Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
وَاللّٰهُ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِكُمۡ بَنِيۡنَ وَحَفَدَةً وَّرَزَقَكُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ‌ؕ اَفَبِالۡبَاطِلِ يُؤۡمِنُوۡنَ وَبِنِعۡمَتِ اللّٰهِ هُمۡ يَكۡفُرُوۡنَۙ‏ ﴿72﴾
اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے تم میں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لئےتمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے اور تمہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں ۔ کیا پھر بھی لوگ باطل پر ایمان لائیں گے؟ اور اللہ تعالٰی کی نعمتوں کی ناشکری کریں گے؟
و الله جعل لكم من انفسكم ازواجا و جعل لكم من ازواجكم بنين و حفدة و رزقكم من الطيبت افبالباطل يؤمنون و بنعمت الله هم يكفرون
And Allah has made for you from yourselves mates and has made for you from your mates sons and grandchildren and has provided for you from the good things. Then in falsehood do they believe and in the favor of Allah they disbelieve?
Allah Taalaa ney tumharay liye tum mein say hi tumhari biwiyan peda kin aur tumhari biwiyon say tumharay liye tumharay betay aur potay peda kiye aur tumhen achi achi cheezen khaney ko den. Kiya phir bhi log baatil per eman layen ga? Aur Allah Taalaa ki nematon ki na shukri keren gay?
اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لیے بیویاں بنائی ہیں ، اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لیے بیٹے اور پوتے پیدا کیے ہیں ، اور تمہیں اچھی اچھی چیزوں میں سے رزق فراہم کیا ہے ۔ کیا پھر بھی یہ لوگ بے بنیاد باتوں پر ایمان لاتے اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں؟
اور اللہ نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے عورتیں بنائیں اور تمہارے لیے تمہاری عورتوں سے بیٹے اور پوتے نواسے پیدا کیے اور تمہیں ستھری چیزوں سے روزی دی ( ف۱۵٦ ) تو کیا جھوٹی بات ( ف۱۵۷ ) پر یقین لاتے ہیں اور اللہ کے فضل ( ف۱۵۸ ) سے منکر ہوتے ہیں ،
اور وہ اللہ ہی جس نے تمہارے لیے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے اور اچھی اچھی چیزیں تمہیں کھانے کو دیں ۔ پھر کیا یہ لوگ ﴿یہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی﴾ باطل کو مانتے ہیں 63 اور اللہ کے احسان کا انکار کرتے ہیں 64
اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لئے جوڑے پیدا فرمائے اور تمہارے جوڑوں ( یعنی بیویوں ) سے تمہارے لئے بیٹے اور پوتے/ نواسے پیدا فرمائے اور تمہیں پاکیزہ رزق عطا فرمایا ، تو کیا پھر بھی وہ ( حق کو چھوڑ کر ) باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ ناشکری کرتے ہیں
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :63 ”باطل کو مانتے ہیں“ ، یعنی یہ بے بنیاد اور بے حقیقت عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا ، ان کی مرادیں بر لانا اور دعائیں سننا ، انہیں اولاد دینا ، ان کو روزگار دلوانا ، ان کے مقدمے جتوانا ، اور انہیں بیماریوں سے بچانا کچھ دیویوں اور دیوتاؤں اور جنوں اور اگلے پچھلے بزرگوں کے اختیار میں ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :64 اگرچہ مشرکین مکہ اس بات سے انکار نہیں کرتےتھے کہ یہ ساری نعمتیں اللہ کی دی ہوئی ہیں ، اور ان نعمتوں پر اللہ کا احسان ماننے سے بھی انہیں انکار نہ تھا ، لیکن جو غلطی وہ کرتے تھے وہ یہ تھی کہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ان بہت سی ہستیوں کا شکریہ بھی زبان اور عمل سے ادا کرتے تھے جن کو انہوں نے بلا کسی ثبوت اور بلا کسی سند کے اس نعمت بخشی میں دخیل اور حصہ دار ٹھیرا رکھا تھا ۔ اسی چیز کو قرآن” اللہ کے احسان کا انکار ” قرار دیتا ہے ۔ قرآن میں یہ بات بطور ایک قاعدہ کلیہ کے پیش کی گئی ہے کہ محسن کے احسان کا شکریہ غیر محسن کو ادا کرنا دراصل محسن کے احسان کا انکار کرنا ہے ۔ اسی طرح قرآن یہ بات بھی اصول کے طور پر بیان کرتا ہے کہ محسن کے متعلق بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے یہ گمان کر لینا کہ اس نے خود اپنے فضل و کرم سے یہ احسان نہیں کیا ہے بلکہ فلاں شخص کے طفیل ، یا فلاں کی رعایت سے ، یا فلاں کی سفارش سے ، یا فلاں کی مداخلت سے کیا ہے ، یہ بھی دراصل اس کے احسان کا انکار ہی ہے ۔ یہ دونوں اصولی باتیں سراسر انصاف اور عقل عام کے مطابق ہیں ۔ ہر شخص خود بادنی تأمل ان کی معقولیت سمجھ سکتا ہے ۔ فرض کیجیے کہ آپ ایک حاجت مند آدمی پر رحم کھا کر اس کی مدد کرتے ہیں ، اور وہ اسی وقت اٹھ کر آپ کے سامنے ایک دوسرے آدمی کا شکریہ ادا کر دیتا ہے جس کا اس امداد میں کوئی دخل نہ تھا ۔ آپ چاہے اپنی فراخ دلی کی بنا پر اس کی اس بیہودگی کو نظر انداز کر دیں اور آئندہ بھی اپنی امداد کا سلسلہ جاری رکھیں ، مگر اپنے دل میں یہ ضرور سمجھیں گے کہ یہ ایک نہایت بدتمیز اور احسان فراموش آدمی ہے ۔ پھر اگر دریافت کر نے پر آپ کو معلوم ہو کہ اس شخص نے یہ حرکت اس خیال کی بنا پر کی تھی کہ آپ نے اس کی جو کچھ بھی مدد کی ہے وہ اپنی نیک دلی اور فیاضی کی وجہ سے نہیں کی بلکہ اس دوسرے شخص کی خاطر کی ہے ، درانحالیکہ یہ واقعہ نہ تھا ، تو آپ لا محالہ اسے اپنی توہین سمجھیں گے ۔ اس کی اس بیہودہ تاویل کا صریح مطلب آپ کے نزدیک یہ ہوگا کہ وہ آپ سے سخت بدگمان ہے اور آپ کے متعلق یہ رائے رکھتا ہے کہ آپ کوئی رحیم اور شفیق انسان نہیں ہیں ، بلکہ محض ایک دوست نواز اور یارباش آدمی ہیں ، چند لگے بندھے دوستوں کے توسُّل سے کوئی آئے تو آپ اس کی مدد ان دوستوں کی خاطر کر دیتے ہیں ، ورنہ آپ کے ہاتھ سے کسی کو کچھ فیض حاصل نہیں ہو سکتا ۔
بندوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان اپنے بندوں پر اپنا ایک اور احسان جتاتا ہے کہ انہی کی جنس سے انہی کی ہم شکل ، ہم وضع عورتیں ہم نے ان کے لئے پیدا کیں ۔ اگر جنس اور ہوتی تو دلی میل جول ، محبت و موعدت قائم نہ رہتی لیکن اپنی رحمت سے اس نے مرد عورت ہم جنس بنائے ۔ پھر اس جوڑے سے نسل بڑھائی ، اولاد پھیلائی ، لڑکے ہوئے ، لڑکوں کے لڑکے ہوئے ، حفدہ کے ایک معنی تو یہی پوتوں کے ہیں ، دوسرے معنی خادم اور مددگار کے ہیں پس لڑکے اور پوتے بھی ایک طرح خدمت گزار ہوتے ہیں اور عرب میں یہی دستور بھی تھا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں انسان کی بیوی کی سابقہ گھر کی اولاد اس کی نہیں ہوتی ۔ حفدہ اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو کسی کے سامنے اس کے لئے کام کاج کرے ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ اس سے مراد دامادی رشتہ ہے اس کے معنی کے تحت میں یہ سب داخل ہیں ، چنانچہ قنوت میں جملہ آتا ہے والیک نسعی ونحفد ہماری سعی کوشش اور خدمت تیرے لئے ہی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اولاد سے ، غلام سے ، سسرال والوں سے ، خدمت حاصل ہوتی ہے ان سب کے پاس سے نعمت الہی ہمیں ملتی ہے ۔ ہاں جن کے نزدیک وحفدۃ کا تعلق ازواجا سے ہے ان کے نزدیک تو مراد اولاد اور اولاد کی اولاد اور داماد اور بیوی کی اولاد ہیں ۔ پس یہ سب بسا اوقات اسی شخص کی حفاظت میں ، اس کی گود میں اور اس کی خدمت میں ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ یہی مطلب سامنے رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ اولاد تیری غلام ہے ۔ جیسے کہ ابو داؤد میں ہے اور جنہوں نے حفدہ سے مراد خادم لیا ہے ۔ ان کے نزدیک یہ معطوف ہے اللہ کے فرمان آیت ( وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِيْنَ وَحَفَدَةً وَّرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ 72؀ۙ ) 16- النحل:72 ) پر یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیویوں اور اولاد کو خادم بنا دیا ہے اور تمہیں کھانے پینے کی بہترین ذائقے دار چیزیں عنایت فرمائی ہیں پس باطل پر یقین رکھ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری نہ کرنی چاہئے ۔ رب کی نعمتوں پر پردہ ڈال دیا اور ان کی دوسروں کی طرف نسبت کر دی ۔ صحیح حدیث میں ہے کے قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے احسان جتاتے ہوئے فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی نہیں دی تھی ؟ میں نے تجھے ذی عزت نہیں بنایا تھا ؟ میں نے گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرے تابع نہیں کیا تھا اور میں نے تجھے سرداری میں اور آرام میں نہیں چھوڑا تھا ؟