Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
وَّالۡخَـيۡلَ وَالۡبِغَالَ وَالۡحَمِيۡرَ لِتَرۡكَبُوۡهَا وَزِيۡنَةً‌ ؕ وَيَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿8﴾
گھوڑوں کو ، خچروں کو گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وہ باعث زینت بھی ہیں ۔ اور بھی ایسی بہت سی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں ۔
و الخيل و البغال و الحمير لتركبوها و زينة و يخلق ما لا تعلمون
And [He created] the horses, mules and donkeys for you to ride and [as] adornment. And He creates that which you do not know.
Ghoron ko khacharon ko gadhon ko uss ney peda kiya kay tum unn ki sawari lo aur baees-e-zeenat bhi hain. Aur bhi woh aisi boht cheezen peda kerta hai jin ka tumhen ilm bhi nahi.
اور گھوڑے ، خچر اور گدھے اسی نے پیدا کیے ہیں تاکہ تم ان پر سواری کرو ، اور وہ زینت کا سامان بنیں ۔ اور وہ بہت سی ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں ہے ۔ ( ٤ )
اور گھوڑے اور خچر اور گدھے کہ ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے ، اور وہ پیدا کرے گا ( ف۱۰ ) جس کی تمہیں خبر نہیں ، ( ف۱۱ )
اس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے تا کہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں ۔ وہ اور بہت سی چیزیں﴿تمہارے فائدے کے لیے﴾ پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے ۔ 8
اور ( اُسی نے ) گھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کو ( پیدا کیا ) تاکہ تم ان پر سواری کر سکو اور وہ ( تمہارے لئے ) باعثِ زینت بھی ہوں ، اور وہ ( مزید ایسی بازینت سواریوں کو بھی ) پیدا فرمائے گا جنہیں تم ( آج ) نہیں جانتے
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :8 یعنی بکثرت ایسی چیزیں ہیں جو انسان کی بھلائی کے لیے کام کر رہی ہیں اور انسان کو خبر تک نہیں ہے کہ کہاں کہاں کتنے خدام اس کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور کیا خدمت انجام دے رہے ہیں ۔
سواری کے جانوروں کی حرمت اپنی ایک اور نعمت بیان فرما رہا ہے کہ زینت کے لئے اور سواری کے لئے اس نے گھوڑے خچر اور گدھے پیدا کئے ہیں بڑا مقصد ان جانوروں کی پید ائش سے انسان کا ہی فائدہ ہے ۔ انہیں اور چوپایوں پر فضیلت دی اور علیحدہ ذکر کیا اس وجہ سے بعض علماء نے گھوڑے کے گوشت کی حرمت کی دلیل اس آیت سے لی ہے ۔ جیسے امام ابو حنیفہ اور ان کی موافقت کرنے والے فقہا کہتے ہیں کہ خچر اور گدھے کے ساتھ گھوڑے کا ذکر ہے اور پہلے کے دونوں جانور حرام ہیں اس لئے یہ بھی حرام ہوا ۔ چنانچہ خچر اور گدھے کی حرمت احادیث میں آئی ہے اور اکثر علماء کا مذہب بھی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان تینوں کی حرمت آئی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے پہلے کی آیت میں چوپایوں کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انہیں تو کھاتے ہو پس یہ تو ہوئے کھانے کے جانور اور ان تینوں کا بیان کر کے فرمایا کہ ان پر تم سواری کرتے ہو پس یہ ہوئے سواری کے جانور ۔ مسند کی حدیث میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے خچروں کے اور گدھوں کے گوشت کو منع فرمایا ہے لیکن اس کے راویوں میں ایک راوی صالح ابن یحییٰ بن مقدام ہیں جن میں کلام ہے ۔ مسند کی اور حدیث میں مقدام بن معدی کرب سے منقول ہے کہ ہم حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ صائقہ کی جنگ میں تھے ، میرے پاس میرے ساتھی گوشت لائے ، مجھ سے ایک پتھر مانگا میں نے دیا ۔ انہوں نے فرمایا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خیبر میں تھے لوگوں نے یہودیوں کے کھیتوں پر جلدی کر دی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ لوگوں میں ندا کر دوں کہ نماز کے لئے آ جائیں اور مسلمانوں کے سوا کوئی نہ آئے پھر فرمایا کہ اے لوگو تم نے یہودیوں کے باغات میں گھسنے کی جلدی کی سنو معاہدہ کا مال بغیر حق کے حلال نہیں اور پالتو گدھوں کے اور گھوڑوں کے اور خچروں کے گوشت اور ہر ایک کچلیوں والا درندہ اور ہر ایک پنجے سے شکار کھلینے والا پرندہ حرام ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت یہود کے باغات سے شاید اس وقت تھی جب ان سے معاہدہ ہو گیا ۔ پس اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو بیشک گھوڑے کی حرمت کے بارے میں تو نص تھی لیکن اس میں بخاری و مسلم کی حدیث کے مقا بلے کی قوت نہیں جس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کے گوشت کو منع فرما دیا اور گھوڑوں کے گوشت کی اجازت دی ۔ اور حدیث میں ہے کہ ہم نے خیبر والے دن گھوڑے اور خچر اور گدھے ذبح کئے تو ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خچر اور گدھے کے گوشت سے تو منع کر دیا لیکن گھوڑے کے گوشت سے نہیں روکا ۔ صحیح مسلم شریف میں حضرت اسماء بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے مدینے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں گھوڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت کھایا ۔ پس یہ سب سے بڑی سب سے قوی اور سب سے زیادہ ثبوت والی حدیث ہے اور یہی مذہب جمہور علماء کا ہے ۔ مالک ، شا فعی ، احمد ، ان کے سب ساتھی اور اکثر سلف و کلف یہی کہتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ پہلے گھوڑوں میں وحشت اور جنگلی پن تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئے اسے مطیع کر دیا ۔ وہب نے اسرائیلی روایتوں میں بیان کیا ہے کہ جنوبی ہوا سے گھوڑے پیدا ہو تے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ ان تینوں جانوروں پر سواری لینے کا جواز تو قرآن کے لفظوں سے ثابت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خچر ہدیے میں دیا گیا تھا جس پر آپ سواری کرتے تھے ہاں یہ آپ نے منع فرمایا ہے کہ گھوڑوں کو گدھیوں سے ملایا جائے ۔ یہ ممانعت اس لئے ہے کہ نسل منقطع نہ ہو جائے ۔ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم گھوڑے اور گدھی کے ملاپ سے خچر لیں اور آپ اس پر سوار ہوں آپ نے فرمایا یہ کام وہ کرتے ہیں جو علم سے کورے ہیں ۔