Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
فَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيۡطٰنِ الرَّجِيۡمِ‏ ﴿98﴾
قرآن پڑھنے کے وقت راندے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرو ۔
فاذا قرات القران فاستعذ بالله من الشيطن الرجيم
So when you recite the Qur'an, [first] seek refuge in Allah from Satan, the expelled [from His mercy].
Quran parhney kay waqt randay huye shetan say Allah ki panah talab kero.
چنانچہ جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو ۔ ( ٤٣ )
تو جب تم قرآن پڑھو تو اللہ کی پناہ مانگو شیطان مردود سے ، ( ف۲۳۲ ) ،
پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو ۔ 101
سو جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود ( کی وسوسہ اندازیوں ) سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :101 اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بس زبان سے اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ کہہ دیا جائے ، بلکہ اس کے ساتھ فی الواقع دل میں یہ خواہش اور عملا یہ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ آدمی قرآن پڑھتے وقت شیطان کے گمراہ کن وسوسوں سے محفوظ رہے ، غلط اور بے جا شکوک و شبہات میں مبتلا نہ ہو ، قرآن کی ہر بات کو اس کی صحیح روشنی میں دیکھے ، اور اپنے خود ساختہ نظریات یا باہر سے حاصل کیے ہوئے تخیلات کی آمیزش سے قرآن کے الفاظ کو وہ معنی نہ پہنانے لگے جو اللہ تعالی کے منشاء کے خلاف ہوں ۔ اس کے ساتھ آدمی کے دل میں یہ احساس بھی موجود ہونا چاہیے کہ شیطان سب سے بڑھ کر جس چیز کے درپے ہے وہ یہی ہے کہ ابن آدم قرآن سے ہدایت نہ حاصل کر نے پائے ۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جب اس کتاب کی طرف رجوع کرتا ہے تو شیطان اسے بہکانے اور اخذ ہدایت سے روکنے اور فکر و فہم کی غلط راہوں پر ڈالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے ۔ اس لیے آدمی کو اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت انتہائی چوکنا رہنا چاہیے اور ہر وقت خدا سے مانگتے رہنا چاہیے کہ کہیں شیطان کی دراندازیاں اسے اس سرچشمہ ہدایت کے فیض سے محروم نہ کر دیں ۔ کیونکہ جس نے یہاں سے ہدایت نہ پائی وہ پھر کہیں ہدایت نہ پا سکے گا ، اور جو اس کتاب سے گمراہی اخذ کر بیٹھا اسے پھر دنیا کی کوئی چیز گمراہیوں کے چکر سے نہ نکال سکے گی ۔ اس سلسلہ کلام میں یہ آیت جس غرض کے لیے آئی ہے وہ یہ ہے کہ آگے چل کر ان اعتراضات کا جواب دیا جا رہا ہے کہ جو مشرکین مکہ قرآن مجید پر کیا کرتے تھے ۔ اس لیے پہلے تمہید کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ قرآن کو اس کی اصلی روشنی میں صرف وہی شخص دیکھ سکتا ہے جو شیطان کے گمراہ کن وسوسہ اندازیوں سے چوکنا ہو اور ان سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ سے پناہ مانگے ۔ ورنہ شیطان کبھی آدمی کو اس قابل نہیں رہنے دیتا کہ وہ سیدھی طرح قرآن کو اور اس کی باتوں کو سمجھ سکے ۔
آعوذ کا مقصد اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اپنے مومن بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے وہ اعوذ پڑھ لیا کریں ۔ یہ حکم فرضیت کے طور پر نہیں ۔ ابن جریر وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ آعوذ کی پوری بحث مع معنی وغیرہ کے ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں فالحمد اللہ ۔ اس حکم کی مصلحت یہ ہے کہ قاری قرآن میں الھنے ، غور و فکر سے رک جانے اور شیطانی وسوسوں میں آنے سے بچ جائے ۔ اسی لئے جمہور کہتے ہیں کہ قرأت شروع کرنے سے پہلے آعوذ پڑھ لیا کر ۔ کسی کا قول یہ بھی ہے کہ ختم قرأت کے بعد پڑھے ۔ ان کی دلیل یہی آیت ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور احادیث کی دلالت بھی اس پر ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ ایماندار متوکلین کو وہ ایسے گناہوں میں پھانس نہیں سکتا ، جن سے وہ توبہ ہی نہ کریں ۔ اس کی کوئی حجت ان کے سامنے چل نہیں سکتی ، یہ مخلص بندے اس کے گہرے مکر سے محفوظ رہتے ہیں ۔ ہاں جو اس کی اطاعت کریں ، اس کے کہے میں آ جائیں ، اسے اپنا دوست اور حمایتی ٹھہرا لیں ۔ اسے اللہ کی عبادتوں میں شریک کرنے لگیں ۔ ان پر تو یہ چھا جاتا ہے ۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ب کو سبیبہ بتلائیں یعنی وہ اس کی فرمانبرداری کے باعث اللہ کے ساتھ شرکت کرنے لگ جائیں ، یہ معنی بھی ہیں کہ وہ اسے اپنے مال میں ، اپنی اولاد میں شریک الہ ٹھیرا لیں ۔