Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِيۡتَآىِٕ ذِى الۡقُرۡبٰى وَيَنۡهٰى عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِ وَالۡبَغۡىِ‌ۚ يَعِظُكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿90﴾
اللہ تعالٰی عدل کا ، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں ، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے ، وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو ۔
ان الله يامر بالعدل و الاحسان و ايتا ذي القربى و ينهى عن الفحشاء و المنكر و البغي يعظكم لعلكم تذكرون
Indeed, Allah orders justice and good conduct and giving to relatives and forbids immorality and bad conduct and oppression. He admonishes you that perhaps you will be reminded.
Allah Taalaa adal ka bhalaee ka aur qarabat daron kay sath salook kerney ka hukum deta hai aur bey hayaee kay kaamon na-shaista herkaton aur zulm-o-ziyadti say rokta hai woh khud tumhen naseehaten ker raha hai kay tum naseehat hasil kero.
بیشک اللہ انصاف کا ، احسان کا ، اور رشتہ داروں کو ( ان کے حقوق ) دینے کا حکم دیتا ہے ، اور بے حیائی ، بدی اور ظلم سے روکتا ہے ۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو ۔
بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی ( ف۲۰٤ ) اور رشتہ داروں کے دینے کا ( ف۲۰۵ ) اور منع فرماتا بےحیائی ( ف۲۰٦ ) اور برُی بات ( ف۲۰۷ ) اور سرکشی سے ( ف۲۰۸ ) تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو ،
اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے 88 اور بدی اور بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے ۔ 89 وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو ۔
بیشک اللہ ( ہر ایک کے ساتھ ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے ، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :88 اس مختصر سے فقرے میں تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جب پورے انسانی معاشرے کی درستی کا انحصار ہے ۔ : پہلی چیز عدل ہے جس کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے ۔ ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسب قائم ہو ۔ دوسرے یہ کہ اس کا حق بے لاگ طریقہ سے دیا جائے ۔ اردو زبان میں اس مفہوم کو لفظ ”انصاف“ سے ادا کیا جاتا ہے ، مگر یہ لفظ غلط فہمی پیدا کر نے والا ہے ۔ اس سے خواہ مخواہ یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان حقوق کی تقسیم نصف نصف کی بنیاد پر ہو ۔ اور پھر اسی سے عدل کے معنی مساویانہ تقسیم حقوق کے سمجھ لیے گئے ہیں جو سراسر فطرت کے خلاف ہے ۔ دراصل عدل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ توازن اور تناسب ہے نہ کہ برابری ۔ بعض حیثیتوں سے تو عدل بے شک افرادِ معاشرہ میں مساوات چاہتا ہے ، مثلا حقوق شہریت میں ۔ مگر بعض دوسری حیثیتوں سے مساوات بالکل خلاف عدل ہے ، مثلا والدین اور اولاد کے درمیان معاشرتی و اخلاقی مساوات ، اور اعلی درجے کی خدمات انجام دینے والوں اور کم تر درجے کی خدمت ادا کرنے والوں کے درمیان مواوضوں کی مساوات ۔ پس اللہ تعالی نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ حقوق میں مساوات نہیں بلکہ توازن و تناسب ہے ، اور اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے اخلاقی ، معاشرتی ، معاشی ، قانونی ، اور سیاسی و تمدنی حقوق پوری ایمان داری کے ساتھ ادا کیے جائیں ۔ دوسری چیز احسان ہے جس سے مراد نیک برتاؤ ، فیاضانہ معاملہ ، ہمدردانہ رویہ ، رواداری ، خوش خلقی ، درگزر ، باہمی مراعات ، ایک دوسرے کا پاس و لحاظ ، دوسرے کو اس کے حق سے کچھ زیادہ دینا ، اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہوجاتا یہ عدل سے زائد ایک چیز ہے جس کی اہمیت اجتماعی زندگی میں عدل سے بھی زیادہ ہے ۔ عدل اگر معاشرے کی اساس ہے تو احسان اس کا جمال اور اس کا کمال ہے ۔ عدل اگر معاشرے کو نا گواریوں اور تلخیوں سے بچاتا ہے تو احسان اس میں خوش گواریاں اور شیرینیاں پیدا کرتا ہے ۔ کوئی معاشرہ صرف اس بنیاد پر کھرا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہر فرد ہر وقت ناپ تول کر کے دیکھتا رہے کہ اس کا کیا حق ہے اور اسے وصول کر کے چھوڑے ، اور دوسرے کا کتنا حق ہے اور اسے بس اتنا ہی دے دے ۔ ایسے ایک ٹھنڈے اور کھرے معاشرے میں کشمکش تو نہ ہوگی مگر محبت اور شکر گزاری اور عالی ظرفی اور ایثار اور اخلاص وخیر خواہی کی قدروں سے وہ محروم رہے گا جو دراصل زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرنے والی اور اجتماعی محاسن کو نشونما دینے والی قدریں ہیں ۔ تیسری چیز جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے ، صلہ رحمی ہے جو رشتہ داروں کے معاملے میں احسان کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے ۔ اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور خوشی و غمی میں ان کا شریک حال ہو اور جائز حدود کے اندر ان کا حامی و مددگار بنے ۔ بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہر صاحب استطاعت شخص اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کے حقوق نہ سمجھے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے ۔ شریعت الہٰی ہر خاندان کے خوشحال افراد کو اس امر کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں ۔ اس کی نگاہ میں ایک معاشرے کی اس سے بدتر کوئی حالت نہیں ہے کہ اس کے اندر ایک شخص عیش کر رہا ہو اور اسی کا خاندان میں اس کے اپنے بھائی بند روٹی کپڑے تک کو محتاج ہوں ۔ وہ خاندان کو معاشرے کا ایک اہم عنصر ترکیبی قرار دیتی ہے اور یہ اصول پیش کرتی ہے کہ ہر خاندان کے غریب افراد کا پہلا حق اپنے خاندان کے خوشحال افراد ہر ہے ، پھر دوسروں پر ان کے حقوق عائد ہوتے ہیں ۔ اور ہر خاندان کے خوشحال افراد پر پہلا حق ان کے اپنے غریب رشتہ داروں کا ہے ، پھر دوسروں کے حقوق ان پر عائد ہوتے ہیں ۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف ارشادات میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ متعدد احادیث میں اس کی تصریح ہے کہ آدمی کے اوّلین حقدار اس کے والدین ، اس کے بیوی بچے ، اور اس کے بھائی بہن ہیں ، پھر وہ جو ان کے بعد قریب تر ہوں ، اور پھر وہ جو ان کے بعد قریب تر ہوں ۔ اور یہی اصول ہے جس کی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک یتیم بچے کے چچا زاد بھائیوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کی پرورش کے ذمہ دار ہوں ۔ اور ایک دوسرے یتیم کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اگر اس کا کوئی بعید ترین رشتہ دار بھی موجود ہو تو امیں اس پر اس کی پرورش لازم کر دیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس معاشرے کا واحدہ ( Unit ) اس طرح اپنے اپنے افراد کو سنبھال لے اس میں معاشی حیثیت سے کتنی خوشحالی ، معاشرتی حیثیت سے کتنی حلاوت اور اخلاقی حیثیت سے کتنی پاکیزگی و بلندی پیدا ہو جائے گی ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :89 اوپر کی تین بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالی تین برائیوں سے روکتا ہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو ، اور اجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں: پہلی چیز فَحْشَآء ہے جس کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے ۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو ، فحش ہے ۔ مثلًا بخل ، زنا ، برہنگی و عریانی ، عمل قوم لوط ، محرمات سے نکاح کرنا ، چوری ، شراب نوشی ، بھیک مانگنا ، گالیاں بکنا اور بدکلامی کرنا وغیرہ ۔ اسی طرح علی الاعلان برے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے ، مثلا جھوٹا پروپیگنڈا ، تہمت تراشی ، پوشیدہ جرائم کی تشہیر ، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے اور ڈرامے اور فلم ، عریاں تصاویر ، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا ، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا ، اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا اور ناز و ادا کی نمائش کرنا وغیرہ ۔ دوسری چیز منکر ہے جس سے مراد ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں ، ہمیش سے برا کہتے رہے ہیں ، اور عام شرائع الہٰیہ نے جس سے منع کیا ہے ۔ تیسری چیز بغی ہے جس کے معنی ہیں اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرنا ، خواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے ۔
بر ابر کا بدلہ اللہ سبحا نہ وتعالیٰ اپنے بندوں کو عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور سلوک و احسان کی رہنمائی کرتا ہے گو بدلہ لینا بھی جائز ہے جیسے آیت ( وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ١٢٦؁ ) 16- النحل:126 ) میں فرمایا کہ اگر بدلہ لے سکو تو برابر برابر کا بدلہ لو لیکن اگر صبر و برداشت کر لو تو کیا ہی کہنا یہ بڑی مردانگی کی بات ہے ۔ اور آیت میں فرمایا اس کا اجر خدا کے ہاں ملے گا ۔ ایک اور آیت میں ہے زخموں کا قصاص ہے لیکن جو درگزر کر جائے اس کے گناہوں کی معافی ہے ۔ پس عدل تو فرض ، احسان نفل اور کلمہ تو حید کی شہادت بھی عدل ہے ۔ ظاہر باطن کی پاکیزگی بھی عدل ہے اور احسان یہ ہے کہ پاکی صفائی ظاہر سے بھی زیادہ ہو ۔ اور فحشاء اور منکر یہ ہے کہ باطن میں کھوٹ ہو اور ظاہر میں بناوٹ ہو ۔ وہ صلہ رحمی کا بھی حکم دیتا ہے ۔ جیسے صاف لفظوں میں ارشاد آیت ( وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا 26؀ ) 17- الإسراء:26 ) ۔ رشتے داروں ، مسکینوں ، مسافروں کو ان کا حق دو اور بےجا خرچ نہ کرو ۔ محرمات سے وہ تمہیں روکتا ہے ، برائیوں سے منع کرتا ہے ظاہری باطنی تمام برائیاں حرام ہیں ۔ لوگوں پر ظلم و زیادتی حرام ہے ۔ حدیث میں ہے کہ کوئی گناہ ظلم و زیادتی اور قطع رحمی سے بڑھ کر ایسا نہیں کہ دنیا میں بھی جلدی ہی اس کا بدلہ ملے اور اخرت میں بھی سخت پکڑ ہو ۔ اللہ کے یہ احکام اور یہ نواہی تمہاری نصیحت کے لئے ہیں جو اچھی عادتیں ہیں ، ان کا حکم قرآن نے دیا ہے اور جو بری خصلتیں لوگوں میں ہیں ان سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ہے ، بد خلقی اور برائی سے اس نے ممانعت کر دی ہے ۔ حدیث شریف میں ہے بہترین اخلاق اللہ کو پسند ہیں اور بد خلقی کو وہ مکروہ رکھتا ہے ۔ اکثم بن صیفی کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اطلاع ہوئی تو اس نے خدمت نبوی میں حاضر ہونے کی ٹھان لی لیکن اس کی قوم اس کے سر ہو گئی اور اسے روک لیا اس نے کہا اچھا مجھے نہیں جانے دیتے تو قاصد لاؤ جنہیں میں وہاں بھیجوں ۔ دو شخص اس خدمت کی انجام دہی کے لئے تیار ہوئے یہاں آ کر انہوں نے کہا کہ ہم اکثم بن صیفی کے قاصد ہیں وہ آپ سے پوچھتا ہے کہ آپ کون ہیں اور کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ہوں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور دوسرے سو ال کا جواب یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول ۔ پھر آپ نے یہی آیت انہیں پڑھ کر سنائی انہوں نے کہا دوبارہ پڑھئے ۔ آپ نے پھر پڑھی ، یہاں تک کہ انہوں نے یاد کر لی پھر واپس جا کر اکثم کو خبر دی اور کہا اپنے نسب پر اس نے کوئی فخر نہیں کیا ۔ صرف اپنا اور اپنے والد کا نام بتا دیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہیں وہ بڑے نسب والے ، مضر میں اعلی خاندان کے ہیں اور پھر یہ کلمات ہمیں تعلیم فرمائے جو آپ کی زبانی ہم نے سنے ۔ یہ سن کر اکثم نے کہا وہ تو بڑی اچھی اور اعلی باتیں سکھاتے ہیں اور بری اور سفلی باتوں سے روکتے ہیں ۔ میرے قبیلے کے لوگو تم اسلام کی طرف سبقت کرو تاکہ تم دوسروں پر سرداری کرو اور دوسروں کے ہاتھوں میں دمیں بن کر نہ رہ جاؤ ۔ اس آیت کے شان نزول میں ایک حسن حدیث مسند امام احمد میں وارد ہوئی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگنائی میں بھٹھے ہوئے تھے کہ عثمان بن مظعون آپ کے پاس سے گزرے آپ نے فرمایا بیٹھتے نہیں ہو ؟ وہ بیٹھ گیا ، آپ اس کی طرف متوجہ ہو کر باتیں کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دفعتہ اپنی نظریں آسمان کی جانب اٹھائیں کچھ دیر اوپر ہی کو دیکھتے رہے ، پھر نگاہیں آہستہ آہستہ نیچی کیں اور اپنی دائیں جانب زمین کی طرف دیکھنے لگے اور اسی طرف آپ نے رخ بھی کر لیا اور اس طرح سر ہلانے لگے گویا کسی سے کچھ سمجھ رہے ہیں اور کوئی آپ سے کچھ کہہ رہا ہے تھوڑی دیر تک یہی حالت طاری رہی پھر آپ نے اپنی نگاہیں اونچی کرنی شروع کیں ، یہاں تک کہ آسمان تک آپ کی نگاہیں پہنچیں پھر آپ ٹھیک ٹھاک ہو گئے اور اسی پہلی بیٹھک پر عثمان کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئے ۔ وہ یہ سب دیکھ رہا تھا ، اس سے صبر نہ ہو سکا ، پوچھا کہ حضرت آپ کے پاس کئی بار بیٹھنے کا اتفاق ہوا لیکن آج جیسا منظر تو کبھی نہیں دیکھا ، آپ نے پوچھا تم نے کیا دیکھا ؟ اس نے کہا یہ کہ آپ نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی پھر نیچیں کر لی اور اپنے دائیں طرف دیکھنے لگے اور اسی طرف گھوم کر بیٹھ گئے ، مجھے چھوڑ دیا ، پھر اس طرح سر ہلانے لگے جیسے کوئی آپ سے کچھ کہہ رہا ہو ۔ اور آپ اسے اچھی طرح سن سمجھ رہے ہوں ۔ آپ نے فرمایا اچھا تم نے یہ سب کچھ دیکھا ؟ اس نے کہا برابر دیکھتا ہی رہا ۔ آپ نے فرمایا میرے پاس اللہ کا نازل کردہ فرشتہ وحی لے کر آیا تھا اس نے کہا اللہ کا بھیجا ہوا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، ہاں اللہ کا بھیجا ہو ا ۔ پوچھا پھر اس نے آپ سے کیا کہا ؟ آپ نے یہی آیت پڑھ سنائی ۔ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اسی وقت میرے دل میں ایمان بیٹھ گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے میرے دل میں گھر کر لیا ۔ ایک اور روایت میں حضرت عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا جو آپ نے اپنی نگاہیں اوپر کو اٹھائیں اور فرمایا جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اس آیت کو اس سورت کی اس جگہ رکھوں یہ روایت بھی صحیح ہے واللہ !علم ۔