Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
يَسۡـــَٔلُوۡنَكَ عَنِ الۡاَهِلَّةِ ‌ؕ قُلۡ هِىَ مَوَاقِيۡتُ لِلنَّاسِ وَالۡحَجِّ ؕ وَلَيۡسَ الۡبِرُّ بِاَنۡ تَاۡتُوا الۡبُيُوۡتَ مِنۡ ظُهُوۡرِهَا وَلٰـكِنَّ الۡبِرَّ مَنِ اتَّقٰى‌ۚ وَاۡتُوا الۡبُيُوۡتَ مِنۡ اَبۡوَابِهَا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‏‏‏ ﴿189﴾
لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں ( کی عبادت ) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لئے ہے ( احرام کی حالت میں ) اور گھروں کےپیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں ، بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو اور گھروں میں تو دروازوں میں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ ۔
يسلونك عن الاهلة قل هي مواقيت للناس و الحج و ليس البر بان تاتوا البيوت من ظهورها و لكن البر من اتقى و اتوا البيوت من ابوابها و اتقوا الله لعلكم تفلحون
They ask you, [O Muhammad], about the new moons. Say, "They are measurements of time for the people and for Hajj." And it is not righteousness to enter houses from the back, but righteousness is [in] one who fears Allah. And enter houses from their doors. And fear Allah that you may succeed.
Log aap say chaand kay baray mein sawal kertay hain aap keh dijiye kay yeh logon ( ki ibadat ) kay waqton aur hajj kay mausam kay liye hai ( ehraam ki halat main ) aur gharon kay peechay say tumhara aana kuch neki nahi bulkay neki wala woh hai jo muttaqi ho. Aur gharon mein to darwazon say aaya kero aur Allah say dartay raho takay tum kaamyaab hojao.
لوگ آپ سے نئے مہینوں کے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں ، آپ انہیں بتا دیجیئے کہ یہ لوگوں ( کے مختلف معاملات کے ) اور حج کے اوقات متعین کرنے کے لیے ہیں ۔ اور یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے داخل ہو ( ١٢٠ ) بلکہ نیکی یہ ہے کہ انسان تقوی اختیار کرے ، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو ۔
تم سے نئے چاند کو پوچھتے ہیں ( ف۳٤٤ ) تم فرمادو وہ وقت کی علامتیں ہیں لوگوں اور حج کے لئے ( ف۳٤۵ ) اور یہ کچھ بھلائی نہیں کہ ( ف۳٤٦ ) گھروں میں پچھیت ( پچھلی دیوار ) توڑ کر آؤ ہاں بھلائی تو پرہیزگاری ہے ، اور گھروں میں دروازوں سے آؤ ( ف۳٤۷ ) اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ فلاح پاؤ
ا لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ کہو : یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کی تعیین کی اور حج کی علامتیں ہیں ۔ 198 نیز ان سے کہو : یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہوتے ہو ۔ نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے ۔ لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو ۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو ۔ شاید کہ تمھیں فلاح نصیب ہو جائے ۔ 199
۔ ( اے حبیب! ) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ، فرما دیں: یہ لوگوں کے لئے اور ماہِ حج ( کے تعیّن ) کے لئے وقت کی علامتیں ہیں ، اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم ( حالتِ احرام میں ) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو ( ایسی الٹی رسموں کی بجائے ) پرہیزگاری اختیار کرنا ہے ، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :198 چاند کا گھٹنا بڑھنا ایک ایسا منظر ہے ، جس نے ہر زمانے میں انسان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچا ہے اور اس کے متعلق طرح طرح کے اوہام و تخیلات اور رسوم دنیا کی قوموں میں رائج رہے ہیں اور اب تک رائج ہیں ۔ اہل عرب میں بھی اس قسم کے اوہام موجود تھے ۔ چاند سے اچھے یا برے شگون لینا ، بعض تاریخوں کو سعد اور بعض کو نحس سمجھنا ، کسی تاریخ کو سفر کے لیے اور کسی کو ابتدائے کار کے لیے اور کسی کو شادی بیاہ کے لیے منحوس یا مسعود خیال کرنا اور یہ سمجھنا کہ چاند کے طلوع و غروب اور اس کی کمی بیشی اور اس کی حرکت اور اس کے گہن کا کوئی اثر انسانی قسمتوں پر پڑتا ہے ، یہ سب باتیں دوسری جاہل قوموں کی طرح اہل عرب میں بھی پائی جاتی تھیں اور اس سلسلے میں مختلف توہم پرستانہ رسمیں ان میں رائج تھیں ۔ انہی چیزوں کی حقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کی گئی ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ گھٹتا بڑھتا چاند تمہارے لیے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک قدرتی جنتری ہے ، جو آسمان پر نمودار ہو کر دنیا بھر کے لوگوں کو بیک وقت ان کی تاریخوں کا حساب بتاتی رہتی ہے ۔ حج کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرما یا کہ عرب کی مذہبی ، تمدنی اور معاشی زندگی میں اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر تھی ۔ سال کے چار مہینے حج اور عمرے سے وابستہ تھے ۔ ان مہینوں میں لڑائیاں بند رہتیں ، راستے محفوظ ہوتے اور امن کی وجہ سے کاروبار فروغ پاتے تھے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :199 منجملہ ان توہم پرستانہ رسموں کے ، جو عرب میں رائج تھیں ، ایک یہ بھی تھی کہ جب حج کے لیے احرام باندھ لیتے تو اپنے گھروں میں دروازے سے داخل نہ ہوتے تھے ، بلکہ پیچھے سے دیوار کود کر یا دیوار میں کھڑکی سی بنا کر داخلل ہوتے تھے ۔ نیز سفر سے واپس آکر بھی گھروں میں پیچھے سے داخل ہوا کرتے تھے ۔ اس آیت میں نہ صرف اس رسم کی تردید کی گئی ہے ، بلکہ تمام اوہام پر یہ کہہ کر ضرب لگائی گئی ہے کہ نیکی دراصل اللہ سے ڈرنے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے بچنے کا نام ہے ۔ ان بے معنی رسموں کو نیکی سے کوئی واسطہ نہیں ، جو محض باپ دادا کی اندھی تقلید میں برتی جا رہی ہیں اور جن کا انسان کی سعادت و شقاوت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
چاند اور مہ وسال حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لوگوں نے چاند کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اس سے قرض وغیرہ کے وعدوں کی میعاد معلوم ہو جاتی ہے ، عورتوں کی عدت کا وقت معلوم ہوتا ہے ، حج کا وقت معلوم ہوتا ہے ، مسلمانوں کے روزے کے افطار کا تعلق بھی اسی سے ہے ، مسند عبدالرزاق میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے چاند کو لوگوں کے وقت معلوم کرنے کے لئے بنایا ہے اسے دیکھ کر روزے رکھو اسے دیکھ کر عید مناؤ اگر ابر وباراں کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو تیس دن پورے گن لیا کرو ، اس روایت کو حضرت امام حاکم نے صحیح کہا ہے یہ حدیث اور سندوں سے بھی مروی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک موقوف روایت میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے ۔ آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ بھلائی گھروں کے پیچھے سے آنے میں نہیں بلکہ بھلائی تقویٰ میں ہے گھروں میں دروازوں سے آؤ ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جاہلیت کے زمانہ یہ دستور تھا کہ احرام میں ہوتے تو گھروں میں پشت کی جانب سے آتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ابو داؤد طیالسی میں بھی یہ روایت ہے انصار کا عام دستور تھا کہ سفر سے جب واپس آتے تو گھر کے دروازے میں نہیں گھستے تھے دراصل یہ بھی جاہلیت کے زمانہ میں قریشیوں نے اپنے لیے ایک اور امتیاز قائم کر لیا تھا کہ اپنا نام انہوں نے حمس رکھا تھا احرام کی حالت یہ تو براہ راست اپنے گھروں میں آسکتے تھے لیکن دوسرے لوگ سیدھے راستے گھروں میں داخل نہیں ہو سکتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک باغ سے اس کے دروازے سے نکلے تو آپ کے ایک انصاری صحابی حضرت قطبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہی اسی دروازے سے نکلے اس پر لوگوں نے حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو ایک تجارت پیشہ شخص ہیں یہ آپ کے ساتھ آپ کی طرح اس دروازے سے کیوں نکلے؟ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جواب دیا کہ میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس طرح کرتے دیکھا کیا ۔ مانا کہ آپ حمس میں سے ہیں لیکن میں بھی تو آپ کے دین پر ہی ہوں ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( ابن ابی حاتم ) حضرت ابن عباس وغیرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں بہت سی قوموں کا یہ رواج تھا کہ جب وہ سفر کے ارادے سے نکلتے پھر سفر ادھورا چھوڑ کر اگر کسی وجہ سے واپس چلے آتے تو گھر کے دروازے سے گھر میں نہ آتے بلکہ پیچھے کی طرف سے چڑھ کر آتے جس سے اس آیت میں روکا گیا ، محمد بن کعب فرماتے ہیں اعتکاف کی حالت میں بھی یہی دستور تھا جسے اسلام نے ختم کیا ، عطا فرماتے ہیں اہل مدینہ کا عیدوں میں بھی یہی دستور تھا جسے اسلام نے ختم کر دیا ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بجا لانا اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جانا اس کا ڈر دل میں رکھنا یہ چیزیں ہیں جو دراصل اس دن کام آنے والی ہیں جس دن ہر شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اور پوری پوری جزا سزا پائے گا ۔