Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
وَلَـقَدۡ نَـعۡلَمُ اَنَّهُمۡ يَقُوۡلُوۡنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ‌ؕ لِسَانُ الَّذِىۡ يُلۡحِدُوۡنَ اِلَيۡهِ اَعۡجَمِىٌّ وَّهٰذَا لِسَانٌ عَرَبِىٌّ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿103﴾
ہمیں بخوبی علم ہے کہ یہ کافر کہتے ہیں کہ اسے تو ایک آدمی سکھاتا ہے اس کی زبان جس کی طرف یہ نسبت کر رہے ہیں عجمی ہے اور یہ قرآن تو صاف عربی زبان میں ہے ۔
و لقد نعلم انهم يقولون انما يعلمه بشر لسان الذي يلحدون اليه اعجمي و هذا لسان عربي مبين
And We certainly know that they say, "It is only a human being who teaches the Prophet." The tongue of the one they refer to is foreign, and this Qur'an is [in] a clear Arabic language.
Humen bakhoobi ilm hai kay yeh kafir kehtay hain kay issay to aik aadmi sikhata hai uss ki zaban jiss ki taraf yeh nisbat ker rahey hain ajami hai aur yeh quran to saaf arabi mein hai.
اور ( اے پیغمبر ) ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ ( تمہارے بارے میں ) یہ کہتے ہیں کہ : ان کو تو ایک انسان سکھاتا پڑھاتا ہے ۔ ( حالانکہ ) جس شخص کا یہ حوالہ دے رہے ہیں اس کی زبان عجمی ہے ۔ ( ٤٥ ) اور یہ ( قرآن کی زبان ) صاف عربی زبان ہے
اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں ، یہ تو کوئی آدمی سکھاتا ہے ، جس کی طرف ڈھالتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ روشن عربی زبان ( ف۲۳۹ )
ہمیں معلوم ہے یہ لوگ تمہارے متعلق کہتے ہیں کہ اس شخص کو ایک آدمی سکھاتا پڑھاتا ہے ۔ 107 حالانکہ ان کا اشارہ جس آدمی کی طرف ہے اس کی زبان عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے ۔
اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ وہ ( کفار و مشرکین ) کہتے ہیں کہ انہیں یہ ( قرآن ) محض کوئی آدمی ہی سکھاتا ہے ، جس شخص کی طرف وہ بات کو حق سے ہٹاتے ہوئے منسوب کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ قرآن واضح و روشن عربی زبان ( میں ) ہے
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :107 روایات میں مختلف اشخاص کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ کفار مکہ ان میں سے کسی پر یہ گمان کرتے تھے ۔ ایک روایت میں اس کا نام جبر بیان کیا گیا ہے جو عامر بن الحضرمی کا ایک رومی غلام تھا ۔ دوسری روایت میں حُوَیطِب بن عبد العُزّیٰ کے ایک غلام کا نام لیا گیا ہے جسے عائش یا یَعیش کہتے تھے ۔ ایک اور روایت میں یَسار کا نام لیا گیا ہے جس کی کنیت ابُو فکَیہَہ تھی اور جو مکے کی ایک عورت کا یہودی غلام تھا ۔ ایک اور روایت بَلعان یا بَلعام نامی ایک رومی غلام سے متعلق ہے ۔ بہرحال ان میں سے جو بھی ہو ، کفار مکہ نے محض یہ دیکھ کر کہ ایک شخص تورات و انجیل پڑھتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے ملاقات ہے ، بے تکلف یہ الزام گھڑ دیا کہ اس قرآن کو دراصل وہ تصنیف کر رہا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی طرف سے خدا کا نام لے لے کر پیش کر رہے ہیں ۔ اس سے نہ صرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین آپ کے خلاف افترا پردازیاں کرنے میں کس قدر بے باک تھے ، بلکہ یہ سبق بھی ملتا ہے کہ لوگ اپنے ہم عصروں کی قدر و قیمت پہچاننے میں کتنے بے انصاف ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں کے سامنے تاریخ انسانی کی ایک ایسی عظیم شخصیت تھی جس کی نظیر نہ اس وقت دنیا بھر میں کہیں موجود تھی اور نہ آج تک پائی گئی ہے ۔ مگر ان عقل کے اندھوں کو اس کے مقابلہ میں ایک عجمی غلام ، جو کچھ تورات و انجیل پڑھ لیتا تھا ، قابل تر نظر آرہا تھا اور وہ گمان کر رہےتھے کہ یہ گوہر نایاب اس کوئلے سے چمک حاصل کر رہا ہے ۔
سب سے زیادہ منزلت و رفعت والا کلام کافروں کی ایک بہتان بازی بیان ہو رہی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اسے یہ قرآن ایک انسان سکھاتا ہے ۔ قریش کے کسی قبیلے کا ایک عجمی غلام تھا ، صفا پہاڑی کے پاس خرید و فروخت کیا کرتا تھا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی اس کے پاس بیٹھ جایا کرتے تھے اور کچھ باتیں کر لیا کرتے تھے ، یہ شخص صحیح عربی زبان بولنے پر بھی قادر نہ تھا ۔ ٹوٹی پھوٹی زبان میں بمشکل اپنا مطلب ادا کر لیا کرتا تھا ۔ اس افترا کا جواب جناب باری دیتا ہے کہ وہ کیا سکھائے گا جو خود بولنا نہیں جانتا ، عجمی زبان کا آدمی ہے اور یہ قرآن تو عربی زبان میں ہے ، پھر فصاحت و بلاغت والا ، کمال و سلاست والا ، عمدہ اور اعلیٰ پاکیزہ اور بالا ۔ معنی ، مطلب ، الفاظ ، واقعات ہیں ۔ سب سے نرالا بنی اسرائیل کی آسمانی کتابوں سے بھی زیادہ منزلت اور رفعت والا ۔ وقعت اور عزت والا ۔ تم میں اگر ذرا سی عقل ہوتی تو یوں ہتھیلی پر چراغ رکھ کر چوری کرنے کو نہ نکلتے ، ایسا جھوٹ نہ بکتے ، جو بیوقوفوں کے ہاں بھی نہ چل سکے ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ ایک نصرانی غلام جسے جبر کہا جاتا تھا جو بنو حضرمی قبیلے کے کسی شخص کا غلام تھا ، اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مروہ کے پاس بیٹھ جایا کرتے تھے ، اس پر مشرکین نے یہ بےپر کی اڑائی کہ یہ قرآن اسی کا سکھایا ہوا ہے اس کے جواب میں یہ آیت اتری ۔ کہتے ہیں کہ اس کا نام یعیش تھا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں مکہ شریف میں ایک لوہار تھا جس کا نام بلعام تھا ۔ یہ عجمی شخص تھا ، اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم دیتے تھے تو آپ کا اس کے پاس آنا جانا دیکھ کر قریش مشہور کرنے لگے کہ یہی شخص آپ کو کچھ سکھاتا ہے اور آپ اسے کلام اللہ کے نام سے اپنے حلقے میں سکھاتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے مراد اس سے سلمان فارسی ہیں رضی اللہ عنہ ۔ لیکن یہ قول تو نہایت بودا ہے کیونکہ حضرت سلمان تو مدینے میں آپ سے ملے اور یہ آیت مکے میں اتری ہے ۔ عبید اللہ بن مسلم کہتے ہیں ہمارے دو مقامی آدمی روم کے رہنے والے تھے جو اپنی زبان میں اپنی کتاب پڑھتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاتے آتے کبھی ان کے پاس کھڑے ہو کر سن لیا کرتے ، اس پر مشرکین نے اڑایا کہ انہی سے آپ قرآن سیکھتے ہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری ، سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مشرکین میں سے ایک شخص تھا جو وحی لکھا کرتا تھا ، اس کے بعد وہ اسلام سے مرتد ہو گیا اور یہ بات گھڑلی ۔ اللہ کی لعنت ہو اس پر ۔