Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
وَلِلّٰهِ غَيۡبُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ وَمَاۤ اَمۡرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمۡحِ الۡبَصَرِ اَوۡ هُوَ اَقۡرَبُ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿77﴾
آسمانوں اور زمین کا غیب صرف اللہ تعالٰی ہی کو معلوم ہے اور قیامت کا امر تو ایسا ہی ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا ، بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ۔ بیشک اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔
و لله غيب السموت و الارض و ما امر الساعة الا كلمح البصر او هو اقرب ان الله على كل شيء قدير
And to Allah belongs the unseen [aspects] of the heavens and the earth. And the command for the Hour is not but as a glance of the eye or even nearer. Indeed, Allah is over all things competent.
Aasmanon aur zamin ka ghaib sirf Allah Taalaa hi ko maloom hai aur qayamat ka amar to aisa hi hai jaisay aankh ka jhapakna bulkay iss say bhi ziyada qarib. Be-shak Allah Taalaa her cheez per qadir hai.
اور آسمانوں اور زمین کے سارے بھید اللہ کے قبضے میں ہیں ۔ اور قیامت کا معاملہ آنکھ جھپکنے سے زیادہ نہیں ہوگا ، بلکہ اس سے بھی جلدی ۔ یقین رکھو کہ اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے ۔
اور اللہ ہی کے لیے ہیں آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزیں ( ف۱٦۸ ) اور قیامت کا معاملہ نہیں مگر جیسے ایک پلک کا مارنا بلکہ اس سے بھی قریب ( ف۱٦۹ ) بیشک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے
اور زمین و آسمان کے پوشیدہ حقائق کا علم تو اللہ ہی کو ہے ۔ 70 اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے ، بلکہ اس سے بھی کچھ 71 کم ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے ۔
اور آسمانوں اور زمین کا ( سب ) غیب اللہ ہی کے لئے ہے ، اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اس قدر تیزی سے ہوگا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا ا س سے بھی تیز تر ، بیشک اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :70 بعد کے فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل جواب ہے کفار مکہ کے اس وال کا جو وہ اکثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے کہ اگر واقعی وہ قیامت آنے والی ہے جس کی تم ہمیں خبر دیتے ہو تو آخر وہ کس تاریخ کو آئے گی ۔ یہاں ان کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جارہا ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :71 یعنی قیامت رفتہ رفتہ کسی طویل مدت میں واقع نہ ہوگی ، نہ اس کی آمد سے پہلے تم دور سے اس کو آتے دیکھو گے کہ سنبھل سکو اور کچھ اس کے لیے تیاری کر سکو ۔ وہ تو کسی روز اچانک چشم زدن میں ، بلکہ اس سے بھی کم مدت میں آجائے گی ۔ لہٰذا جس کو غور کرنا ہو سنجیدگی کے ساتھ غور کرے ، اور اپنے رویہ کے متعلق جو فیصلہ بھی کرنا ہو جلدی کر لے ۔ کسی کو اس بھروسے پر نہ رہنا چاہیے کہ ابھی تو قیامت دور ہے ، جب آنے لگے گی تو اللہ سے معاملہ درست کرلیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توحید کی تقریر کے درمیان یکایک قیامت کا یہ ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ لوگ توحید اور شرک کے درمیان کسی ایک عقیدے کے انتخاب کے سوال کو محض ایک نظری سوال نہ سمجھ بیٹھیں ۔ انہیں یہی احساس رہنا چاہیے کہ ایک فیصلے کی گھڑی کسی نامعلوم وقت پر اچانک آجانے والی ہے اور اس وقت اسی انتخاب کے صحیح یا غلط ہونے پر آدمی کی کامیابی و ناکامی کا مدار ہو گا ۔ اس تنبیہ کے بعد پھر وہی سلسلہ تقریر شروع ہو جاتا ہے جو اوپر سے چلا آرہا تھا ۔
