Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
وَلَـقَدۡ بَعَثۡنَا فِىۡ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ وَاجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ‌ۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ هَدَى اللّٰهُ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ حَقَّتۡ عَلَيۡهِ الضَّلٰلَةُ‌ ؕ فَسِيۡرُوۡا فِىۡ الۡاَرۡضِ فَانْظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الۡمُكَذِّبِيۡنَ‏ ﴿36﴾
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ ( لوگو ) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو ۔ پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالٰی نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟
و لقد بعثنا في كل امة رسولا ان اعبدوا الله و اجتنبوا الطاغوت فمنهم من هدى الله و منهم من حقت عليه الضللة فسيروا في الارض فانظروا كيف كان عاقبة المكذبين
And We certainly sent into every nation a messenger, [saying], "Worship Allah and avoid Taghut." And among them were those whom Allah guided, and among them were those upon whom error was [deservedly] decreed. So proceed through the earth and observe how was the end of the deniers.
Hum ney her ummat mein rasool bheja kay ( logo! ) sirf Allah ki ibadat kero aur uss kay siwa tamam maboodon say bacho. Pus baaz logon ko to Allah Taalaa ney hidayat di aur baaz per gumrahi sabit hogaee pus tum khud zamin mein chal phir ker dekh lo kay jhutlaney walon ka anjam kaisa kuch hua?
اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ہر امت میں کوئی نہ کوئی پیغمبر اس ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو ، اور طاغوت سے اجتناب کرو ۔ ( ١٧ ) پھر ان میں سے کچھ وہ تھے جن کو اللہ نے ہدایت دے دی اور کچھ ایسے تھے جن پر گمراہی مسلط ہوگئی ۔ تو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ ( پیغمبروں کو ) جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟
اور بیشک ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا ( ف۷۲ ) کہ اللہ کو پوجو اور شیطان سے بچو تو ان ( ف۷۳ ) میں کسی کو اللہ نے راہ دکھائی ( ف۷٤ ) اور کسی پر گمراہی ٹھیک اتری ( ف۷۵ ) تو زمین میں چل پھر کر دیکھو کیسا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا ( ف۷٦ )
ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا ، اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو ۔ 32 اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہو گئی ۔ 33 پھر ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہو چکا ہے 34 ۔ ۔ ۔ ۔
اور بیشک ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ ( لوگو ) تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت ( یعنی شیطان اور بتوں کی اطاعت و پرستش ) سے اجتناب کرو ، سو اُن میں بعض وہ ہوئے جنہیں اللہ نے ہدایت فرما دی اور اُن میں بعض وہ ہوئے جن پر گمراہی ( ٹھیک ) ثابت ہوئی ، سو تم لوگ زمین میں سیر و سیاحت کرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :32 یعنی تم اپنے شرک اور اپنی خود مختارانہ تحلیل و تحریم کے حق میں ہماری مشیت کو کیسے سند جواز بنا سکتے ہو ، جبکہ ہم نے ہر امت میں اپنے رسول بھیجے اور ان کے ذریعہ سے لوگوں کو صاف صاف بتا دیا کہ تمہارا کام صرف ہماری بندگی کرنا ہے ، طاغوت کی بندگی کے لیے تم پیدا نہیں کیے گئے ہو ۔ اس طرح جبکہ ہم پہلے ہی معقول ذرائع سے تم کو بتا چکے ہیں کہ تمہاری ان گمراہیوں کو ہماری رضا حاصل نہیں ہے تو اس کے بعد ہماری مشیت کی آڑ لے کر تمہارا اپنی گمراہیوں کو جائز ٹھیرانا صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ تم چاہتے تھے کہ ہم سمجھانے والے رسول بھیجنے کے بجائے ایسے رسول بھیجتے جو ہاتھ پکڑ کر تم کو غلط راستوں سے کھینچ لیتے اور زبردستی تمہیں راست رو بناتے ۔ ( مشیت اور رضا کے فرق کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام حاشیہ نمبر ۸۰ ۔ سورہ زمر حاشیہ نمبر ۲۰ ) ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :33 یعنی ہر پیغمبر کی آمد کے بعد اس کی قوم دو حصوں میں تقسیم ہوئی ۔ بعض نے اس کی بات مانی ( اور یہ مان لینا اللہ کی توفیق سے تھا ) اور بعض اپنی گمراہی پر جمے رہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام حاشیہ نمبر ۲۸ ) ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :34 یعنی تجربے سے بڑھ کر تخلیق کے لیے قابل اعتماد کسوٹی اور کوئی نہیں ہے ۔ اب تم خود دیکھ لو کہ تاریخ انسانی کے پے درپے تجربات کیا ثابت کر رہے ہیں ۔ عذاب الہٰی فرعون و آل فرعون پر آیا یا موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل پر؟ صالح علیہ السلام کے جھٹلانے والوں پر آیا یا ماننے والوں پر ؟ ہود علیہ السلام اور نوح علیہ السلام اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کے منکرین پر آیا یا مومنین پر؟ کیا واقعی ان تاریخی تجربات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جن لوگوں کو ہماری مشیت نے شرک اور شریعت سازی کے ارتکاب کا موقع دیا تھا ان کو ہماری رضا حاصل تھی ؟ اس کے برعکس یہ واقعات تو صریحا یہ ثابت کر رہے ہیں کہ فہمائش اور نصیحت کے باوجود جو لوگ ان گمراہیوں پر اصرار کرتے ہیں انہیں ہماری مشیت ایک حد تک ارتکاب جرائم کا موقع دیتی چلی جاتی ہے اور پھر ان کا سفینہ خوب بھر جانے کے بعد ڈبو دیا جاتا ہے ۔