Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
وَاِذَا بَدَّلۡنَاۤ اٰيَةً مَّكَانَ اٰيَةٍ‌ۙ وَّ اللّٰهُ اَعۡلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُفۡتَرٍؕ بَلۡ اَكۡثَرُهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿101﴾
اورجب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالٰی نازل فرماتا ہے اسے وہ خوب جانتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ تو تو بہتان باز ہے ۔ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر جانتے ہی نہیں ۔
و اذا بدلنا اية مكان اية و الله اعلم بما ينزل قالوا انما انت مفتر بل اكثرهم لا يعلمون
And when We substitute a verse in place of a verse - and Allah is most knowing of what He sends down - they say, "You, [O Muhammad], are but an inventor [of lies]." But most of them do not know.
Aur jab hum kissi aayat ki jagah doosri aayat badal detay hain aur jo kuch Allah Taalaa nazil farmata hai ussay woh khoob janta hai to yeh kehtay hain kay tu to bohtan baaz hai. Baat yeh hai kay inn mein say aksar jantay hi nahi.
اور جب ہم ایک آیت کو دوسری آیت سے بدلتے ہیں ۔ ( ٤٤ ) اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے تو یہ ( کافر ) کہتے ہیں کہ : تم تو اللہ پر جھوٹ باندھنے والے ہو ۔ حالانکہ ان میں سے اکثر لوگ حقیقت کا علم نہیں رکھتے ۔
اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدلیں ( ف۲۳٤ ) اور اللہ خوب جانتا ہے جو اتارتا ہے ( ف۲۳۵ ) کافر کہیں تم تو دل سے بنا لاتے ہو ( ف۲۳٦ ) بلکہ ان میں اکثر کو علم نہیں ، ( ف۲۳۷ )
جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے ۔ ۔ ۔ ۔ تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم یہ قرآن خود گھڑتے ہو ۔ 102 اصل بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں ۔
اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور اللہ ( ہی ) بہتر جانتا ہے جو ( کچھ ) وہ نازل فرماتا ہے ( تو ) کفار کہتے ہیں کہ آپ تو بس اپنی طرف سے گھڑنے والے ہیں ، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ ( آیتوں کے اتارنے اور بدلنے کی حکمت ) نہیں جانتے
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :102 ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے سے مراد ایک حکم کے بعد دوسرا حکم بھیجنا بھی ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ قرآن مجید کے احکام بتدریج نازل ہوئے ہیں اور بارہا ایک ہی معاملہ میں چند سال کے وقفوں سے یکے بعد دیگرے دو دو ، تین تین حکم بھیجے گئے ہیں ۔ مثلا شراب کا معاملہ ، یا زنا کی سزا کا معاملہ ۔ لیکن ہم کو یہ معنی لینے میں اس بنا پر تامل ہے کہ سورہ نحل کی یہ آیت مکی دور میں نازل ہوئی ہے ، اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس دور میں تدریج فی الاحکام کی کوئی مثال پیش نہ آئی تھی ۔ اس لیے ہم یہاں ” ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے“ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر کبھی ایک مضمون کو ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے اور کبھی وہی مضمون سمجھانے کے لیے دوسری مثال سے کام لیا گیا ہے ۔ ایک ہی قصہ بار بار آیا ہے اور ہر مرتبہ اسے دوسرے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ ایک معاملہ کا کبھی ایک پہلو پیش کیا گیا ہے اور کبھی اسی معاملے کا دوسرا پہلو سامنے لایا گیا ہے ۔ ایک بات کے لیے کبھی ایک دلیل پیش کی گئی ہے اور کبھی دوسری دلیل ۔ ایک بات ایک وقت میں مجمل طور پر کہی گئی ہے اور دوسرے وقت میں مفصل ۔ یہی چیز تھی جسے کفارِ مکّہ اس بات کی دلیل ٹھیراتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، معاذ اللہ ، یہ قرآن خود تصنیف کرتے ہیں ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر اس کلام کا منبع علم الہی ہوتا تو پوری بات بیک وقت کہہ دی جاتی ۔ اللہ کوئی انسان کی طرح ناقص العلم تھوڑا ہی ہے کہ سوچ سوچ کر بات کرے ، رفتہ رفتہ معلومات حاصل کرتا رہے ، اور ایک بات ٹھیک بیٹھتی نظر نہ آئے تو دوسرے طریقہ سے بات کرے یہ تو انسانی علم کی کمزوریاں ہیں جو تمہارے اس کلام میں نظر آرہی ہیں ۔
ازلی بد نصیب لوگ مشرکوں کی عقلی ، بےثباتی اور بےیقینی کا بیان ہو رہا ہے کہ انہیں ایمان کیسے نصیب ہو؟ یہ تو ازلی بد نصیب ہیں ، ناسخ منسوخ سے احکام کی تبدیلی دیکھ کر بکنے لگتے ہیں کہ لو صاحب ان کا بہتان کھل گیا ، اتنا نہیں جانتے کہ قادر مطلق اللہ جو چاہے کرے جو ارادہ کرے ، حکم دے ، ایک حکم کو اٹھا دے دوسرے کو اس کی جگہ رکھ دے ۔ جیسے آیت ( مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ اَوْ مِثْلِهَا ۭ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ١٠٦؁ ) 2- البقرة:106 ) میں فرمایا ہے ۔ پاک روح یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام اسے اللہ کی طرف سے حقانیت و صداقت کے عدل و انصاف کے ساتھ لے کر تیری جانب آتے ہیں تاکہ ایماندار ثابت قدم ہو جائیں ، اب اترا ، مانا ، پھر اترا ، پھر مانا ، ان کے دل رب کی طرف جھکتے رہیں ، تازہ تازہ کلام الٰہی سنتے رہیں ، مسلمانوں کے لئے ہدایت و بشارت ہو جائے ، اللہ اور رسول اللہ کے ماننے والے راہ یافتہ ہو کر خوش ہو جائیں ۔