شخص کا کوئی مقتول یا مجروح ہو تو اسے تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے یا قصاص یعنی بدلہ لے لے یا درگزر کرے ۔ معاف کر دے یا دیت یعنی جرمانہ لے لے اور اگر کچھ اور کرنا چاہے تو اسے روک دو ان میں سے ایک کرچکنے کے بعد بھی جو زیادتی کرے وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہو جائے گا ( احمد ) دوسری حدیث میں ہے کہ جس نے دیت وصول کر لی پھر قاتل کو قتل کیا تو اب میں اس سے دیت بھی نہ لوں گا بلکہ اسے قتل کروں گا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے عقلمندو قصاص میں نسل انسان کی بقاء ہے اس میں حکمت عظیمہ ہے گو بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک کے بدلے ایک قتل ہوا تو دو مرے لیکن دراصل اگر سوچو تو پتہ چلے گا کہ یہ سبب زندگی ہے ، قاتل کو خود خیال ہوگا کہ میں اسے قتل نہ کروں ورنہ خود بھی قتل کر دیا جاؤں گا تو وہ اس فعل بد سے رک جائے گا تو دو آدمی قتل وخون سے بچ گئے ۔ اگلی کتابوں میں بھی یہ بات تو بیان فرمائی تھی کہ آیت ( القتل انفی للقتل ) قتل قتل کو روک دیتا ہے لیکن قرآن پاک میں بہت ہی فصاحت وبلاغت کے ساتھ اس مضمون کو بیان کیا گیا ۔ پھر فرمایا یہ تمہارے بچاؤ کا سبب ہے کہ ایک تو اللہ کی نافرمانی سے محفوظ رہو گے دوسرے نہ کوئی کسی کو قتل کرے گا نہ کہ وہ قتل کیا جائے گا زمین پر امن وامان سکون وسلام رہے گا ، تقوی نیکیوں کے کرنے اور کل برائیوں کے چھوڑنے کا نام ہے ۔