Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
اِنَّمَا جُعِلَ السَّبۡتُ عَلَى الَّذِيۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِيۡهِ‌ؕ وَاِنَّ رَبَّكَ لَيَحۡكُمُ بَيۡنَهُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ فِيۡمَا كَانُوۡا فِيۡهِ يَخۡتَلِفُوۡنَ‏ ﴿124﴾
ہفتے کے دن کی عظمت تو صرف ان لوگوں کے ذمے ہی ضروری کی گئی تھی جنہوں نے اس میں اختلاف کیا تھا بات یہ ہے کہ آپ کا پروردگار خود ہی ان میں ان کے اختلاف کا فیصلہ قیامت کے دن کرے گا ۔
انما جعل السبت على الذين اختلفوا فيه و ان ربك ليحكم بينهم يوم القيمة فيما كانوا فيه يختلفون
The sabbath was only appointed for those who differed over it. And indeed, your Lord will judge between them on the Day of Resurrection concerning that over which they used to differ.
Haftay kay din ki azmat to sirf unn logon kay zimmay hi zaroori ki gaee thi jinhon ney uss mein ikhtilaf kiya tha baat yeh hai kay aap ka perwerdigar khud hi unn mein unn kay ikhtilaf ka faisla qayamat kay din keray ga.
سنیچر کے دن کے احکام تو ان لوگوں پر لازم کیے گئے تھے جنہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا تھا ۔ ( ٥٢ ) اور یقین رکھو کہ تمہارا رب قیامت کے دن ان کے درمیان ان تمام باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں لوگ اختلاف کیا کرتے تھے ۔
ہفتہ تو انھیں پر رکھا گیا تھا جو اس میں مختلف ہوگئے ( ف۲۸۱ ) اور بیشک تمہارا رب قیامت کے دن ان میں فیصلہ کردے گا جس بات میں اختلاف کرتے تھے ، ( ف۲۸۲ )
رہا سبت ، تو وہ ہم نے ان لوگوں پر مسلط کیا تھا جنہوں نے اس کے احکام میں اختلاف کیا 121 ، اور یقینا تیرا رب قیامت کے روز ان سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں ۔
ہفتہ کا دن صرف انہی لوگوں پر مقرر کیا گیا تھا جنہوں نے اس میں اختلاف کیا ، اور بیشک آپ کا رب قیامت کے دن اُن کے درمیان اُن ( باتوں ) کا فیصلہ فرما دے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :121 یہ کفار مکہ کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے ۔ اس میں یہ بیان کرنے کی حاجت نہ تھی کہ سبت بھی یہودیوں کے لیے مخصوص تھا اور ملت ابراہیمی میں حرمتِ سبت کا کوئی وجود نہ تھا ، کیونکہ اس بات کو خود کفار مکہ بھی جانتے تھے ۔ اس لیے صرف اتنا ہی اشارہ کر نے پر اکتفا کیا گیا کہ یہودیوں کے ہاں سبت کے قانون میں جو سختیاں تم پاتے ہو یہ ابتدائی حکم میں نہ تھیں بلکہ یہ بعد میں یہودیوں کی شرارتوں اور احکام کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ان پر عائد کی گئی تھیں ۔ قرآن مجید کے اس اشارے کو آدمی اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ ایک طرف بائیبل کے ان مقامات کو نہ دیکھے جہاں سبت کے احکام بیان ہوئے ہیں ( مثلاً ملاحظہ ہو خروج باب ۲۰ ، آیت ۸ تا ۱۱ ۔ باب ۲۳ ، آیت ۱۲ و ۱۳ ۔ باب ۳۱ ، آیت ۱۲ تا ۱۷ ۔ باب ۳۵ ، آیت ۲ و ۳ ۔ گنتی باب ۱۵ ، آیت ۳۲ تا ۳٦ ) ، اور دوسری طرف ان جسارتوں سے واقف نہ ہو جو یہودی سبت کی حرمت کو توڑنے میں ظاہر کرتے رہے ( مثلًا ملاحظہ ہو یر میاہ باب ۱۷ ، آیت ۲۱ تا ۲۷ ۔ حِزقِی ایل ، باب ۲۰ ، آیت ۱۲ تا ۲٤ ) ۔
جمعہ کا دن ہر امت کے لئے ہفتے میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے ایسا مقرر کیا ہے جس میں وہ جمع ہو کر اللہ کی عبادت کی خوشی منائیں ۔ اس امت کے لئے وہ دن جمعہ کا دن ہے ، اس لئے کہ وہ چھٹا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کا کمال کیا ۔ اور ساری مخلوق پیدا ہو چکی اور اپنے بندوں کو ان کی ضرورت کی اپنی پوری نعمت عطا فرما دی ۔ مروی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبانی یہی دن بنی اسرائیل کے لئے مقرر فرمایا گیا تھا لیکن وہ اس سے ہٹ کر ہفتے کے دن کو لے بیٹھے ، یہ سمجھے کہ جمعہ کو مخلوق پوری ہو گئی ، ہفتہ کے دن اللہ نے کوئی چیز پیدا نہیں کی ۔ پس تورات جب اتری ان پر وہی ہفتے کا دن مقرر ہوا اور انہیں حکم ملا کہ اسے مضبوطی سے تھامے رہیں ، ہاں یہ ضرور فرما دیا گیا تھا کہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی آئیں تو وہ سب کے سب کو چھوڑ کر صرف آپ ہی کی اتباع کریں ۔ اس بات پر ان سے وعدہ بھی لے لیا تھا ۔ پس ہفتے کا دن انہوں نے خود ہی اپنے لئے چھانٹا تھا ۔ اور آپ ہی جمعہ کو چھوڑا تھا ۔ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے زمانہ تک یہ اسی پر رہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پھر آپ نے انہیں اتوار کے دن کی طرف دعوت دی ۔ ایک قول ہے کہ آپ نے توراۃ کی شریعت چھوڑی نہ تھی سوائے بعض منسوخ احکام کے اور ہفتے کے دن کی محافظت آپ نے بھی برابر داری رکھی ۔ جب آپ آسمان پر چڑھا لئے گئے تو آپ کے بعد قسطنطین بادشاہ کے زمانے میں صرف یہودیوں کی ضد میں آ کر صخرہ سے مشرق جانب کو اپنا قبلہ انہوں نے مقرر کر لیا اور ہفتے کی بجائے اتوار کا دن مقرر کر لیا ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ عیہ وسلم فرماتے ہیں ہم سب سے آخر والے ہیں اور قیامت کے دن سب سے آگے والے ہیں ۔ ہاں انہیں کتاب اللہ ہم سے پہلے دی گئی ۔ یہ دن بھی اللہ نے ان پر فرض کیا لیکن ان کے اختلاف نے انہیں کھو دیا اور اللہ رب العزت نے ہمیں اس کی ہدایت دی پس یہ سب لوگ ہمارے پیچھے پیچھے ہیں ۔ یہودی ایک دن پیچھے نصارنی دو دن ۔ آپ فرماتے ہیں ہم سے پہلے کی امتوں کو اللہ نے اس دن سے محروم کر دیا یہود نے ہفتے کا دن رکھا نصاری نے اتوار کا اور جمعہ ہمارا ہوا ۔ پس جس طرح دنوں کے اس اعتبار سے وہ ہمارے پیچھے ہیں ۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی ہمارے پیچھے ہی رہیں گے ۔ ہم دنیا کے اعتبار سے پچھلے ہیں اور قیامت کے اعتبار سے پہلے ہیں یعنی تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلے ہمارے ہوں گے ۔ ( مسلم )