Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
قُلۡ نَزَّلَهٗ رُوۡحُ الۡقُدُسِ مِنۡ رَّبِّكَ بِالۡحَـقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَهُدًى وَّبُشۡرٰى لِلۡمُسۡلِمِيۡنَ‏ ﴿102﴾
کہہ دیجئے کہ اسے آپ کے رب کی طرف سے جبرائیل حق کے ساتھ لے کر آئے ہیں تاکہ ایمان والوں کو اللہ تعالٰی استقامت عطا فرمائے اور مسلمانوں کی رہنمائی اور بشارت ہو جائے ۔
قل نزله روح القدس من ربك بالحق ليثبت الذين امنوا و هدى و بشرى للمسلمين
Say, [O Muhammad], "The Pure Spirit has brought it down from your Lord in truth to make firm those who believe and as guidance and good tidings to the Muslims."
Keh dijiye kay issay aap kay rab ki taraf say jibraeel haq kay sath ley ker aaye hain takay eman walon ko Allah Taalaa istaqamat ata farmaye aur musalmanon ki rehnumaee aur bisharat ho jaye.
کہہ دو کہ : یہ ( قرآن کریم ) تو روح القدس ( یعنی جبریل علیہ السلام ) تمہارے رب کی طرف سے ٹھیک ٹھیک لے کر آئے ہیں ، تاکہ وہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے ، اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری کا سامان ہو ۔
تم فرماؤ اسے پاکیزگی کی روح ( ف۲۳۸ ) نے اتارا تمہارے رب کی طرف سے ٹھیک ٹھیک کہ اس سے ایمان والوں کو ثابت قدم کرے اور ہدایت اور بشارت مسلمانوں کو ،
ان سے کہو کہ اسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا 103 ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے 104 اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور 105 انہیں فلاح و سعادت کی خوشخبری دے ۔ 106
فرما دیجئے: اس ( قرآن ) کو روحُ القدس ( جبرئیل علیہ السلام ) نے آپ کے رب کی طرف سے سچائی کے ساتھ اتارا ہے تاکہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے اور ( یہ ) مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہے
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :103 ”روح القدس“ کا لفظی ترجمہ ہے ” پاک روح“ یا ”پاکیزگی“ ۔ اور اصطلاحا یہ لقب حضرت جبریل علیہ السلام کو دیا گیا ہے ۔ یہاں وحی لانے والے فرشتے کا نام لینے کے بجائے اس کا لقب استعمال کرنے سے مقصود سامعین کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ اس کلام کو ایک ایسی روح لے کر آرہی ہے جو بشری کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے ۔ وہ نہ خائن ہے کہ اللہ کچھ بھیجے اور وہ اپنی طرف سے کمی بیشی کر کے کچھ اور بنا دے ۔ نہ کذاب و مفتری ہے کہ خود کوئی بات گھڑ کے اللہ کے نام سے بیان کر دے ۔ نہ بدنیت ہے کہ اپنی کسی نفسانی غرض کی بنا پر دھوکے اور فریب سے کام لے ۔ وہ سراسر ایک مقدس و مطہر روح ہے جو اللہ کا کلام پوری امانت کے ساتھ لا کر پہنچاتی ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :104 یعنی اس کے بتدریج اس کلام کو لے کر آنے اور بیک وقت سب کچھ نہ لے آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کے علم و دانش میں کوئی نقص ہے ، جیسا کہ تم نے اپنی نادانی سے سمجھا ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی قوت فہم اور قوت اخذ میں نقص ہے جس کے سبب سے وہ بیک وقت ساری بات کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ایک وقت کی سمجھی ہوئی بات میں پختہ ہو سکتا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالی کی حکمت اس بات کی مقتضی ہوئی کہ روح القدس اس کلام کو تھوڑا تھوڑا کر کے لائے ، کبھی اجمال سے کام لے اور کبھی اسی بات کی تفصیل بتائے ، کبھی ایک طریقہ سے بات سمجھائے اور کبھی دوسرے طریقے سے ، کبھی ایک پیرایہ بیان اختیار کرے اور کبھی دوسرا ، اور ایک ہی بات کو بار بار طریقے طریقے سےذہن نشینن کر نے کی کوشش کرے ، تاکہ مختلف قابلیتوں اور استعدادوں کے طالبین حق ایمان لا سکیں اور ایمان لانے کے بعد علم و یقین اور فہم و ادراک میں پختہ ہو سکیں ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :105 یہ اس تدریج کی دوسری مصلحت ہے ۔ یعنی یہ کہ جو لوگ ایمان لا کر فرمانبرداری کی راہ پر چل رہے ہیں ان کو دعوت اسلامی کے کام میں اور زندگی کے پیش آمدہ مسائل میں جس موقع پر جس قسم کی ہدایات درکار ہوں وہ بروقت دے دی جائیں ۔ ظاہر ہے کہ نہ انہیں قبل از وقت بھیجنا مناسب ہوسکتا ہے ، اور نہ بیک وقت ساری ہدایات دے دینا مفید ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :106 یہ اس کی تیسری مصلحت ہے ۔ یعنی یہ کہ فرماں برداروں کو جن مزاحمتوں اور مخالفتوں سے سابقہ پیش آرہا ہے اور جس جس طرح انہیں ستایا اور تنگ کیا جا رہا ہے اور دعوت اسلامی کے کام میں مشکلات کے جو پہاڑ سد راہ ہو رہے ہیں ، ان کی وجہ سے وہ بار بار اس کے محتاج ہوتے ہیں کہ بشارتوں سے ان کی ہمت بندھائی جاتی رہے اور ان کو آخری نتائج کی کامیابی کا یقین دلایا جاتا رہے تاکہ وہ پر امید رہیں اور دل شکستہ نہ ہونے پائیں ۔