Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اُحِلَّ لَـکُمۡ لَيۡلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآٮِٕكُمۡ‌ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّـكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّکُمۡ كُنۡتُمۡ تَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ وَعَفَا عَنۡكُمۡۚ فَالۡـــٰٔنَ بَاشِرُوۡهُنَّ وَابۡتَغُوۡا مَا کَتَبَ اللّٰهُ لَـكُمۡ وَكُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَـكُمُ الۡخَـيۡطُ الۡاَبۡيَضُ مِنَ الۡخَـيۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ‌ؕ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيۡلِ‌ۚ وَلَا تُبَاشِرُوۡهُنَّ وَاَنۡـتُمۡ عٰكِفُوۡنَ فِى الۡمَسٰجِدِؕ تِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ فَلَا تَقۡرَبُوۡهَا ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمۡ يَتَّقُوۡنَ‏ ﴿187﴾
روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لئے حلال کیا گیا ، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو ، تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالٰی کو علم ہے اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرمالیا اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالٰی کی لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے ۔ تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تک روزے کو پورا کرو اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو ، یہ اللہ تعالٰی کی حدود ہیں تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ ۔ اسی طرح اللہ تعالٰی اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ بچیں ۔
احل لكم ليلة الصيام الرفث الى نساىكم هن لباس لكم و انتم لباس لهن علم الله انكم كنتم تختانون انفسكم فتاب عليكم و عفا عنكم فالن باشروهن و ابتغوا ما كتب الله لكم و كلوا و اشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر ثم اتموا الصيام الى اليل و لا تباشروهن و انتم عكفون في المسجد تلك حدود الله فلا تقربوها كذلك يبين الله ايته للناس لعلهم يتقون
It has been made permissible for you the night preceding fasting to go to your wives [for sexual relations]. They are clothing for you and you are clothing for them. Allah knows that you used to deceive yourselves, so He accepted your repentance and forgave you. So now, have relations with them and seek that which Allah has decreed for you. And eat and drink until the white thread of dawn becomes distinct to you from the black thread [of night]. Then complete the fast until the sunset. And do not have relations with them as long as you are staying for worship in the mosques. These are the limits [set by] Allah , so do not approach them. Thus does Allah make clear His ordinances to the people that they may become righteous.
Rozay ki raaton mein apni biwiyon say milna tumharay liye halal kiya gaya woh tumhara libas hain aur tum unn kay libas ho tumhari posheeda khayanaton ka Allah Taalaa ko ilm hai uss ney tumhari tauba qabool farma ker tum say dar guzar farma liya abb tumhen inn say mubashirat ki aur Allah Taalaa ki likhi hui cheez ko talash kerney ki ijazat hai tum khatay peetay raho yahan tak kay subha ka safaid dhaga siyah dhagay say zahir hojaye. Phir raat tak rozay ko poora kero aur aurton say uss waqt mubashirat na kero jab kay tum masjidon mein aeytikaaf mein ho. Yeh Allah Taalaa ki hudood hain tum unn kay qarib bhi na jao. Issi tarah Allah Taalaa apni aayaten logon kay liye biyan farmata hai takay woh bachen.
تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے کہ روزوں کی رات میں تم اپنی بیویوں سے بے تکلف صحبت کرو ، وہ تمہارے لئے لباس ہیں ، اور اتم ان کے لیے لباس ہو ، اللہ کو علم تھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے ، پھر اس نے تم پر عنایت کی اور تمہاری غلطی معاف فرمادی ( ١١٨ ) چنانچہ اب تم ان سے صحبت کرلیا کرو ، اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لیے لکھ رکھا ہے اسے طلب کرو ، ( ١١٩ ) اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیادہ دھاری سے ممتاز ہو کر تم پر واضح ( نہ ) ہوجائے ، اس کے بعد رات آنے تک روزے پورے کرو ، اور ان ( اپنی بیویوں ) سے اس حالت میں مباشرت نہ کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف میں بیٹھے ہو ، یہ اللہ کی ( مقرر کی ہوئی ) حدود ہیں ، لہذا ان ( کی خلاف ورزی ) کے قریب بھی مت جانا ، اسی طرح اللہ اپنی نشانیاں لوگوں کے سامنے کھول کھول کر بیان کرتا ہے ، تاکہ وہ تقوی اختیار کریں ۔
