Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعۡضَكُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ فِى الرِّزۡقِ‌ۚ فَمَا الَّذِيۡنَ فُضِّلُوۡا بِرَآدِّىۡ رِزۡقِهِمۡ عَلٰى مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُمۡ فَهُمۡ فِيۡهِ سَوَآءٌ‌ ؕ اَفَبِنِعۡمَةِ اللّٰهِ يَجۡحَدُوۡنَ‏ ﴿71﴾
اللہ تعالٰی ہی نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر روزی میں زیادتی دے رکھی ہے ، پس جنہیں زیادتی دی گئی ہے وہ اپنی روزی اپنے ما تحت غلاموں کو نہیں دیتے کہ وہ اور یہ اس میں برابر ہوجائیں تو کیا یہ لوگ اللہ کی نعمتوں کے منکر ہو رہے ہیں ۔
و الله فضل بعضكم على بعض في الرزق فما الذين فضلوا برادي رزقهم على ما ملكت ايمانهم فهم فيه سواء افبنعمة الله يجحدون
And Allah has favored some of you over others in provision. But those who were favored would not hand over their provision to those whom their right hands possess so they would be equal to them therein. Then is it the favor of Allah they reject?
Allah Taalaa hi ney tum mein say aik ko doosray per rozi mein ziyadti dey rakhi hai pus jinhen ziyadti di gaee hai woh apni rozi apney matehat ghulamon ko nahi detay kay woh aur yeh iss mein barabar hojayen to kiya yeh log Allah ki nematon kay munkir ho rahey hain?
اور اللہ نے تم میں سے کچھ لوگوں کو رزق کے معاملے میں دوسروں پر برتری دے رکھی ہے ۔ اب جن لوگوں کو برتری دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں کو اس طرح نہیں لوٹا دیتے کہ وہ سب برابر ہوجائیں ۔ ( ٣٠ ) تو کیا یہ لوگ اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں؟ ( ٣١ )
اور اللہ نے تم میں ایک دوسرے پر رزق میں بڑائی دی ( ف۱۵۳ ) تو جنہیں بڑائی دی ہے وہ اپنا رزق اپنے باندی غلاموں کو نہ پھیر دیں گے کہ وہ سب اس میں برابر ہوجائیں ( ف۱۵٤ ) تو کیا اللہ کی نعمت سے مکرتے ہیں ، ( ف۱۵۵ )
اور دیکھو ، اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے ، پھر جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیر دیا کرتے ہوں تاکہ دونوں اس رزق میں برابر کے حصہ دار بن جائیں ۔ تو کیا اللہ ہی کا احسان ماننے سے ان لوگوں کو انکار ہے 62 ؟
اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق ( کے درجات ) میں فضیلت دی ہے ( تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے ) ، مگر جن لوگوں کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنی دولت ( کے کچھ حصہ کو بھی ) اپنے زیردست لوگوں پر نہیں لوٹاتے ( یعنی خرچ نہیں کرتے ) حالانکہ وہ سب اس میں ( بنیادی ضروریات کی حد تک ) برابر ہیں ، تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :62 زمانہ حال میں اس آیت سے جو عجیب و غریب معنی نکالے گئے ہیں وہ اس امر کی بدترین مثال ہیں کہ قرآن کی آیات کو ان کے سیاق و سباق سے الگ کر کے ایک ایک آیت کے الگ معنی لینے سے کیسی کیسی لا طائل تاویلوں کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔ لوگوں نے اس آیت کو اسلام کے فلسفہ معیشت کی اصل اور قانون معیشت کی ایک اہم دفہ ٹھیرایا ہے ۔ ان کے نزدیک آیت کا منشاء یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ نے رزق میں فضیلت عطا کی ہو انہیں اپنا رزق اپنے نوکروں اور غلاموں کی طرف ضرور لوٹا دینا چاہیے ، اگر نہ لوٹائیں گے تو اللہ کی نعمت کے منکر قرار پائیں گے ۔ حالانکہ اس پورے سلسلہ کلام میں قانون معیشت کے بیان کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے ۔ اوپر سے تمام تقریر شرک کے ابطال اور توحید کے اثبات میں ہوتی چلی رہی ہے اور آگے بھی مسلسل یہی مضمون چل رہا ہے ۔ اس گفتگو کے بیچ میں یکایک قانون معیشت کی ایک دفہ بیان کر دینے کے بعد آخر کونسا تُک ہے ؟ آیت کو اس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسکے بالکل برعکس مضمون بیان ہو رہا ہے ۔ یہاں استدلال یہ کیا گیا ہے کہ تم خود اپنے مال میں اپنے غلاموں اور نوکروں کو جب برابر کا درجہ نہیں دیتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ یہ مال خدا کا دیا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آخر کس طرح یہ بات تم صحیح سمجھتے ہو کہ جو احسانات اللہ نے تم پر کیے ہیں ان کے شکریے میں اللہ کے ساتھ اس کے بے اختیار غلاموں کو بھی شریک کر لو اور اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھو کہ اختیارات اور حقوق میں اللہ کے یہ غلام بھی اس کے ساتھ برابر کے حصہ دار ہیں؟ ٹھیک یہی استدلال ، اسی مضمون سے سورہ روم ، آیت نمبر ۲۸ میں کیا گیا ہے ۔ وہاں اس کے الفاظ یہ ہیں: ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ھَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَ آ ءٌ تَخَا فُوْ نَھُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُونَ ۔ اللہ تمہارے سامنے ایک مثال خود تمہاری اپنی ذات سے پیش کرتا ہے ۔ کیا تمہارے اس رزق میں جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے تمہارےغلام تمہارے شریک ہیں حتیٰ کہ تم اور وہ اس میں برابر ہوں؟ اور تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے برابر والوں سے ڈرا کرتے ہو؟ اس طرح اللہ کھول کھول کر نشانیاں پیش کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں“ ۔ دونوں آیتوں کا تقابل کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں ایک ہی مقصد کے لیے ایک ہی مثال سے استدلال کیا گیا ہے ۔ اور ان میں سے ہر ایک دوسری کی تفسیر کر رہی ہے ۔ شاید لوگوں کو غلط فہمی اَفَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَجْحَدُوْنَ کے الفاظ سے ہوئی ہے ۔ انہوں نے تمثیل کے بعد متصلا یہ فقرہ دیکھ کر خیال کیا کہ ہو نہ ہو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ اپنے زیر دستوں کی طرف رزق نہ پھیر دینا ہی اللہ کی نعمت کا انکار ہے حالانکہ جو شخص قرآن میں کچھ بھی نظر رکھتا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکریہ غیر اللہ کو ادا کرنا اس کتاب کی نگاہ میں اللہ کی نعمتوں کا انکار ہے ۔ یہ مضمون اس کثرت سے قرآن میں دہرایا گیا ہے کہ تلاوت و تدبر کی عادت رکھنے والوں کو تو اس میں اشتباہ پیش نہیں آسکتا ، البتہ انڈکسوں کی مدد سے اپنے مطلب کی آیات نکال کر مضامین تیار کرنے والے حضرات اس سے ناواقف ہو سکتے ہیں ۔ نعمت الہٰی کے انکار کا یہ مفہوم سمجھ لینے کے بعد اس فقرے کا یہ مطلب صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ جب یہ لوگ مالک اور مملوک کا فرق خوب جانتے ہیں ، اور خود اپنی زندگی میں ہر وقت اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں ، تو کیا پھر ایک اللہ ہی کے معاملہ میں انہیں اس بات پر اصرار ہے کہ اس کے بندوں کو اس کا شریک ٹھیرائیں اور جو نعمتیں انہوں نے اس سے پائی ہیں ان کا شکریہ اس کے بندوں کو ادا کریں؟
مشرکین کی جہالت کا ایک انداز مشرکین کی جہالت اور ان کے کفر کا بیان ہو رہا ہے کہ اپنے معبودوں کو اللہ کے غلام جاننے کے باوجود ان کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ حج کے موقع پر وہ کہا کرتے تھے دعا ( لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک تملکہ وما ملک یعنی اے اللہ میں تیرے پاس حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ جو خود تیرے غلام ہیں ان کا اور ان کی ماتحت چیزوں کا اصلی مالک تو ہی ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ انہیں الزام دیتا ہے کہ جب تم اپنے غلاموں کی اپنی برابری اور اپنے مال میں شرکت پسند نہیں کرتے تو پھر میرے غلاموں کو میری الوہیت میں کیسے شریک ٹھیرا رہے ہو ؟ یہی مضمون آیت ( ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ 28؀ ) 30- الروم:28 ) میں بیان ہوا ہے ۔ کہ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے مال میں اپنی بیویوں میں اپنا شریک بنانے سے نفرت کرتے ہو تو پھر میرے غلاموں کو میری الوہیت میں کیسے شریک سمجھ رہے ہو ؟ یہی اللہ کی نعمتوں سے انکار ہے کہ اللہ کے لئے وہ پسند کرنا ، جو اپنے لئے بھی پسند نہ ہو ۔ یہ ہے مثال معبودان باطل کی ۔ جب تم خود اس سے الگ ہو پھر اللہ تو اس سے بہت زیادہ بیزار ہے ۔ رب کی نعمتوں کا کفر اور کیا ہو گا کہ کھیتیاں چوپائے ایک اللہ کے پیدا کئے ہوئے اور تم انہیں اس کے سوا اوروں کے نام سے منسوب کرو ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو ایک رسالہ لکھا کہ اپنی روزی پر قناعت اختیار کرو اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ امیر کر رکھا ہے یہ بھی اس کی طرف سے ایک آزمائش ہے کہ وہ دیکھے کہ امیر امراء کس طرح شکر الہی ادا کر تے ہیں اور جو حقوق دوسروں کے ان پر جناب باری نے مقرر کئے ہیں کہاں تک انہیں ادا کرتے ہیں ۔