Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً رَّجُلَيۡنِ اَحَدُهُمَاۤ اَبۡكَمُ لَا يَقۡدِرُ عَلٰى شَىۡءٍ وَّهُوَ كَلٌّ عَلٰى مَوۡلٰٮهُۙ اَيۡنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَاۡتِ بِخَيۡرٍ‌ؕ هَلۡ يَسۡتَوِىۡ هُوَۙ وَمَنۡ يَّاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ‌ۙ وَهُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ‏ ﴿76﴾
اللہ تعالٰی ایک اور مثال بیان فرماتا ہے دو شخصوں کی ، جن میں سے ایک تو گونگا ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے مالک پر بوجھ ہے کہیں بھی اسے بھیجے وہ کوئی بھلائی نہیں لاتا ، کیا یہ اور وہ جو عدل کا حکم دیتا ہے اور ہے بھی سیدھی راہ پر ، برابر ہو سکتے ہیں؟
و ضرب الله مثلا رجلين احدهما ابكم لا يقدر على شيء و هو كل على مولىه اينما يوجهه لا يات بخير هل يستوي هو و من يامر بالعدل و هو على صراط مستقيم
And Allah presents an example of two men, one of them dumb and unable to do a thing, while he is a burden to his guardian. Wherever he directs him, he brings no good. Is he equal to one who commands justice, while he is on a straight path?
Allah Taalaa aik aur misal biyan farmata hai do shakson ki jin mein say aik to goonga hai aur kissi cheez per ikhtiyar nahi rakhta bulkay woh apney malik per bojh hai kahin bhi ussay bhejay woh koi bhalaee nahi lata kiya yeh aur woh jo adal ka hukum deta hai aur hai bhi seedhi raah per barabar ho saktay hain?
اور اللہ ایک اور مثال دیتا ہے کہ دو آدمی ہیں ان میں سے ایک گونگا ہے جو کوئی کام نہیں کرسکتا ، اور اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے ، وہ اسے جہاں کہیں بھیجتا ہے ، وہ کوئی ڈھنگ کا کام کر کے نہیں لاتا ، کیا ایسا شخص اس دوسرے آدمی کے برابر ہوسکتا ہے جو دوسروں کو بھی اعتدال کا حکم دیتا ہے اور خود بھی سیدھے راستے پر قائم ہے ؟
اور اللہ نے کہاوت بیان فرمائی دو مرد ایک گونگا جو کچھ کام نہیں کرسکتا ( ف۱٦۵ ) اور وہ اپنے آقا پر بوجھ ہے جدھر بھیجے کچھ بھلائی نہ لائے ( ف۱٦٦ ) کیا برابر ہوجائے گا وہ اور وہ جو انصاف کا حکم کرتا ہے اور وہ سیدھی راہ پر ہے ، ( ف۱٦۷ )
اللہ ایک اور مثال دیتا ہے ۔ دو آدمی ہیں ۔ ایک گونگا بہرا ہے ، کوئی کام نہیں کر سکتا ، اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے ، جدھر بھی وہ اسے بھیجے کوئی بھلا کام اس سے بن نہ آئے ۔ دوسرا شخص ایسا ہے کہ انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود راہ راست پر قائم ہے ۔ بتاؤ کیا یہ دونوں یکساں ہیں؟ 69 ؏ ١۰
اور اللہ نے دو ( ایسے ) آدمیوں کی مثال بیان فرمائی ہے جن میں سے ایک گونگا ہے وہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور وہ اپنے مالک پر بوجھ ہے وہ ( مالک ) اسے جدھر بھی بھیجتا ہے کوئی بھلائی لے کر نہیں آتا ، کیا وہ ( گونگا ) اور ( دوسرا ) وہ شخص جو ( اس منصب کا حامل ہے کہ ) لوگوں کو عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور وہ خود بھی سیدھی راہ پر گامزن ہے ( دونوں ) برابر ہو سکتے ہیں
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :69 پہلی مثال میں اللہ اور بناوٹی معبودوں کے فرق کو صرف اختیار اور بے اختیاری کے اعتبار سے نمایاں کیا گیا تھا ۔ اب اس دوسری مثال میں وہی فرق اور زیادہ کھول کر صفات کے لحاظ سے بیان کیا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اور ان بناوٹی معبودوں کے درمیان فرق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ ایک با اختیار مالک ہے اور دوسرا بے اختیار غلام ۔ بلکہ مزید برآں یہ فرق بھی ہے کہ یہ غلام نہ تمہاری پکار سنتا ہے ، نہ اس کا جواب دے سکتا ہے ، نہ کوئی کام با ختیار خود کر سکتا ہے ۔ اس کی اپنی زندگی کا سارا انحصار اس کے آقا کی ذات پر ہے ۔ اور آقا اگر کوئی کام اس پر چھوڑ دے تو وہ کچھ بھی نہیں بنا سکتا ۔ بخلاف اس کے آقا کا حال یہ ہے کہ صرف ناطق ہی نہیں ناطق حکیم ہے ، دنیا کو عدل کا حکم دیتا ہے ۔ اور صرف فاعل مختار ہی نہیں ، فاعل برحق ہے ، جو کچھ کرتا ہے راستی اور صحت کے ساتھ کرتا ہے ۔ بتاؤ یہ کونسی دانائی ہے کہ تم ایسے آقا اور ایسے غلام کو یکساں سمجھ رہے ہو؟
گونگے بت مشرکین کے معبود ہو سکتا ہے کہ یہ مثال بھی اس فرق کے دکھانے کی ہو جو اللہ تعالیٰ میں اور مشرکین کے بتوں میں ہے ۔ یہ بت گونگے ہیں نہ کلام کر سکیں نہ کوئی بھلی بات کہہ سکیں ، نہ کسی چیز پر قدرت رکھیں ۔ قول و فعل دونوں سے خالی ۔ پھر محض بوجھ ، اپنے مالک پر بار ، کہیں بھی جائے کوئی بھلائی نہ لائے ۔ پس ایک برابر ہو جائیں گے ؟ ایک قول ہے کہ ایک گونگا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام تھا ۔ اور ہو سکتا ہے کہ یہ مثال بھی کافر و مومن کی ہو جیسے اس سے پہلے کی آیت میں تھی ۔ کہتے ہیں کہ قریش کے ایک شخص کے غلام کا ذکر پہلے ہے اور دوسرے شخص سے مراد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور غلام گونگے سے مراد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ غلام ہے جس پر آپ خرچ کرتے تھے جو آپ کو تکلیف پہنچاتا رہتا تھا اور آپ نے اسے کام کاج سے آزاد کر رکھا تھا لیکن پھر بھی یہ اسلام سے چڑتا تھا ، منکر تھا اور آپ کو صدقہ کرنے اور نیکیاں کرنے سے روکتا تھا ، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