Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِالۡحَـقِّ‌ؕ تَعٰلٰى عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿3﴾
اسی نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا وہ اس سے بری ہے جو مشرک کرتے ہیں ۔
خلق السموت و الارض بالحق تعلى عما يشركون
He created the heavens and earth in truth. High is He above what they associate with Him.
Ussi ney aasmanon aur zamin ko haq kay sath peda kiya hai woh iss say bari hai jo mushrik kertay hain.
اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق مقصد سے پیدا کیا ہے ۔ جو شرک یہ لوگ کرتے ہیں ، وہ اس سے بہت بالا و برتر ہے ۔
اس نے آسمان اور زمین بجا بنائے ( ف٦ ) وہ ان کے شرک سے برتر ہے ،
اس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے ، وہ بہت بالا وبرتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ 6
اُسی نے آسمانوں اور زمین کو درست تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا ، وہ ان چیزوں سے برتر ہے جنہیں کفار ( اس کا ) شریک گردانتے ہیں
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :6 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات جس کی دعوت خدا کے پیغمبر دیتے ہیں ، اسی کی شہادت زمین وآسمان کا پورا کارخانہ تخلیق دے رہا ہے ۔ یہ کارخانہ کوئی خیالی گورکھ دھندا نہیں ہے ، بلکہ ایک سراسر مبنی برحقیقت نظام ہے ۔ اس میں تم جس طرف چاہو نگاہ اٹھا کر دیکھ لو ، شرک کی گواہی کہیں سے نہ ملے گی ، اللہ کے سوا دوسرے کی خدائی کہیں چلتی نظر نہیں آئے گی ، کسی چیز کی ساخت یہ شہادت نہ دے گی کہ اس کا وجود کسی اور کا بھی رہین منت ہے ۔ پھر جب یہ ٹھوس حقیقت پر بنا ہوا نظام خالص توحید پر چل رہا ہے تو آخر تمہارے اس شرک کا سکہ کس جگہ رواں ہو سکتا ہے جبکہ اس کی تہ میں وہم و گمان کے سوا واقعیت کا شائبہ تک نہیں ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد آثار کائنات سے اور خود انسان کے اپنے وجود سے وہ شہادتیں پیش کی جاتی ہیں جو ایک طرف توحید پر اور دوسری طرف رسالت پر دلالت کرتی ہیں ۔
عالم علوی اور سفلی کا خالق اللہ کریم ہی ہے ۔ بلند آسمان اور پھیلی ہوئی زمین مع تمام مخلوق کے اسی کی پیدا کی ہوئی ہے اور یہ سب بطور حق ہے نہ بطور عبث ۔ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا ہو گی ۔ وہ تمام دوسرے معبودوں اور مشرکوں سے بری اور بیزار ہے ۔ واحد ہے ، لا شریک ہے ، اکیلا ہی خالق کل ہے ۔ اسی لئے اکیلا ہی سزا وار عبادت ہے ۔ انسان حقیر و ذلیل لیکن خالق کا انتہائی نا فرمان ہے ۔ اس نے انسان کا سلسلہ نطفے سے جاری رکھا ہے جو ایک پانی ہے ۔ حقیر و ذلیل یہ جب ٹھیک ٹھاک بنا دیا جاتا ہے تو اکڑفوں میں آ جاتا ہے رب سے جھگڑنے لگتا ہے رسولوں کی مخالفت پر تل جاتا ہے ۔ بندہ تھا چاہئے تو تھا کہ بندگی میں لگا رہتا لیکن یہ تو زندگی کرنے لگا ۔ اور آیت میں ہے اللہ نے انسان کو پانی سے بنایا اس کا نسب اور سسرال قائم کیا ۔ اللہ قادر ہے رب کے سوا یہ ان کی پوجا کرنے لگے ہیں جو بےنفع اور بےضرر ہیں کافر کچھ اللہ سے پوشیدہ نہیں ۔ سورہ یاسین میں فرمایا کیا انسان نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تو بڑا ہی جھگڑالو نکلا ۔ ہم پر بھی باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش بھول گیا کہنے لگا کہ ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ انہیں وہ خالق اکبر پیدا کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا وہ تو ہر طرح کی مخلوق کی پیدائش کا پورا عالم ہے ۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی پر تھوک کر فرمایا کہ جناب باری فرماتا ہے کہ اے انسان تو مجھے کیا عاجز کر سکتا ہے میں نے تو تجھے اس تھوک جیسی چیز سے پیدا کیا ہے جب تو زندگی پا گیا تنومند ہو گیا لباس مکان مل گیا تو لگا سمیٹنے اور میری راہ سے روکنے ؟ اور جب دم گلے میں اٹکا تو تو کہنے لگا کہ اب میں صدقہ کرتا ہو ، اللہ کی راہ میں دیتا ہوں ۔ بس اب صدقہ خیرات کا وقت نکل گیا ۔