Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَلَا تَاۡكُلُوۡٓا اَمۡوَالَـكُمۡ بَيۡنَكُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَتُدۡلُوۡا بِهَآ اِلَى الۡحُـکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِيۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿188﴾
اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو ، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کر لیا کرو ، حالانکہ تم جانتے ہو ۔
و لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل و تدلوا بها الى الحكام لتاكلوا فريقا من اموال الناس بالاثم و انتم تعلمون
And do not consume one another's wealth unjustly or send it [in bribery] to the rulers in order that [they might aid] you [to] consume a portion of the wealth of the people in sin, while you know [it is unlawful].
Aur aik doosray ka maal na haq na khaya kero na hakimon ko rishwat phoncha ker kissi ka kuch maal zulm-o-sitam say apna liya kero halankay tum jantay ho.
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ ، اور نہ ان کا مقدمہ حاکموں کے اس سے غرض سے لے جاؤکہ لوگوں کے مال کا کوئی حصہ جانتے بوجھتے ہڑپ کرنے کا گناہ کرو ۔
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھاؤ ( ف۳٤۳ ) جان بوجھ کر ،
اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے ۔ 197 ؏۲۳
اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو ( بطورِ رشوت ) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم ( بھی ) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو ( کہ یہ گناہ ہے )
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :197 اس آیت کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ حا کموں کو رشوت دے کر ناجائز فائدے اٹھانے کی کوشش نہ کرو ۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب تم خود جانتے ہو کہ مال دوسرے شخص کا ہے ، تو محض اس لیے کہ اس کے پاس اپنی ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے یا اس بنا پر کہ کسی اینچ پینچ سے تم اس کو کھا سکتے ہو ، اس کا مقدمہ عدالت میں نہ لے جاؤ ۔ ہو سکتا ہے کہ حاکم عدالت روداد مقدمہ کے لحاظ سے وہ مال تم کو دلوا دے ۔ مگر حاکم کا ایسا فیصلہ دراصل غلط بنائی ہوئی روداد سے دھوکا کھا جانے کا نتیجہ ہو گا ۔ اس لیے عدالت سے اس کی ملکیت کا حق حاصل کر لینے کے باوجود حقیقت میں تم اس کے جائز مالک نہ بن جاؤ گے ۔ عنداللہ وہ تمہارے لیے حرام ہی رہے گا ۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انما انا بشر و انتم تختصمون الی و لعل بعضکم یکون الحنَ بحجتہ من بعض ، فا قضی لہ علی نحو ما اسمع منہ ۔ فمن قضیت لہ بشیء من حق اخیہ ، فانما ا قضی لہ قطعۃ من النار ۔ یعنی میں بہر حال ایک انسان ہی تو ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لاؤ اور تم سے ایک فریق دوسرے کی بہ نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں ۔ مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں سے کوئی چیز تم نے میرے فیصلہ کے ذریعے سے حاصل کی ، تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کر و گے ۔
منصف ، انصاف اور مدعی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت اس شخص کے بارے میں ہے جس پر کسی اور کا مال چاہئے اور اس حقدار کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو یہ شخص کا انکار کر جائے اور حاکم کے پاس جاکر بری ہو جائے حالانکہ وہ جانتا ہو کہ اس پر اس کا حق ہے وہ اس کا مال مار رہا ہے اور حرام کھا رہا ہے اور اپنے تئیں گنہگاروں میں کر رہا ہے ، حضرت مجاہد سعید بن جبیر ، عکرمہ ، مجاہد ، حسن ، قتادہ ، سدی مقاتل بن حیان ، عبدالرحمن بن زید اسلم بھی یہی فرماتے ہیں کہ باوجود اس علم کے کہ تو ظالم ہے جھگڑا نہ کر ، بخاری ومسلم میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں انسان ہوں میرے پاس لوگ جھگڑا لے کر آتے ہیں شاید ایک دوسرے سے زیادہ حجت باز ہو اور میں اس کی چکنی چپڑی تقریر سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں ( حالانکہ درحقیقت میرا فیصلہ واقعہ کے خلاف ہو ) تو سمجھ لو کہ جس کے حق میں اس طرح کے فیصلہ سے کسی مسلمان کے حق کو میں دلوا دوں وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے خواہ اٹھا لے خواہ نہ اٹھائے ، میں کہتا ہوں یہ آیت اور حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ حاکم کا حکم کسی معاملہ کی حقیقت کو شریعت کے نزدیک بدلتا نہیں ، فی الواقع بھی نفس الامر کے مطابق ہو تو خیر ورنہ حاکم کو تو اجر ملے گا ، لیکن اس فیصلہ کی بنا پر حق کو ناحق کو حق لینے والا اللہ کا مجرم ٹھہرے گا اور اس پر وبال باقی رہے گا ، جس پر آیت مندرجہ بالا گواہ ہے ، کہ تم اپنے دعوے کو باطل ہونے کا علم رکھتے ہوئے لوگوں کے مال مار کھانے کے لئے جھوٹے مقدمات بنا کر جھوٹے گواہ گزار کر ناجائز طریقوں سے حکام کو غلطی کھلا کر اپنے دعووں کو ثابت نہ کیا کرو ، حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں لوگو! سمجھ لو کہ قاضی کا فیصلہ تیرے لئے حرام کو حلال نہیں کر سکتا اور نہ باطل کو حق کر سکتا ہے ، قاضی تو اپنی عقل سمجھ سے گواہوں کی گواہی کے مطابق ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ صادر کر دیتا ہے اور وہ بھی آخر انسان ممکن ہے خطا کرے اور ممکن ہے خطا سے بچ جائے تو جان لو کہ اگر فیصلہ قاضی کا واقعہ کے خلاف ہو تو تم صرف قاضی کا فیصلہ اسے جائز مال نہ سمجھ لو یہ جھگڑا باقی ہی ہے یہاں تک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دونوں جمع کرے اور باطل والوں پر حق والوں کو غلبہ دے کر ان کا حق ان سے دلوائے اور دنیا میں جو فیصلہ ہوا تھا اس کے خلاف فیصلہ صادر فرما کر اس کی نیکیوں میں اسے بدلہ دلوائے ۔