Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
اِنَّ اِبۡرٰهِيۡمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيۡفًاؕ وَلَمۡ يَكُ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَۙ‏ ﴿120﴾
بیشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالٰی کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے ۔ وہ مشرکوں میں سے نہ تھے ۔
ان ابرهيم كان امة قانتا لله حنيفا و لم يك من المشركين
Indeed, Abraham was a [comprehensive] leader, devoutly obedient to Allah , inclining toward truth, and he was not of those who associate others with Allah .
Be-shak ibrahim paishwa aur Allah Taalaa kay farmanbardaar aur yak tarfa muslim thay. Woh mushriko mein say na thay.
بیشک ابراہیم ایسے پیشوا تھے جنہوں نے ہر طرف سے یکسو ہو کر اللہ کی فرمانبرداری اختیار کرلی تھی ، اور وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں ۔
یشک ابراہیم ایک امام تھا ( ف۳۷۵ ) اللہ کا فرمانبردار اور سب سے جدا ( ف۲۷٦ ) اور مشرک نہ تھا ، ( ف۲۷۷ )
واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم ( علیہ السلام ) اپنی ذات سے ایک پوری امت تھا ، 119 اللہ کا مطیع فرمان اور یکسو ۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا ۔
بیشک ابراہیم ( علیہ السلام تنہا ذات میں ) ایک اُمت تھے ، اللہ کے بڑے فرمانبردار تھے ، ہر باطل سے کنارہ کش ( صرف اسی کی طرف یک سُو ) تھے ، اور مشرکوں میں سے نہ تھے
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :119 یعنی وہ اکیلا انسان بجائے خود ایک امت تھا ۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا تو ایک طرف وہ اکیلا اسلام کا علمبردار تھا اور دوسری طرف ساری دنیا کفر کی علمبردار تھی ۔ اس اکیلے بندہ خدا نے وہ کام کیا جو ایک امت کے کرنے کا تھا ۔ وہ ایک شخص نہ تھا بلکہ ایک پورا ادارہ تھا ۔
جد از انبیاء حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام ہدیات کے امام امام حنفا ، والد انبیاء ، خلیل الرحمان ، رسول جل وعلا ، حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و التسلیم کی تعریف بیان ہو رہی ہے اور مشرکوں یہودیوں اور نصرانیوں سے انہیں علیحدہ کیا جا رہا ہے ۔ امتہ کے معنی امام کے ہیں جن کی اقتدا کی جائے قانت کہتے ہیں اطاعت گزار فرماں بردار کو ، حنیف کے معنی ہیں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف آ جانے والا ۔ اسی لئے فرمایا کہ وہ مشرکوں سے بیزار تھا ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب امت قانت کے معنی دریافت کئے گئے تو فرمایا لوگوں کو بھلائی سکھانے والا اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی کرنے والا ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں امت کے معنی ہیں لوگوں کے دین کا معلم ۔ ایک مرتبہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضرت معاذ امت قانت اور حنیف تھے اس پر کسی نے اپنے دل میں سوچا کہ عبداللہ غلطی کر گئے ایسے تو قرآن کے مطابق حضرت خلیل الرحمن تھے ۔ پھر زبانی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو امت فرمایا ہے تو آب نے فرمایا جانتے بھی ہو امت کے کیا معنی ؟ اور قانت کے کیا معنی ؟ امت کہتے ہیں اسے جو لوگوں کو بھلائی سکھائے اور قانت کہتے ہیں اسے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگا رہے ۔ بیشک حضرت معاذ ایسے ہی تھے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہ تنہا امت تھے اور تابع فرمان تھے ۔ وہ اپنے زمانہ میں تنہا موحد و مومن تھے ۔ باقی تمام لوگ اس وقت کافر تھے ۔ قتادہ فرماتے ہیں وہ ہدایت کے امام تھے اور اللہ کے غلام تھے ۔ اللہ کی نعمتوں کے قدر دان اور شکر گزار تھے اور رب کے تمام احکام کے عامل تھے جیسے خود اللہ نے فرمایا جد از انبیاء حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام ہدیات کے امام٭٭ امام حنفائ ، والد انبیائ ، خلیل الرحمان ، رسول جل وعلا ، حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و التسلیم کی تعریف بیان ہو رہی ہے اور مشرکوں یہودیوں اور نصرانیوں سے انہیں علیحدہ کیا جا رہا ہے ۔ امتہ کے معنی امام کے ہیں جن کی اقتدا کی جائے قانت کہتے ہیں اطاعت گذار فرماں بردار کو ، حنیف کے معنی ہیں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف آ جان والا ۔ اسی لئے فرمایا کہ وہ مشرکوں سے بیزار تھا ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب امت قانت کے معنی دریافت کئے گئے تو فرمایا لوگوں کو بھلای سکھانے والا اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی کرنے والا ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں امت کے معنی ہیں لوگوں کے دین کا معلم ۔ ایک مرتبہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضرت معاذ امت قانت اور حنیف تھے اس پر کسی نے اپنے دل میں سوچا کہ عبداللہ غلطی کر گئے ایسے تو قرآن کے مطابق حضرت خلیل الرحمن تھے ۔ پھر زبانی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو امت فرمایا ہے تو آب نے فرمایا جانتے بھی ہو امت کے کیا معنی ؟ اور قانت کے کیا معنی ؟ امت کہتے ہیں اسے جو لوگوں کو بھلائی سکھائے اور قانت کہتے ہیں اسے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگا رہے ۔ بیشک حضرت معاذ ایسے ہی تھے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہ تنہا امت تھے اور تابع فرمان تھے ۔ وہ اپنے زمانہ میں تنہا موحد ومومن تھے ۔ باقی تمام لوگ اس وقت کافر تھے ۔ قتادہ فرماتے ہیں وہ ہدایت کے امام تھے اور اللہ کے غلام تھے ۔ اللہ کی نعمتوں کے قدرداں اور شکر گزار تھے اور رب کے تمام احکام کے عامل تھے جیسے خود اللہ نے فرمایا وابراہیم الذی وفی وہ ابراہیم جس نے پورا کیا یعنی اللہ کے تمام احکام کو تسلیم کیا ۔ اور ان پر علم بجا لایا ۔ اسے اللہ نے مختار اور مصطفی بنالیا ۔ جیسے فرمان ہے ولقد اتینا ابراہیم رشدہ الخ ہم نے پہلے ہی سے ابراہیم کو رشد و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اسے خوب جانتے تھے ۔ اسے ہم نے راہ مستقیم کی رہبری کی تھی صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک لہ کی وہ عبادت واطاعت کرتے تھے اور اللہ کی پسندیدہ شریعت پر قائم تھے ۔ ہم نے انہیں دین دنیا کی خبر کا جامع بنایا تھا اپنی پاکیزہ زندگی کے تمام ضروری اوصاف حمیدہ ان میں تھے ۔ ساتھ ہی آخرت میں بھی نیکوں کے ساتھی اور صلاحیت والے تھے ۔ ان کا پاک ذکر دنیا میں بھی باقی رہا اور آخرت میں بڑے عظیم الشان درجے ملے ۔ ان کے کمال ، ان کی عظمت ، ان کی محبت ، توحید اور ان کے پاک طریق پر اس سے بھی روشنی پڑتی ہے کہ اے خاتم رسل اے سیدالانبیاءتجھے بھی ہمارا حکم ہو رہا ہے کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرکوں سے بری الذمہ تھا ۔ سورہ انعام میں ارشاد ہے ۔ قل اننی ہدانی ربی الا صراط مستقیم الخ کہہ دے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی رہبری کی ہے ۔ مضبوط اور قائم دین ابراہیم حنیف کی جو مشرکوں میں نہ تھا ۔ پھر یہودیوں پر انکار ہو رہا ہے اور فرمایا جا رہا ہے ۔ آیت ( وابراہیم الذی وفی ) وہ ابراہیم جس نے پورا کیا یعنی اللہ کے تمام احکام کو تسلیم کیا ۔ اور ان پر علم بجا لایا ۔ اسے اللہ نے مختار اور مصطفی بنا لیا ۔ جیسے فرمان ہے ( وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ 51؀ۚ ) 21- الأنبياء:51 ) ہم نے پہلے ہی سے ابراہیم کو رشد و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اسے خوب جانتے تھے ۔ اسے ہم نے راہ مستقیم کی رہبری کی تھی صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک لہ کی وہ عبادت و اطاعت کرتے تھے اور اللہ کی پسندیدہ شریعت پر قائم تھے ۔ ہم نے انہیں دین دنیا کی خبر کا جامع بنایا تھا اپنی پاکیزہ زندگی کے تمام ضروری اوصاف حمیدہ ان میں تھے ۔ ساتھ ہی آخرت میں بھی نیکوں کے ساتھی اور صلاحیت والے تھے ۔ ان کا پاک ذکر دنیا میں بھی باقی رہا اور آخرت میں بڑے عظیم الشان درجے ملے ۔ ان کے کمال ، ان کی عظمت ، ان کی محبت ، توحید اور ان کے پاک طریق پر اس سے بھی روشنی پڑتی ہے کہ اے خاتم رسل اے سید الانبیاء تجھے بھی ہمارا حکم ہو رہا ہے کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرکوں سے بری الذمہ تھا ۔ سورہ انعام میں ارشاد ہے ۔ آیت ( قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ڬ دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ١٦١؁ ) 6- الانعام:161 ) کہہ دے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی رہبری کی ہے ۔ مضبوط اور قائم دین ابراہیم حنیف کی جو مشرکوں میں نہ تھا ۔ پھر یہودیوں پر انکار ہو رہا ہے اور فرمایا جا رہا ہے ۔