Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
وَعَلَى اللّٰهِ قَصۡدُ السَّبِيۡلِ وَمِنۡهَا جَآٮِٕرٌ‌ؕ وَلَوۡ شَآءَ لَهَدٰٮكُمۡ اَجۡمَعِيۡنَ‏ ﴿9﴾
اور اللہ پر سیدھی راہ کا بتا دینا ہے اور بعض ٹیڑھی راہیں ہیں ، اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لگا دیتا ۔
و على الله قصد السبيل و منها جاىر و لو شاء لهدىكم اجمعين
And upon Allah is the direction of the [right] way, and among the various paths are those deviating. And if He willed, He could have guided you all.
Aur Allah per seedhi raah ka bata dena hai aur baaz tairhi raahen hain aur agar woh chahata to tum sab ko raah-e-raast per laga deta.
اور سیدھا راستہ دکھانے کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے ، اور بہت سے راستے ٹیڑھے ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو سیدھے راستے پر پہنچا بھی دیتا ۔ ( ٥ )
اور بیچ کی راہ ( ف۱۲ ) ٹھیک اللہ تک ہے اور کوئی راہ ٹیڑھی ہے ( ف۱۳ ) اور چاہتا تو تم سب کو راہ پر لاتا ، ( ف۱٤ )
اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں ۔ 9 اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا 10 ۔ ؏ ١
اور درمیانی راہ اللہ ( کے دروازے ) پر جا پہنچتی ہے اور اس میں سے کئی ٹیڑھی راہیں بھی ( نکلتی ) ہیں ، اور اگر وہ چاہتا تو تم سب ہی کو ہدایت فرما دیتا
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :9 توحید اور رحمت و ربوبیت کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہاں اشارۃ نبوت کی بھی ایک دلیل پیش کر دی گئی ہے ۔ اس دلیل کا مختصر بیان یہ ہے: دنیا میں انسان کی فکر و عمل کے بہت سے مختلف راستے ممکن ہیں اور عملا موجود ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے راستے بیک وقت تو حق نہیں ہو سکتے ۔ سچائی تو ایک ہی ہے اور صحیح نظریہ حیات صرف وہی ہو سکتا ہے جو اس سچائی کے مطابق ہو ۔ اور عمل کے بے شمار ممکن راستوں میں سے صحیح راستہ بھی صرف وہی ہو سکتا ہے جو صحیح نظریہ حیات پر مبنی ہو ۔ اس صحیح نظریے اور صحیح راہ عمل سے واقف ہونا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے ، بلکہ اصل بنیادی ضرورت یہی ہے ۔ کیونکہ دوسری تمام چیزیں تو انسان کی صرف ان ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جو ایک اونچے درجے کا جانور ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہوا کرتی ہیں ۔ مگر یہ ایک ضرورت ایسی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہے ۔ یہ اگر پوری نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری زندگی ہی ناکام ہوگئی ۔ اب غور کرو کہ جس خدا نے تمہیں وجود میں لانے سے پہلے تمہارے لیے یہ کچھ سروسامان مہیا کر کے رکھا اور جس نے وجود میں لانے بعد تمہاری حیوانی زندگی کی ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا اتنی دقیقہ سنجی کے ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر انتظام کیا ، کیا اس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ اس نے تمہاری انسانی زندگی کی اس سب سے بڑی اور اصلی ضرورت کو پورا کرنے کا بندوبست نہ کیا ہوگا ؟ یہی بندوبست تو ہے جو نبوت کے ذریعہ سے کیا گیا ہے ۔ اگر تم نبوت کو نہیں مانتے تو بتاؤ کہ تمہارے خیال میں خدا نے انسان کی ہدایت کے لیے اور کونسا انتظام کیا ہے؟ اس کے جواب میں تم نہ یہ کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہمیں راستہ تلاش کرنے کے لیے عقل و فکر دے رکھی ہے ، کیونکہ انسانی عقل و فکر پہلے ہی بے شمار مختلف راستے ایجاد کر بیٹھی ہے جو راہ راست کی صحیح دریافت میں اس کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے ۔ اور نہ تم یہی کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہماری رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے ، کیونکہ خدا کے ساتھ اس سے بڑھ کر بدگمانی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ جانور ہونے کی حیثیت سے تو تمہاری پرورش اور تمہارے نشونما کا اتنا مفصل اور مکمل انتظام کرے ، مگر انسان ہونے کی حیثیت سے تم کو یونہی تاریکیوں میں بھٹکنے اور ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الرحمٰن ، حاشیہ نمبر ۲ – ۳ ) ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :10 یعنی اگرچہ یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس ذمہ داری کو ( جو نوع انسان کی رہنمائی کے لیے اس نے خود اپنے اوپر عائد کی ہے ) اس طرح ادا کرتا کہ سارے انسانوں کو پیدائشی طور پر دوسری تمام بے اختیار مخلوقات کے مانند برسر ہدایت بنا دیتا ۔ لیکن یہ اس کی مشیت کا تقاضا نہ تھا ۔ اس کی مشیت ایک ایسی ذی اختیار مخلوق کو وجود میں لانے کی متقاضی تھی جو اپنی پسند اور اپنے انتخاب سے صحیح اور غلط ، ہر طرح کے راستوں پر جانے کی آزادی رکھتی ہو ۔ اسی آزادی کے استعمال کے لیے اس کو علم کے ذرائع دیے گئے ، عقل و فکر کی صلاحیتیں دی گئیں ، خواہش اور ارادے کی طاقتیں بخشی گئیں ، اپنے اندر اور باہر کی بے شمار چیزوں پر تصرف کے اختیارات عطا کیے گئے ، اور باطن و ظاہر میں ہر طرف بے شمار ایسے اسباب رکھ دیے گئے جو اس کے لیے ہدایت اور ضلالت ، دونوں کے موجب بن سکتے ہیں ۔ یہ سب کچھ بے معنی ہو جاتا اگر وہ پیدائشی طور پر راست رو بنا دیا جاتا ۔ اور ترقی کے ان بلند مدارج تک بھی انسان کا پہنچنا ممکن نہ رہتا جو صرف آزادی کے صحیح استعمال ہی کے نتیجے میں اس کو مل سکتے ہیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جبری ہدایت کا طریقہ چھوڑ کر رسالت کا طریقہ اختیار فرمایا کرتا کہ انسان کی آزادی بھی برقرار رہے ، اور اس کے امتحان کا منشا بھی پورا ہو ، اور راہ راست بھی معقول ترین طریقہ سے اس کے سامنے پیش کر دی جائے ۔
تقویٰ بہترین زاد راہ ہے دنیوی راہیں طے کرنے کے اسباب بیان فرما کر اب دینی راہ چلنے کے اسباب بیان فرماتا ہے ۔ محسوسات سے معنویات کی طرف رجوع کرتا ہے قرآن میں اکثر بیانات اس قسم کے موجود ہیں سفر حج کے توشہ کا ذکر کر کے تقوے کے توشے کا جو آخرت میں کام دے بیان ہوا ہے ظاہری لباس کا ذکر فرما کر لباس تقوی کی اچھائی بیان کی ہے اسی طرح یہاں حیوانات سے دنیا کے کٹھن راستے اور دراز سفر طے ہونے کا بیان فرما کر آخرت کے راستے دینی راہیں بیان فرمائیں کہ سچا راستہ اللہ سے ملانے والا ہے رب کی سیدھی راہ وہی ہے اسی پر چلو دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ بہک جاؤ گے اور سیدھی راہ سے الگ ہو جاؤ گے ۔ فرمایا میری طرف پہنچنے کی سیدھی راہ یہی ہے جو میں نے بتائی ہے طریق جو اللہ سے ملانے والا ہے اللہ نے ظاہر کر دیا ہے اور وہ دین اسلام ہے جسے اللہ نے واضح کر دیا ہے اور ساتھ ہی دو سرے راستوں کی گمراہی بھی بیان فرما دی ہے ۔ پس سچا راستہ ایک ہی ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے باقی اور راہیں غلط راہیں ہیں ، حق سے الگ تھلگ ہیں ، لوگوں کی اپنی ایجاد ہیں جیسے یہودیت نصرانیت مجوسیت وغیرہ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہدایت رب کے قبضے کی چیز ہے اگر چاہے تو روئے زمین کے لوگوں کو نیک راہ پر لگا دے زمین کے تمام باشندے مومن بن جائیں سب لوگ ایک ہی دین کے عامل ہو جائیں لیکن یہ اختلاف باقی ہی رہے گا مگر جس پر اللہ رحم فرمائے ۔ اسی کے لئے انہیں پیدا کیا ہے تیرے رب کی بات پوری ہو کر ہی رہے گی کہ جنت دوزخ انسان سے بھر جائے ۔