نیکیوں کی دیوار لوگ اللہ تعالیٰ اپنے کمال علم اور کمال قدرت کو بیان فرما رہا ہے کہ زمین آسمان کا غیب وہی جانتا ہے ، کوئی نہیں جو غیب دان ہو اللہ جسے چاہے ، جس چیز پر چاہے ، اطلاع دے دے ۔ ہر چیز اس کی قدرت میں ہے نہ کوئی اس کا خلاف کر سکے ۔ نہ کوئی اسے روک سکے جس کام کا جب ارادہ کرے ، قادر ہے پورا ہو کر ہی رہتا ہے آنکھ بند کر کے کھولنے میں تو تمہیں کچھ دیر لگتی ہو گی لیکن حکم الٰہی کے پورا ہونے میں اتنی دیر بھی نہیں لگتی ۔ قیامت کا آنا بھی اس پر ایسا ہی آسان ہے ، وہ بھی حکم ہوتے ہی آ جائے گی ۔ ایک کا پیدا کرنا اور سب کا پیدا کرنا اس پر یکساں ہے ۔ اللہ کا احسان دیکھو کہ اس نے لوگوں کو ماؤں کے پیٹوں سے نکالا یہ محض نادان تھے پھر انہیں کان دئیے جس سے وہ سنیں ، آنکھیں دیں جس سے دیکھیں ، دل دئیے جس سے سوچیں اور سمجھیں ۔ عقل کی جگہ دل ہے اور دماغ بھی کہا گیا ہے ۔ عقل سے ہی نفع نقصان معلوم ہوتا ہے یہ قویٰ اور حواس انسان کو بتدریج تھوڑے تھوڑے ہو کر ملتے ہیں عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بڑھوتری بھی ہوتی رہتی ہے ۔ یہاں تک کہ کمال کو پہنچ جائیں ۔ یہ سب اس لئے ہے کہ انسان اپنی ان طاقتوں کو اللہ کی معرفت اور عبادت میں لگائے رہے ۔ صحیح بخاری میں حدیث قدسی ہے کہ جو میرے دوستوں سے دشمنی کرتا ہے وہ مجھ سے لڑائی کا اعلان کرتا ہے ۔ میرے فرائض کی بجا آوری سے جس قدر بندہ میری قربت حاصل کر سکتا ہے اتنی کسی اور چیز سے نہیں کر سکتا ۔ نوافل بکثرت پڑھتے پڑھتے بندہ میرے نزدیک اور میرا محبوب ہو جاتا ہے ۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں ، جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی نگاہ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ تھامتا ہے اور اس کے پیر بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے ۔ وہ اگر مجھ سے مانگے میں دیتا ہوں ، اگر دعا کرے میں قبول کرتا ہوں ، اگر پناہ چاہے میں پناہ دیتا ہوں اور مجھے کسی کام کے کرنے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مومن کی روح کے قبض کرنے میں موت کو ناپسند کرتا ہے ۔ میں اسے ناراض کرنا نہیں چاہتا اور موت ایسی چیز ہی نہیں جس سے کسی ذی روح کو نجات مل سکے ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اخلاص اور اطاعت میں کامل ہو جاتا ہے تو اس کے تمام افعال محض اللہ کے لئے ہو جاتے ہیں وہ سنتا ہے اللہ کے لئے ، دیکھتا ہے اللہ کے لئے ، یعنی شریعت کی باتیں سنتا ہے ، شریعت نے جن چیزوں کا دیکھنا جائز کیا ہے ، انہی کو دیکھتا ہے ، اسی طرح اس کا ہاتھ بڑھانا ، پاؤں چلانا بھی اللہ کی رضامندی کے کاموں کے لئے ہی ہوتا ہے ۔ اللہ پر اس کا بھروسہ رہتا ہے اسی سے مدد چاہتا ہے ، تمام کام اس کے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے ہی ہوتے ہیں ۔ اس لئے بعض غیر صحیح احادیث میں اس کے بعد یہ بھی آیا ہے کہ پھر وہ میرے ہی لئے سنتا ہے اور میرے ہی لئے دیکھتا ہے اور میرے لئے پکڑتا ہے اور میرے لئے ہی چلتا پھرتا ہے ۔ آیت میں بیان ہے کہ ماں کے پیٹ سے وہ نکالتا ہے ، کان ، آنکھ ، دل ، دماغ وہ دیتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو اور آیت میں فرمان ہے آیت ( قُلْ هُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ 23؀ ) 67- الملك:23 ) یعنی اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ہیں لیکن تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو ، اسی نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا ہے اور اسی کی طرف تمہارا حشر کیا جانے والا ہے ۔ پھر اللہ پاک رب العالمین اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ ان پرندوں کی طرف دیکھو جو آسمان و زمین کے درمیان کی فضا میں پرواز کرتے پھرتے ہیں ، انہیں پروردگار ہی اپنی قدرت کاملہ سے تھامے ہوئے ہے ۔ یہ قوت پرواز اسی نے انہیں دے رکھی ہے اور ہواؤں کو ان کا مطیع بنا رکھا ہے ۔ سورہ ملک میں بھی یہی فرمان ہے کہ کیا وہ اپنے سروں پر اڑتے ہوئے پرندوں کو نہیں دیکھتے ؟ جو پر کھولے ہوئے ہیں اور پر سمیٹے ہوئے بھی ہیں انہیں بجز اللہ رحمان و رحیم کے کون تھامتا ہے ؟ وہ اللہ تمام مخلوق کو بخوبی دیکھ رہا ہے ، یہاں بھی خاتمے پر فرمایا کہ اس میں ایمانداروں کے لئے بہت سے نشان ہیں ۔