سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :7
اس کےدو معنی ہو سکتے ہیں اور غالبا دونوں ہی مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ نے نطفے کی حقیر سی بوند سے وہ انسان پیدا کیا جو بحث واستدلال کی قابلیت رکھتا ہے اور اپنے مدعا کے لیے حجتیں پیش کر سکتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ جس انسان کو خدا نے نطفے جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا ہے ، اس کی خودی کا طغیان تو دیکھو کہ وہ خود خدا ہی کے مقابلہ میں جھگڑنے پر اتر آیا ہے ۔ پہلے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت اسی استدلال کی ایک کڑی ہے جو آگے مسلسل کئی آیتوں میں پیش کیا گیا ہے ( جس کی تشریح ہم اس سلسلہ بیان کے آخر میں کریں گے ) ۔ اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے سے پہلے ذرا اپنی ہستی کو دیکھ ۔ کس شکل میں تو کہاں سے نکل کر کہاں پہنچا ، کس جگہ تو نے ابتداء پرورش پائی ، پھر کس راستے سے تو برآمد ہو کر دنیا میں آیا ، پھر کن مرحلوں سے گزرتا ہوا تو جوانی کی عمر کو پہنچا اور اب اپنے آپ کو بھول کر تو کس کے منہ آ رہا ہے ۔