روزہ کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لئے حلال ہوا ( ف۳۳۵ ) وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس ، اللہ نے جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا ( ف۳۳٦ ) تو اب ان سے صحبت کرو ( ف۳۳۷ ) اور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے نصیب میں لکھا ہو ( ف۳۳۸ ) اور کھاؤ اور پیئو ( ف۳۳۹ ) یہاں تک کہ تمہارے لئے ظاہر ہو جائے سفیدی کا ڈورا سیاہی کے ڈورے سے ( پوپھٹ کر ) ( ف۳٤۰ ) پھر رات آنے تک روزے پورے کرو ( ف۳٤۱ ) اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو ( ف۳٤۲ ) یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جاؤ اللہ یوں ہی بیان کرتا ہے لوگوں سے اپنی آیتیں کہ کہیں انہیں پرہیزگاری ملے ،
تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے ۔ وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے ۔ 190 اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے ، مگر اس نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا ۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کر دیا ہے ، اسے حاصل کرو ۔ 191 نیز راتوں کو کھاؤ پیو 192 یہاں تک کہ تم کو سیاہیِ شب کی دھاری سے سپیدہ ٴ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے ۔ 193 تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو ۔ 194 اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو ، تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو ۔ 195 یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ، ان کے قریب نہ پھٹکنا ۔ 196 اس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے ، توقع ہے کہ وہ غلط رویےّ سے بچیں گے ۔
تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے ، وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو ، اﷲ کو معلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تمہارے حال پر رحم کیا اور تمہیں معاف فرما دیا ، پس اب ( روزوں کی راتوں میں بیشک ) ان سے مباشرت کیا کرو اور جو اﷲ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے چاہا کرو اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا ( رات کے ) سیاہ ڈورے سے ( الگ ہو کر ) نمایاں ہو جائے ، پھر روزہ رات ( کی آمد ) تک پورا کرو ، اور عورتوں سے اس دوران شب باشی نہ کیا کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو ، یہ اﷲ کی ( قائم کردہ ) حدیں ہیں پس ان ( کے توڑنے ) کے نزدیک نہ جاؤ ، اسی طرح اﷲ لوگوں کے لئے اپنی آیتیں ( کھول کر ) بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :190 یعنی جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ سکتا ، بلکہ دونوں کا باہمی تعلق و اتصال بالکل غیر منفک ہوتا ہے ، اسی طرح تمہارا اور تمہاری بیویوں کا تعلق بھی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :191 ابتدا میں اگرچہ اس قسم کا کوئی صاف حکم موجود نہ تھا کہ رمضان کی راتوں میں کوئی شخص اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرے ، لیکن لوگ اپنی جگہ یہی سمجھتے تھے کہ ایسا کر ناجائز نہیں ہے ۔ پھر اس کے ناجائز یا مکروہ ہونے کا خیال دل میں لیے ہوئے بسا اوقات اپنی بیویوں کے پاس چلے جاتے تھے ۔ یہ گویا اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت کا ارتکاب تھا اور اس سے اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ اور گناہ گارانہ ذہنیت ان کے اندر پرورش پاتی رہے گی ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے اس خیانت پر تنبیہ فرمائی اور پھر ارشاد فرمایا کہ یہ فعل تمہارے لیے جائز ہے ۔ لہٰذا اب اسے برا فعل سمجھتے ہوئے نہ کرو ، بلکہ اللہ کی اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قلب و ضمیر کی پوری طہارت کے ساتھ کرو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :192 اس بارے میں بھی لوگ ابتداءً غلط فہمی میں تھے ۔ کسی کا خیال تھا کہ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد سے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا تھا کہ رات کو جب تک آدمی جاگ رہا ہو ، کھا پی سکتا ہے ۔ جہاں سو گیا ، پھر دوبارہ اٹھ کر وہ کچھ نہیں کھا سکتا ۔ یہ احکام لوگوں نے خود اپنے ذہن میں سمجھ رکھے تھے اور اس کی وجہ سے بسا اوقات بڑی تکلیفیں اٹھاتے تھے ۔ اس آیت میں انہی غلط فہمیوں کو رفع کیا گیا ہے ۔ اس میں روزے کی حد طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک مقرر کر دی گئی اور غروب آفتاب سے طلوع فجر تک رات بھر کھانے پینے اور مباشرت کرنے کے لیے آزادی دے دی گئی ۔ اس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کا قاعدہ مقرر فرما دیا تاکہ طلوع فجر سے عین پہلے آدمی اچھی طرح کھا پی لے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :193 اسلام نے اپنی عبادات کے لیے اوقات کا وہ معیار مقرر کیا ہے جس سے دنیا میں ہر وقت ہر مرتبہ تمدن کے لو گ ہر جگہ اوقات کی تعیین کر سکیں ۔ وہ گھڑیوں کے لحاظ سے وقت مقرر کرنے کے بجائے ان آثار کے لحاظ سے وقت مقرر کرتا ہے جو آفاق میں نمایاں نظر آتے ہیں ۔ مگر نادان لوگ اس طریق توقیت پر عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قطبین کے قریب ، جہاں رات اور دن کئی کئی مہینوں کے ہوتے ہیں ، اوقات کی یہ تعیین کیسے چل سکے گی ۔ حالانکہ یہ اعتراض دراصل علم جغرافیہ کی سرسری واقفیت کا نتیجہ ہے ۔ حقیقت میں نہ وہاں چھ مہینوں کی رات اس معنی میں ہوتی ہے اور نہ چھ مہینوں کا دن ، جس معنی میں ہم خط استوا کے آس پاس رہنے والے لوگ دن اور رات کے لفظ بولتے ہیں ۔ خواہ رات کا دور ہو یا دن کا بہرحال صبح و شام کے آثار وہاں پوری باقاعدگی کے ساتھ افق پر نمایاں ہوتے ہیں اور انہی کے لحاظ سے وہاں کے لوگ ہماری طرح اپنے سونے جاگنے اور کام کرنے اور تفریح کرنے کے اوقات مقرر کرتے ہیں ۔ جب گھڑیوں کا رواج عام نہ تھا ، تب بھی فن لینڈ ، ناروے اور گرین لینڈ وغیرہ ملکوں کے لوگ اپنے اوقات معلوم کرتے ہی تھے اور اس کا ذریعہ یہی افق کے آثار تھے ۔ لہٰذا جس طرح دوسرے تمام معاملات میں یہ آثار ان کے لیے تعیین اوقات کا کام دیتے ہیں اسی طرح نماز اور سحر و افطار کے معاملے میں بھی دے سکتے ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :194 رات تک روزہ پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ جہاں رات کی سرحد شروع ہوتی ہے ، وہیں تمہارے روزے کی سرحد ختم ہو جائے ۔ اور ظاہر ہے کہ رات کی سرحد غروب آفتاب سے شروع ہوتی ہے ۔ لہٰذا غروب آفتاب ہی کے ساتھ افطار کر لینا چاہیے ۔ سحر اور افطار کی صحیح علامت یہ ہے کہ جب رات کے آخری حصے میں افق کے مشرقی کنارے پر سفیدہ صبح کی باریک سی دھاری نمودار ہو کر اوپر بڑھنے لگے ، تو سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور جب دن کے آخری حصے میں مشرق کی جانب سے رات کی سیاہی بلند ہوتی نظر آئے تو افطار کا وقت آجاتا ہے ۔ آج کل لوگ سحری اور افطار ، دونوں کے معاملے شدت احتیاط کی بنا پر کچھ بے جا تشدد برتنے لگے ہیں ۔ مگر شریعت نے ان دونوں اوقات کی کوئی ایسی حد بندی نہیں کی ہے جس سے چند سیکنڈ یا چند منٹ ادھر ادھر ہو جانے سے آدمی کا روزہ خراب ہو جاتا ہو ۔ سحر میں سیاہی شب سے سپیدہ سحر کا نمودار ہونا اچھی خاصی گنجائش اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک شخص کے لیے یہ بالکل صحیح ہے کہ اگر عین طلوع فجر کے وقت اس کی آنکھ کھلی ہو تو وہ جلدی سے اٹھ کر کچھ کھا پی لے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی شخص سحری کھا رہا ہو اور اذان کی آواز آجائے تو فوراً چھوڑ نہ دے ، بلکہ اپنی حاجت بھر کھا پی لے ۔ اسی طرح افطار کے وقت میں بھی غروب آفتاب کے بعد خواہ مخواہ دن کی روشنی ختم ہونے کا انتظار کرتے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈوبتے ہی بلال رضی اللہ عنہ کو آواز دیتے تھے کہ لاؤ ہمارا شربت ۔ بلال رضی اللہ عنہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ: ابھی تو دن چمک رہا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ جب رات کی سیاہی مشرق سے اٹھنے لگے ، تو روزے کا وقت ختم ہو جاتا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :195 معتکف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی رمضان کے آخری دس دن مسجد میں رہے اور یہ دن اللہ کے ذکر کے لیے مختص کردے ۔ اس اعتکاف کی حالت میں آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے مسجد سے باہر جا سکتا ہے ، مگر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہوانی لذتوں سے روکے رکھے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :196 یہ نہیں فرمایا کہ ان حدوں سے تجاوز نہ کرنا ، بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے قریب نہ پھٹکنا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مقام سے معصیت کی حد شروع ہوتی ہے ، عین اسی مقام کے آخری کناروں پر گھومتے رہنا آدمی کے لیے خطرناک ہے ۔ سلامتی اس میں ہے کہ آدمی سرحد سے دور ہی رہے تاکہ بھولے سے بھی قدم اس کے پار نہ چلا جائے ۔ یہی مضمون اس حدیث میں بیان ہوا ہے ، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لِکل ملکٍ حِمیٰ و ان حمی اللہ محار مہ ، فمن رتع حول الحمی ، یوشک ان یقع فیہ ۔ عربی زبان میں حِمیٰ اس چراگاہ کو کہتے ہیں ، جسے کوئی رئیس یا بادشاہ پبلک کے لیے ممنوع کر دیتا ہے ۔ اس استعارے کو استعمال کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ”ہر بادشاہ کی ایک حِمیٰ ہوتی ہے اور اللہ کی حِمیٰ اس کی وہ حدیں ہیں ، جن سے اس نے حرام و حلال اور طاعت و معصیت کا فرق قائم کیا ہے ۔ جو جانور حِمیٰ کے گرد ہی چرتا رہے گا ، ہو سکتا ہے کہ ایک روز وہ حِمیٰ کے اندر داخل ہو جائے ۔ “ افسوس ہے کہ بہت سے لوگ جو شریعت کی روح سے ناواقف ہیں ، ہمیشہ اجازت کی آخری حدوں تک ہی جانے پر اصرار کرتے ہیں اور بہت سے علما و مشائخ بھی اسی غرض کے لیے سندیں ڈھونڈ کر جواز کی آخری حدیں انہیں بتایا کرتے ہیں ، تاکہ وہ اس باریک خط امتیاز ہی پر گھومتے رہیں ، جہاں اطاعت اور معصیت کے درمیان محض بال برابر فاصلہ رہ جاتا ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بکثرت لوگ معصیت اور معصیت سے بھی بڑھ کر ضلالت میں مبتلا ہو رہے ہیں ، کیونکہ ان باریک سرحدی خطوط کی تمیز اور ان کے کنارے پہنچ کر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے ۔
رمضان میں مراعات اور کچھ پابندیاں ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ افطار کے بعد کھانا پینا ، جماع کرنا عشاء کی نماز تک جائز تھا اور اگر کوئی اس سے بھی پہلے سوگیا تو اس پر نیند آتے ہی حرام ہوگیا ، اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو قدرے مشقت ہوئی جس یہ رخصت کی آیتیں نازل ہوئیں اور آسانی کے احکام مل گئے رفث سے مراد یہاں جماع ہے ، ابن عباس رضی اللہ عنہ عطا مجاہد سعید بن جبیر طاؤس سالم بن عبداللہ بن عمرو بن دینا حسن قتادو زہری ضحاک ، ابراہیم نخعی ، سدی ، عطا خراسانی ، مقاتل بن حبان رحمہم اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ لباس سے مراد سکون ہے ، ربیع بن انس لحاف کے معنی بیان کرتے ہیں مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ انہیں ان راتوں میں بھی اجازت دی جاتی ہے پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اس آیت کا شان نزول کیا ہے ؟ جس میں بیان ہوچکا ہے کہ جب یہ حکم تھا کہ افطار سے پہلے اگر کوئی سوجائے تو اب رات کو جاگ کر کھاپی نہیں سکتا اب اسے یہ رات اور دوسرا دن گزار کر مغرب سے پہلے کھانا پینا حلال ہوگا حضرت قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ دن بھر کھتی باڑی کا کام کر کے شام کو گھر آئے بیوی سے کہا کچھ کھانے کوہے؟ جواب ملا کچھ نہیں میں جاتی ہوں اور کہیں سے لاتی ہوں وہ تو گئیں اور یہاں ان کی آنکھ لگ گئی جب آکر دیکھا تو بڑا افسوس ہوا کہ اب یہ رات اور دوسرا دن بھوکے پیٹوں کیسے گزرے گا ؟ چنانچہ جب آدھا دن ہوا تو حضرتقیس بھوک کے مارے بیہوش ہوگئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ذکر ہوا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمان بہت خوش ہوئے ۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم رمضان بھر عورتوں کے پاس نہیں جاتے تھے لیکن بعض لوگوں سے کچھ ایسے قصور بھی ہو جایا کرتے تھے جس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ایک اور روایت میں ہے کہ یہ قصور کئی ایک حضرات سے ہوگیا تھا جن میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے جنہوں نے عشاء کی نماز کے بعد اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تھی پھر دربار نبوت میں شکایتیں ہوئی اور یہ رحمت کی آیتیں اتریں ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آکر یہ واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا عمر تم سے تو ایسی امید نہ تھی اسی وقت یہ آیت اتری ایک روایت میں ہے کہ حضرت قیس نے عشاء کی نماز کے بعد نیند سے ہوشیار ہو کر کھاپی لیا تھا اور صبح حاضر ہو کر سرکار محمدی میں اپنا قصور بیان کیا تھا ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب مبارشرت کا ارادہ کیا تو بیوی صاحبہ نے فرمایا کہ مجھے نیند آگئی تھی لیکن انہوں نے اسے بہانہ سمجھا ، اس رات آپ دیر تک مجلس نبوی میں بیٹھے رہے تھے اور بہت رات گئے گھر پہنچے تھے ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا ہی قصور ہوگیا تھا ماکتب اللہ سے مراد اولاد ہے ، بعض نے کہا جماع مراد ہے بعض کہتے ہیں لیلۃ القدر مراد ہے قتادہ کہتے ہیں مراد یہ رخصت ہے تطبیق ان سب اقوال میں اس طرح ہوسکتی ہے کہ عموم کے طور پر سبھی مراد ہیں ۔ جماع کی رخصت کے بعد کھانے پینے کی اجازت مل رہی ہے کہ صبح صادق تک اس کی بھی اجازت ہے صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب من الفجر کا لفظ نہیں اترا تھا تو چند لوگوں نے اپنے پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگے باندھ لئے اور جب تک ان کی سفیدی اور سیاہی میں تمیز نہ ہوئی کھاتے پیتے رہے اس کے بعد یہ لفظ اترا اور معلوم ہوگیا کہ اس سے مراد رات سے دن ہے ، مسند احمد میں ہے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو دھاگے ( سیاہ اور سفید ) اپنے تکئے تلے رکھ لئے اور جب تک ان کے رنگ میں تمیز نہ ہوئی تب تک کھاتا پیتا رہا صبح کو حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تیرا تکیہ بڑا لمبا چوڑا نکل اس سے مراد تو صبح کی سفیدی کا رات کی سیاہی سے ظاہر ہونا ہے ۔ یہ حدیث بخاری ومسلم میں بھی ہے ، مطلب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امر قول کا یہ ہے کہ آیت میں تو دھاگوں سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی تاریکی ہے اگر تیرے تکیہ تلے یہ دونون آجاتی ہوں تو گویا اس کی لمبائی مشرق ومغرب تک کی ہے ، صحیح بخاری میں یہ تفسیر بھی روایتا موجود ہے ، بعض روایتوں میں یہ لفظ بھی ہے کہ پھر تو تو بڑی لمبی چوڑی گردن والا ہے ، بعض لوگوں نے اس کے معنی بیان کئے ہیں کہ کند ذہن ہے لیکن یہ معنی غلط ہیں ، بلکہ مطلب دونوں جملوں کا ایک ہی ہے کیونکہ جب تکیہ اتنا بڑا ہے تو گردن بھی اتنی بڑی ہی ہوگی واللہ اعلم ۔ بخاری شریف میں حضرت عدی کا اسی طرح کا سوال اور آپ کا اسی طرح کا جواب تفصیل وار یہی ہے ، آیت کے ان الفاظ سے سحری کھانے کا مستحب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے اس لئے کہ اللہ کی رخصتوں پر عمل کرنا اسے پسند ہے ، حضور علیہ السلام کا فرمان ہے کہ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہے ( بخاری ومسلم ) ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے ہی کا فرق ہے ( مسلم ) سحری کا کھانا برکت ہے اسے نہ چھوڑو اگر کچھ نہ ملے تو پانی کا گھونٹ ہی سہی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں ( مسند احمد ) اسی طرح کی اور بھی بہت سے حدیثیں ہیں سحری کو دیر کر کے کھانا چاہئے ایسے وقت کہ فراغت کے کچھ ہی دیر بعد صبح صادق ہو جائے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سحری کھاتے ہی نماز کے لئے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اذان اور سحری کے درمیان اتنا ہی فرق ہوتا تھا کہ پچاس آیتیں پڑھ لی جائیں ( بخاری ومسلم ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جب تک میری امت افطار میں جلدی کرے اور سحری میں تاخیر کرے تب تک بھلائی میں رہے گی ۔ ( مسند احمد ) یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نام غذائے مبارک رکھا ہے ، مسند احمد وغیرہ کی حدیچ میں ہے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی ایسے وقت کہ گویا سورج طلوع ہونے والا ہی تھا لیکن اس میں ایک راوی عاصم بن ابو نجود منفرد ہیں اور مراد اس سے دن کی نزدیکی ہے جیسے فرمان باری تعالیٰ فاذا بلغن اجلہن الخ یعنی جب وہ عورتیں اپنے وقتوں کو پہنچ جائیں مراد یہ ہے کہ جب عدت کا زمانہ ختم ہو جانے کے قریب ہو یہی مراد یہاں اس حدیث سے بھی ہے کہ انہوں نے سحری کھائی اور صبح صادق ہو جانے کا یقین نہ تھا بلکہ ایسا وقت تھا کہ کوئی کہتا تھا ہوگئی کوئی کہتا تھا نہیں ہوئی کہ اکثر اصحاب رسول اللہ کا دیر سے سحری کھانا اور آخری وقت تک کھاتے رہنا ثابت ہے جیسے حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت علی ، ابن مسعود ، حضرت حذیفہ ، حضرت ابو ہریرہ حضرت ابن عمر ، حضرت ابن عباس ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین کی بھی ایک بہت بڑی جماعت سے صبح صادق طلوع ہونے کے بالکل قریب تک ہی سحری کھانا مروی ہے ، جیسے محمد بن علی بن حسین ، ابو مجلز ، ابراہیم نخعی ، ابو الضحی ، ابو وائل وغیرہ ، شاگردان ابن مسعود ، عطا ، حسن ، حاکم بن عیینہ ، مجاہد ، عروہ بن زبیر ، ابو الشعثائ ، جابر بن زیاد ، اعمش اور جابر بن رشد کا اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ہم نے ان سب کی اسنادیں اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام میں بیان کردی ہے وللہ الحمد ابن جریری نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ سورج کے طلوع ہونے تک کھانا پینا جائز ہے جیسے غروب ہوتے ہی افطار کرنا ، لیکن یہ قول کوئی اہل علم قبول نہیں کرسکتا کیونکہ نص قرآن کے خلاف ہے قرآن میں حیط کا لفظ موجود ہے ، بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سن کر تم سحری سے نہ رک جایا کرو وہ رات باقی ہوتی ہے اذان دے دیا کرتے ہیں تم کھاتے پیتے رہو جب تک حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان نہ سن لو وہ اذان نہیں کہتے جب تک فجرطلوع نہ ہو جائے ۔ مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ فجر نہیں جو آسمان کے کناروں میں لمبی پھیلتی ہے بلکہ وہ جو سرخی والی اور کنارے کنارے ظاہر ہونے والی ہوتی ہے ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اس میں ہے کہ اس پہلی فجر کو جو طلوع ہو کر اوپر کو چڑھتی ہے دیکھ کر کھانے پینے سے نہ کو بلکہ کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سرخ دھاری پیش ہو جائے ، ایک اور حدیث میں صبح کاذب اور اذان بلال کو ایک ساتھ بھی بیان فرمایا ہے ایک اور روایت میں صبح کاذب کو صبح کی سفیدی کے ستون کی مانند بتایا ہے ، دوسری روایت میں اس پہلی اذان کو جس کے موذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ سوتوں کو جگانے اور نماز تہجد پڑھنے والوں اور قضا لوٹا نے کے لئے ہوتی ، فجر اس طرح نہیں ہے جب تک اس طرح نہ ہو ( یعنی آسمان میں اونچی چڑھنے والی نہیں بلکہ کناروں میں دھاری کی طرح ظاہر ہونے والی ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ فجر دوہیں ایک توبھیڑیے کی دم کی طرح ہے اس سے روزے دار پر کوئی چیز حرام نہیں ہوتی ہاں وہ فجر جو کناروں میں ظاہر ہو وہ صبح کی نماز اور روزے دار کا کھانا موقوف کرنے کا وقت ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو سفیدی آسمان کے نیچے سے اوپر کو چڑھتی ہے اسے نماز کی حلت اور روزے کی حرمت سے کوئی سروکار نہیں لیکن فجر جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چمکنے لگتی ہے وہ کھانا پینا حرام کرتی ہے ۔ حضرت عطا سے مروی ہے کہ آسمان میں لمبی لمبی چڑھنے والی روشنی نہ تو روزہ رکھنے والے پر کھانا پیناحرام کرتی ہے نہ اس سے نماز کا وقت آیا ہوا معلوم ہوسکتا ہے نہ حج فوت ہوتا ہے لیکن جو صبح پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھیل جاتی ہے یہ وہ صبح ہے جو روزہ دار کے لئے سب چیزیں حرام کردیتی ہے اور نمازی کو نماز حلال کردیتی ہے اور حج فوت ہو جاتا ہے ان دونون روایتوں کی سند صحیح ہے اور بہت سے سلف سے منقول ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔ مسئلہ: چونکہ جماع کا اور کھانے پینے کا آخری وقت اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنے والے کے لئے صبح صادق کا مقرر کیا ہے اس سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہوسکتا ہے کہ صبح کے وقت جو شخص جنبی اٹھا وہ غسل کر لے اور اپنا روزہ پورا کرلے اس پر کوئی حرج نہں ، چاروں اماموں اور سلف وخلف کے جمہور علماء کرام کا یہی مذہب ہے ، بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو جماع کرتے صبح کے وقت جنبی اٹھتے پھر غسل کر کے روزہ رکھتے آپ کا یہ جنبہ ہونا احتلام کے سبب نہ ہوتا تھا ، حضرت ام سلمہ والی روایت میں ہے پھر آپ نہ افطار کرتے تھے نہ قضا کرتے تھے ، صحیح مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !میں صبح نماز کا وقت آجانے تک جنبی ہوتا ہوں تو پھر کیا میں روزہ رکھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہی بات میرے ساتھ بھی ہوتی ہے اور میں روزہ رکھتا ہوں اس نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم تو آپ جیسے نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں آپ نے فرمایا واللہ مجھ تو امید ہے کہ تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ تقویٰ کی باتوں کو جاننے والا میں ہوں ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ جب صبح کی اذان ہو جائے اور تم میں سے کوئی جنبی ہو تو وہ اس دن روزہ نہ رکھے ، اس کی اسناد بہت عمدہ ہے اور یہ حدیث شرط شیخین پر ہے ۔ جیسے کہ ظاہر ہے یہ حدیث بخار مسلم میں بھی حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے وہ فضل بن عباس سے روایت کرتے ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنن نسائی میں یہ حدیث بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم ، عطا ، ہشام بن عروہ اور حسن بصری رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر جنبی ہو کر سوگیا ہو اور آنکھ کھلے تو صبح صادق ہوگئی ہو تو اس کے روزے میں کوئی نقصان نہیں حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ والی حدیث کا یہی مطلب ہے اور اگر اس نے عمدا غسل نہیں کیا اور اسی حالت میں صبح صادق ہوگئی تو اس کا روزہ نہیں ہوگا حضرت عروہ ، طاؤس اور حسن یہی کہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں اگر فرضی روزہ ہو تو پورا تو کرلے لیکن قضا لازم ہے اور نفلی روزہ ہو تو کوئی حرج نہیں ، ابراہیم نخعی یہی کہتے ہیں ، خواجہ حسن بصری سے بھی ایک روایت ہے بعض کہتے ہیں حضرت ابو ہریرہ والی حدیث حضرت عائشہ والی حدیث سے منسوخ ہے لیکن حقیقت میں تاریخ کا پتہ نہیں جس سے نسخ ثابت ہو سکے ۔ ابن حزم فرماتے ہیں اس کی ناسخ یہ آیت قرآنی ہے لیکن یہ بھی دور کی بات ہے اس لئے کہ اس آیت کا بعد میں ہونا تاریخ سے ثابت نہیں بلکہ اس حیثیت سے تو بظاہر یہ حدیث اس آیت کے بعد کی ہے ، بعض لوگ کہتے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں لاکمال نفی کا ہے یعنی اس شخص کا روزہ کامل نہیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور حضرت ام سلمہ والی حدیث سے جواز صاف طور سے ثابت ہو رہا ہے یہی مسلک ٹھیک بھی ہے ۔ اور دوسرے تمام اقوال سے یہ قول عمدہ ہے اور یوں کہنے سے دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت بھی نکل آتی ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ روزے کو رات تک پورا کرو اس سے ثابت ہوا کہ سورج کے ڈوبتے ہی روزہ افطار کر لینا چاہئے ، بخاری مسلم میں امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب ادھر سے رات آجائے اور ادھر سے دن چلا جائے توروزے دار افطار کر لے بخاری مسلم میں حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کریں گے خیر سے رہیں گے ، مسند احمد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ مجھے سب سے زیادہ پیارے وہ بندے ہیں جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنے والے ہیں ، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں ، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ بشری بن خصاصیہ کی بیوی صاحبہ حضرت لیلیٰ فرماتی ہیں کہ میں نے دو روزوں کو بغیر افطار کئے ملانا چاہا تو میرے خاوند نے مجھے منع کیا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کام نصرانیوں کا ہے تم تو روزے اس طرح رکھو جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ رات کو روزہ افطار کر لیا کرو اور بھی بہت سی احادیث روزے سے روزے کو ملانے کی ممانعت آئی ہے مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا روزے سے روزہ نہ ملاؤ تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ خود تو ملاتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تم جیسا نہیں ہوں میں رات گزارتا ہوں میرا رب مجھے کھلا پلا دیتا ہے لیکن لوگ پھر بھی اس سے باز نہ رہے تو آپ نے دو دن دو راتوں کا برابر روزہ رکھا پھر چاند دکھائی دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر چاند نہ چڑھتا تو میں یونہی روزوں کو ملائے جاتا گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی عاجزی ظاہر کرنا چاہتے تھے بخاری ومسلم میں بھی یہ حدیث ہے اور اسی طرح روزے کے بے افطار کئے اور رات کو کچھ کھائے بغیر دوسرے روزے سے ملالینے کی ممانعت میں بخاری ومسلم میں حضرت انس حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی مرفوع حدیثیں مروی ہیں ، پس ثابت ہوا کہ امت کو تو منع کیا گیا ہے لیکن آپ کی ذات اس سے مستثنی تھی آپ کو اس کی طاقت تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی مدد کی جاتی تھی ، یہ بھی خیال رہے کہ مجھے میرا رب کھلا پلا دیتا ہے اس سے مراد حقیقتا کھانا پینا نہیں کیونکہ پھر تو روزے سے روزے کا وصال نہ ہوا بلکہ یہ صرف روحانی طور پر مدد ہے جیسے کہ ایک عربی شاعر کا شعر ہے لہا احادیث من ذکراک تشغلہا عن الشراب وتلہیہا عن الزاد یعنی اسے تیرے ذکر اور تیری باتوں میں وہ دلچسپی ہے کہ کھانے پینے یک قلم بےپرواہ ہو جاتی ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص دوسری سحری تک رک رہنا چاہے تو یہ جائز ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا روزے کو روزے سے مت ملاؤجو ملنا ہی چاہے تو سحری تک ملا لے لوگوں نے کہا کہ آپ تو ملا دیتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تم جیسا نہیں مجھے تو رات ہی کو کھلانے والا کھلادیتا ہے اور پلانے والا پلا دیتا ہے ( بخاری مسلم ) ایک اور روایت میں ہے کہ ایک صحابیہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی آپ سحری کھا رہے تھے فرمایا آؤ تم بھی کھالو اس نے کہا میں توروزے سے ہوں آپ نے فرمایا تم روزہ کس طرح رکھتی ہو اس نے بیان کیا ۔ تو آپ نے فرمایا آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح سحری کے وقت سے دوسری سحری کے وقت تک کا ملا ہوا روزہ کیوں نہیں رکھتیں؟ ( ابن جریر ) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سحری سے دوسری سحری تک کا روزہ رکھتے تھے ، ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ وغیرہ سلف صالحین سے مروی ہے کہ وہ کئی کئی دن تک پے درپے بغیر کچھ کھائے روزہ رکھتے تھے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عبادت کے طور پر نہ تھا کہ بلکہ نفس کو مارنے کے لئے ریاضت کے طور پر تھا واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے سمجھا ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس سے روکنا صرف شفقت اور مہربانی کے طور پر نہ تھا کہ ناجائز بتانے کے طور پر جیسے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں آپ نے لوگوں پر رحم کھا کر اس سے منع فرمایا تھا ، پس ابن زبیر اور ان کے صاحبزادے عامر اور ان کی راہ چلنے والے اپنے نفس میں قوت پاتے تھے اور روزے پر روزہ رکھے جاتے تھے ، یہ بھی مروی کہ جب وہ افطار کرتے تو پہلے گھی اور کڑوا گوند کھاتے تاکہ پہلے غذا پہنچنے سے آنتیں جل نہ جائیں ، مروی ہے کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سات سات دن تک برابر روزے سے رہتے اس اثناء میں دن کو یا رات کو کچھ نہ کھاتے اور پھر ساتویں دن خوب تندرست چست وچالاک اور سب سے زیادہ قوی پائے جاتے ، ابو العالیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دن کا روزہ فرض کردیا رہی رات تو جو چاہے کھالے جو نہ چاہے نہ کھائے پھر فرمان ہوتا ہے کہ اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت نہ کرو ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے جو شخص مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا ہو خواہ رمضان میں خواہ اور مہینوں میں اس پر دن کے وقت یا رات کے وقت اپنی بیوی سے جماع کرنا حرام ہے جب تک اعتکاف پورا نہ ہو جائے حضرت ضحاک فرماتے ہیں پہلے لوگ اعتکاف کی حالت میں بھی جماع کرلیا کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے پر جماع حرام کیا گیا مجاہد اور قتادہ بھی یہی کہتے ہیں پس علمائے کرام کا متفقہ فتویٰ ہے کہ اعتکاف والا اگر کسی ضروری حاجت کے لئے گھر میں جائے مثلا پیشاب پاخانہ کے لئے یا کھانا کھانے کے لئے تو اس کام سے فارغ ہوتے ہی مسجد میں چلا آئے وہاں ٹھہرنا جائز نہیں نہ اپنی بیوی سے بوس وکنار وغیرہ جائز ہے نہ کسی اور کام میں سوائے اعتکاف کے مشغول ہونا اس کے لئے جائز ہے بلکہ بیمار کی بیمار پرسی کے لئے بھی جانا جائز نہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ چلتے چلتے پوچھ لے اعتکاف کے اور بھی بہت سے احکام ہیں بعض میں اختلاف بھی ہے جن سب کو ہم نے اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام کے آخر میں بیان کیے ہیں وللہ الحمد والمنۃ ۔ چونکہ قرآن پاک میں روزے کے بیان کے بعد اعتکاف کا ذکر ہے اس لیے اکثر مصنفین نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں روزے کے بعد ہی اعتکاف کے احکام بیان کئے ہیں اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اعتکاف روزے کی حالت میں کرنا چاہئے یا رمضان کے آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی رمضان شریف کے آخری دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کو وفات آئی آپ کے بعد امہات المومنین آپ کی بیویاں اعتکاف کیا کرتی تھیں ( بخاری ومسلم ) بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت صفیہ بنت حیی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آپ کی اعتکاف کی حالت میں حاضر ہوتی تھیں اور کوئی ضروری بات پوچھنے کی ہوتی تو وہ دریافت کر کے چلی جاتی ایک مرتبہ رات کو جب جانے لگیں تو چونکہ مکان مسجد نبوی سے فاصلہ پر تھا اس لئے حضور ساتھ ہو لئے کہ پہنچا آئیں راستہ میں دو انصاری صحابی مل گئے اور آپ کے ساتھ آپ کی بیوی صاحبہ کو دیکھ کر شرم کے مارے جلدی جلدی قدم بڑھا کر جانے لگے ۔ آپ نے فرمایا ٹھہر جاؤ سنو یہ میری بیوی صفیہ ہیں وہ کہنے لگے سبحان اللہ! ( کیا ہمیں کوئی اور خیال بھی ہو سکتا ہے؟ ) آپ نے فرمایا شیطان انسان کی رگ رگ میں خون کی طرح پھرتا رہتا ہے مجھے خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دل میں کوئی بدگمانی نہ پیدا کر دے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس واقعہ سے اپنی امت کو گویا سبق سکھا رہے ہیں کہ وہ تہمت کی جگہوں سے بچتے رہیں ورنہ ناممکن ہے کہ وہ پاکباز صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کوئی برا خیال بھی دل میں لائیں اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آپ ان کی نسبت یہ خیال فرمائیں واللہ اعلم ۔ آیت میں مراد مباشرت سے جماع اور اس کے اسباب ہیں جیسے بوس وکنار وغیرہ ورنہ کسی چیز کا لینا دینا وغیرہ یہ سب باتیں جائز ہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف کی حالت میں میری طرف جھکا دیا کرتے تھے میں آپ کے سر میں کنگھی کر دیا کرتی تھی حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی آپ اعتکاف کے دنوں میں ضروری حاجت کے رفع کے سوا اور وقت گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے حضرت عائشہ فرماتی ہیں اعتکاف کی حالت میں تو چلتے چلتے ہی گھر کے بیمار کی بیمار پرسی کر لیا کرتی ہوں ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ ہماری بیان کردہ باتیں اور فرض کئے ہوئے احکام اور مقرر کی ہوئی حدیں ہیں روزے اور روزوں کے احکام اور اس کے مسائل اور اس میں جو کام جائز ہیں یا جو ناجائز ہیں غرض وہ سب ہماری حدبندیاں ہیں خبردار ان کے قریب بھی نہ آنا نہ ان سے تجاوز کرنا نہ ان کے آگے بڑھنا بعض کہتے ہیں یہ حد اعتکاف کی حالت میں مباشرت سے الگ رہنا ہے بعض کہتے ہیں ان آیتوں کے چاروں حکم مراد ہے پھر فرمایا جس طرح روزے اور اس کے احکام اور اس کے مسائل اور اس کی تفصیل ہم نے بیان کر دی اسی طرح اور احکام بھی ہم اپنے بندے اور رسول کی معرفت سب کے سب تمام جہان کے لئے بیان کیا کرتے ہیں تاکہ وہ یہ معلوم کر سکیں کہ ہدایت کیا ہے اور اطاعت کسے کہتے ہیں؟ اور اس بنا پر وہ متقی بن جائیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰي عَبْدِهٖٓ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ) 57 ۔ الحدید:9 ) وہ اللہ جو اپنے بندے پر روشن آیتیں نازل فرماتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے اللہ تعالیٰ تم پر رافت ورحمت کرنے والا ہے ۔